• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ادب، ادیب اور میڈیا

افتخار عارف کا ایک شعر:

وہی چراغ بجھا جس کی لو قیامت تھی

اسی پہ ضرب لگی جو شجر پرانا تھا

ادب اور میڈیا کا تعلق جسم ور اس پر ستر جیسا ہے، درخت اور اس کی جڑ کی طرح ہے، انسان اور اس کی آنکھ جیسا ہے، اُستاد اور شاگرد کے بیچ انسیت کا نام ہے، ماں اور بچے کے درمیان جذباتی لگائو کے مصداق ہے، ادب تخلیق کی بنیاد ہے، اس کی تعظیم پہلا نقطہ ہے اور ہر یہ تعلق جب تاک میں تبدیل ہوجائے تو خبر بنتی ہے۔ اس وقت میڈیا میں بریکنگ نیوز ایک سنگین معاملہ بن چکا ہے۔ میں ادب اور بریکنگ نیوز پر آسان الفاظ میں روشنی ڈالنا چاہتا ہوں۔ انگور ادب ہے، اس کو کشید کرنا آرٹ ہے، اسے قتل اور خودکشی کے لیے استعمال کرنا بریکنگ نیوز ہے۔ پوست کی کاشت ادب ہے، اسے میڈیسن کے طورپر استعمال میں لانا اس کا فن ہے، لیکن اس سے ہیروئن کشید کرنا بریکنگ نیوز ہے۔ سائنس ادب ہے، ایجادات اس کا آرٹ ہے، مگر ڈرٹی بم بنانا بریکنگ نیوز ہے، مذہب ادب ہے، عبادت اس کا آرٹ ہے، تفرقہ بازی کے نام پر قتل و غارت گری کرنا بریکنگ نیوز ہے۔ سیاست ادب ہے، سیاسی چال چلنا اس کا آرٹ ہے، مگر سیاست میں ظلم و استحصال اور دھوکہ دہی بریکنگ نیوز ہے۔ ادب اینٹی بائیوٹک ہے۔ لوبان ہے، نروان ہے، الفاظ کا گلستان ہے، جب تک ایسا سوچا جارہا تھا ادب اور میڈیا کا رشتہ اور برتائو بہتر تھا، معاشرے میں نہ تو ایسا بے ہنگم شور سنائی دیتا تھا اور نہ ہی معاشرے میں تنگی اور کسی قسم کے گھٹن کا احساس تھا۔ ادب حسیات کی جب تک ترجمانی پر مامور تھا، قربت کے چند لمحے برسوں کی خوشگواریت جیسا تاثر لے کر آتے، لیکن ترجمانی کی یہ ذمے داری جب ختم ہوئی تو لوگ کسی فاسل کی طرح پتھرا گئے، دل پتھر، آنکھیں پتھر اور دماغ کسی گرم دوپہر کی صحرا کی طرح گنگ، سکتہ زدہ رہ گئے، بغیر کسی بریکنگ نیوز کے امن کا زمانہ تو وہ تھا، جب میرے شہر میں گھروں کی دیواروں سے سیب اور انگور جھانکتے ہوئے ملتے تھے۔ مجال ہے اس تانکا جھانکی کا کوئی ناجائز فائدہ اٹھاتا۔ ہوٹلوں میں اپنے پسند کے گانے سننے والے قطار اندر قطار نظر آتے۔ پکنگ کے لیے تفریحی پوائنٹس آباد رہتے، سنیمائوں کے ارد گرد خواتین اور مردوں کا ہجوم دیدنی تھا۔ پڑھنے والوں کے لیے لائبریریوں کا رواج عام تھا۔ نوجوان فلمی ہیروز کے نہ صرف فین ہوتے، بلکہ مردانگی کے کرشماتی اوصاف خود میں پیدا کرنے کی خواہش رکھتے تھے۔ لڑکیاں کسی فلمی ہیروئن کے طور پر مردانہ وجاہت کے حامل ہم سفر کا خواب دیکھا کرتیں، اس کے پس پردہ بڑے بڑے ادیب اور قلم کار اخلاقی اقدار کا درس دینے اور فلم بینوں کے سچے جذبات کی ترجمانی کا حق ادا کرنے میں مصروف تھے۔ لڑائیاں کیا تھیں، دلیپ کمار اور محمد علی کی طرح دو چار مکوں سے زیادہ تجاوز نہ کرتیں، اشفاق احمد، ڈاکٹر انور سجاد، تاج رئیسانی، افضل مراد و دیگر کے ڈرامے پسند کیے جاتے۔ فیض، عطا شاد، حبیب جالب، خادم مرزا، منٹو، منیر نیازی اور بہت سے گوہر نایاب ادب کے سمبلز بنے۔ ریل اور ہوائی جہاز کے دوران لوگ ڈائجسٹ، اخبارات اور ادبی رسائل کے مطالعے میں غرق نظر آتے، پھر کیا ہوا ادب غائب قتل، دھماکے، بدعنوانی، اغوا برائے تاوان اور اسلحے کی نمائش کا کلچر ایسے پروان چڑھا کہ اب سفر کے دوران کلمۂ طیبہ کا ورد کرنے کے علاوہ مسافروں کو اور کچھ یاد نہیں رہتا۔ کتب فروش مجبور ہوکر کاسمیٹکس کے کاروبار سے جت گئے۔

میڈیا پر بچوں کو کیا سکھایا جارہا ہے کیٹ واک، موبائل پیکیجز پر لمبی گفتگو، مضر صحت مشروبات میں دلچسپی اور گھریلو خواتین کو بھانت بھانت کی مصنوعات خریدنے کی ترغیب۔ ادب نرم دلی کا نام ہے، جبکہ میڈیا سنگ دلی کے وظیفے پر مامور۔ یہیں سے تو خبر اور کہانی کا فرق واضح ہوتا ہے۔ بے ادب لوگ، پالیسی ساز ہو ہی نہیں سکتے، کیونکہ دانش اور دانشوری کے لیے، ادب ناگزیر ہے، کہاں ہیں، وہ پڑھے لکھے ادیب اور دانشور، جو اخبارات کی ایڈیٹنگ کا نازک ترین کام کرتے تھے۔ ڈراموں اور فلموں کے پیچھے چھپا ہوا ادیب و دانش ور کیسے کہاں اور کیوں عنقا ہوا، یہ سب ملک میں نام نہاد سرمایہ دارانہ نظام کی آمد سے ہوا اور اسی نظام نے عوام کو تشدد کا راستہ دکھایا۔ ناانصافی پر اترانے کی جرات دی۔ رشتوں کے تقدس کو پامال کرنے کا اختیار دیا۔ اگر ان سے نجات کا کوئی کلیہ ہے تو وہ ادبی اقدار کی بحالی سے مشروط ہے۔

جہل خرد نے دن یہ دکھائے

گھٹ گئے انسان بڑھ گئے سائے

ماضی میں اخبار کا ایک اداریہ ذہنوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا تھا، اب ایسا کیوں نہیں، کیونکہ ہم نظریاتی صحافت کو تیاگ چکے ہیں۔ بھانڈے قلعی کرالو کی طرح پرانے پاکستان کو نیا بنایا جارہا ہے، اس لائٹ ہائوس میں خریدار بڑھ چڑھ کر بولی لگا رہے ہیں، اس اجنبیت کی بیماری کے پھیلانے میں کس کا ہاتھ ہے ، یہ سوچنے کی بات ہے۔ بقول شاعر:

آدمی، آدمی سے ملتا ہے

دل، مگر کم کسی سے ملتا ہے

یہ ادب ہی تو ہے، جو آئینہ دکھاتا ہے، دلوں کو منور کرتا ہے، اذہان کو تقویت بخشتا ہے۔

کام کوئی برا نہیں ہوتا، بات کوئی بری نہیں ہوتی، لیکن جس کسی کام میں بگاڑ آجائے، کسی بات سے طوفان برپا ہو تو ابنِ عطا کی طرح بولنا پڑتا ہے کہ ’’ہر وہ کام، ہر وہ بات جس کے بارے میں سوال کیا جائے، اسے علم کے جنگلوں میں تلاش کرو، اگر وہاں نہ ملے تو اسے حکمت کے میدان میں ڈھونڈو، اگر وہاں بھی نہ ملے تو اسے توحید کے ترازو میں تولو، اگر ان تینوں مقامات پر نہ ملے تو اسے شیطان کے منہ پر دے مارو۔‘‘

ہمارے ارد گرد ہر مشکل، بدتہذیبی کی پیدا کردہ ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ جس قینچی نے اس کی شاخ تراشی کرنی ہے، اسے استعمال میں ہی نہیں لایا جارہا ہے۔ اسے زنگ آلود بنانے کی طرح طرح کوششیں کی جارہی ہیں۔ اگر یہ سلسلہ یونہی آگے بڑھتا رہا تو آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق ہم میں سے ہر شخص گُلو بٹ جیسا ہوگا، جسے اپنے ہی مظلوم بھائی کو ستانے ، رلانے، مارنے، گرانے کا چسکا ہوگا۔ یہ نفسیات ہے، جو ادب سے رو گردانی سے جنم لے چکی ہے، جو ذہنی ناہمواری سے پھیلتا جارہا ہے اور میڈیا دانستہ یا غیر دانستہ اس جرم کا مرتکب ہورہا ہے۔ اگر ان رویوں سے جان چھڑانی ہے تو کتاب کی حرمت ادیب کو معاشرے میں جائز مقام دینے سے فرار کی راہ ترک کرنا ہوگی۔

بقول رئیس فروغ:

تلاش گم شدگان میں نکل چلوں، لیکن

یہ سوچتا ہوں کہ کھویا ہوا تو میں بھی ہوں

خبر یہ ہے کہ ادب کا سنجیدہ قاری، میسنگ ہے۔ نظریاتی لکھاری نو گو ایریاز میں رہائش پذیر ہیں۔ باقی ماندہ بحریہ ٹائونز میں مکانات حاصل کرنے کے لیے سرگرداں ہیں۔ پبلشرز کاروباری ڈرائون اٹیک کے خوف سے مورچہ بند ہوگئے ہیں۔ گھوسٹ ملازمین کی طرح دنیا میں گھوسٹ حکومتوں کا معاملہ بھی اٹھ چکا ہے۔ کاغذ کی بجائے، انسانی کھالوں پر پیغام رسانی کے تجربات کو ترقی پذیر ممالک میں پذیرائی مل رہی ہے۔ اپنے ملک میں ڈیموں کی ضرورت نہیں، کیونکہ پانی کا مسئلہ مشروبات سے حل کرنے کی منصوبہ بندی کرلی گئی ہے۔ آخری خبر یہ ہے کہ کرکٹ کے ذریعے سفارت کاری کی بجائے، آئندہ چھوٹو ڈکیت جیسے لوگوں پر سرمایہ کاری ہوگی۔

تازہ ترین