• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈایجسٹ:

کنول بہزاد ،لاہور

اس نئی فیکٹری میں اُسے دوسرا دِن تھا۔وہ سَرجُھکائے اپنے کام میں مصروف تھی کہ اچانک ایک کڑک دار آواز سے چونک گئی۔ ’’ذرا تیز ہاتھ چلا…جان نہیں ہے کیا تجھ میں۔‘‘زرینہ نے نظریں اوپر اُٹھائیں، تو ایک بار پھر چونکی،دوسری طرف بھی یہی عالم تھا۔دونوں کی آنکھوں میں ایک ہی سوال تھا۔’’تم یہاں…؟‘‘ رَجّو ایک لمحے کو رُکی اور پھر آگے بڑھ گئی۔نہ سلام، نہ دُعا۔ زرینہ نے حیرانی سے اُسے جاتے دیکھا اور پھر اپنے کام میں مصروف ہوگئی۔’’بڑی ظالم عورت ہے یہ، سارا دِن جھڑکیاں دیتی ہے اور کبھی کبھی تو ہاتھ بھی جڑ دیتی ہے۔تم نئی ہو،ذرا محتاط ہی رہنا۔کل نہیں آئی تھی، تو بڑا سُکون تھا۔‘‘اس کے دائیں ہاتھ بیٹھی عورت آہستگی سے بڑبڑائی۔لنچ بریک ہوا، تو سب عورتیں، تین تین چار چار کی ٹولیوں میں بٹ کر، اپنے اپنے ٹفن کھول کر کھانا کھانے لگیں۔ زرینہ کھانے کا بند ڈبّا لیے بیٹھی تھی کہ اچانک رَجّو اُس کے سَرپر آکھڑی ہوئی۔’’چل تجھ سے ذرا بات کرنی ہے۔‘‘وہ خاموشی سے اُٹھ کر اس کے پیچھے چل دی۔ ایک کیبن سی بنی ہوئی تھی، جس میں ایک کرسی، میز دھری تھی۔کیبن کی اوٹ میں رَجّو نے زرینہ کو گلے لگایا، تو دونوں کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔’’تو یہاں کیا کررہی ہے زرینہ! تیری شادی تو اچھے گھر میں ہوئی تھی۔اپنی زمینیں بھی تھیں؟‘‘ ’’ہاں…ماں باپ اپنے تئیں بیٹیوں کو اچھے گھروں ہی میں بیاہتے ہیں، پر…‘‘’’اچھا چل بیٹھ۔ یہ کھانا کھا، پھر چائے پیتے ہیں۔‘‘ دوچار نوالے کھائے، تو رَجّو نے پوچھا،’’بچّے کتنے ہیں تیرے؟‘‘ ’’چار ہیں۔تین لڑکیاں اور ایک لڑکا۔‘‘ ’’اچھا پھر ملیں گے۔‘‘بریک ختم ہونے کی گھنٹی بجی، تو رَجّو بولی۔ منیجر اُن کی طرف آتا دِکھائی دے رہا تھا۔

گھر آکے بھی رجّو، زرینہ کے بارے میں سوچتی رہی۔وہ دونوں پرائمری سے مڈل تک ساتھ پڑھی تھیں۔آدھی چُھٹی کے وقت دونوں اکٹھے بیٹھ کر لنچ کرتیں اور دنیا جہاں کی باتیں کیا کرتیں۔دونوں نویں جماعت میں آئیں، تو زرینہ کے گھر والوں نے اسے اسکول سے اُٹھالیا۔رَجّو اُسے کبھی کبھی ملنے جاتی، تو زرینہ بس اسکول کی باتیں ہی کیے جاتی۔ ’’پھراچانک پتا چلا زرینہ کی شادی ہورہی ہے۔ دلہن بن کر اُداس سی زرینہ بڑی پیاری لگ رہی تھی۔رَجّو کے لاکھ چھیڑنے پر بھی ذرا نہ مُسکرائی۔شادی کے بعد ان کا ایک دوبار ہی ملنا ہوا۔اتنے برسوں بعد اب اس گارمنٹ فیکٹری میں ملاقات ہوئی تھی۔اگلے دِن دونوں اکٹھے لنچ کرنے بیٹھیں، تو رَجّو بولی۔’’اس منیجر سے ذرا بچ کے رہنا،خراب نظریں ہیں اس کی۔‘‘’’اچھا، مگر یہاں کام کرنے والی ساری عورتیں تو یہ کہتی ہیں کہ تجھ سے بچ کے رہوں۔‘‘ زرینہ بے ساختہ بولی، تو رَجّو نے قہقہہ لگایا۔ ’’گزرے برسوں نے مجھے بہت مضبوط بنادیا ہے۔‘‘ زرینہ ذرا توقف کے بعد ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولی، تو جانے کیوں رَجّو کے سامنے اسکول میں ساتھ پڑھنے والی نازک چھوئی موئی سی زرینہ چَھم سے آکھڑی ہوئی۔’’رَجّو! تُو گھر آنا،کسی دِن۔‘‘ زرینہ نے کہا۔ ’’تُو نے تو میرے دِل کی بات کہہ دی۔ بس، اتوار کو ملتے ہیں، پھر دونوں سکھیاں ڈھیر ساری باتیں کریں گی۔‘‘رجّو فوراً بولی۔

اتوار والے دِن دونوں مل کے بیٹھیں، تو رَجّو نے کہا،’’اب بتا، وہ نازک سی زرینہ اتنی بدل کیسے گئی؟‘‘زرینہ کتابِ ماضی کے اوراق پلٹنے لگی۔تجھے یاد ہی ہوگا، مَیں اپنی شادی پر کتنی پریشان تھی۔سوچتی تھی کیا ابّا مجھے دو وقت کی روٹی نہیں دے سکتا، جو یوں پرائے گھر بھیج رہاہے،مگرنکاح کے دو بولوں میں جانے کیا جادو تھا کہ مَیں جی جان سے شوکت کی ہوگئی۔جیسے وہ کوئی بادشاہ ہو اور مَیں کنیز۔بس، ہر لمحے اس کی خوشنودی کی چاہ، اس کا حُکم بجالانے کی فکر۔شروع میں وہ بھی ٹھیک ہی تھا یا شاید اپنی دیوانگی میں مجھے خبر ہی نہ ہوئی۔ پہلی بیٹی کی پیدایش پر جب ساس نے طعنے، کوسنے شروع کیے، تو جیسے وہ بھی مجھ سے کھنچا کھنچا رہنے لگا۔مَیں اپنے جُرم کی تلافی کے لیے اس کی مزید خدمت داری میں لگ گئی۔ ساس، سُسر، نندیں، دیور…مَیں نے سب کی خوشنودی کے لیے خود کو ’’کولھو کابیل‘‘ بنا لیا۔ مجھے ان سب کی ناراضی سے بڑا ڈر لگتا تھا۔ابّا نے ڈولی میں بٹھاتے وقت کہا تھا ’’زرینہ! اب اس گھر سے تیرا جنازہ ہی نکلے۔‘‘ میری گود میں دوسری اور پھر تیسری بیٹی آگئی اور زندگی جیسے مشکل سے مشکل ترہوتی گئی۔میری ساس اپنے بیٹے کا بیاہ کرنے میں ذرا دیر نہ لگاتی، اگر ہماری وٹے سٹے کی شادی نہ ہوتی۔میکے جاتی، تو ماں میرا چہرہ پڑھ کر کہتی، ’’جھلّیے…شوہر عورت کے سَر کا سائیں ہوتا ہے۔اللہ کے بعد سب سے بڑا آسرا اور سہارا۔کڑوی کسیلی سُن لیاکر۔عورت کا دِل بہت بڑا ہوتا ہے۔میری بیٹی بڑی ہمّت والی ہے۔‘‘مَیں اپنا حوصلہ بڑھاتی، خود کو اُمید دلاتی کہ میری محبّت، خدمت گزاری اور بیٹیوں کی ذمّے داری ایک دِن ضرور شوکت کو بدل دے گی۔کبھی کبھی اُس کا موڈ اچھا ہوتا اور وہ ہنس کے مجھ سے بات کرتا، تو مَیں ہوائوں میں اُڑنے لگتی۔ پھر اچانک سیلاب آیا اور ہماری کھڑی فصلیں ڈوب گئیں، تب سُسر نے کام کاج کی تلاش میں اُسے کراچی بھیج دیا۔ وہاں سے وہ جو پیسے بھیجتا، ساس،سُسر اپنے ہاتھ میں رکھتے۔میری بچّیاں اچھا کھانے اور پہننے کو ترستی رہتیں۔انہیں دیکھ کر میرے دِل میں ہُوک سی اُٹھتی کہ کاش!مَیں انہیں اچھی زندگی اور تعلیم دے پائوں۔پھر مَیں نے سلائی شروع کردی۔محلّے کے گھروں سے کام ملنے لگا، تو میری اور بچّیوں کی محرومیاں کم ہونے لگیں۔شوکت مہینوں بعد گھر آتا، تو جیسے مَیں ہر غم بھول جاتی۔اس کے لیے نئے کپڑے سی کر رکھتی، اس کی پسند کے کھانے بنانے کے چکر میں ساری جمع پونجی اُڑا دیتی۔ بڑی دونوں اسکول جاتی تھیں، پھر کچھ عرصے بعد میرا بیٹا میری گود میں آیا، تو مَیں خوشی سے پھولے نہ سمائی۔بس، ایک بیٹے ہی کی تو کمی تھی ہماری زندگی میں۔اب میں سُسرال میں سرخرو ہوگئی تھی اور شوہر کے آگے سرخروئی کی منتظر تھی، مگر وہ بیٹے کی پیدایش کا سُن کر بھی وہی مہینوں بعد آیا۔مَیں اس کے چہرے پر بیٹے کا باپ ہونے کی خوشی تلاشتی رہی، مگر وہاں تو خوشی کا شائبہ تک نہ تھا۔اُس دِن جانے کیوں میں بیٹے کو گود میں لیے دیر تک روتی رہی، پھر مجھے اللہ سے ڈر آگیا۔ایک رات مُنے کو تیز بخار ہوگیا۔ مَیں نے شوکت کو اُٹھایا کہ جلدی سے اسے ڈاکٹر کے پاس لے چلیں۔’’نہیں مَرتا تمہارا لاڈلا۔ بچّوں کو بخار ہو ہی جاتا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ کروٹ بدل کر سوگیا۔ میرے دِل پر جیسے گھونسا سالگا۔کوئی باپ اپنے بیٹے کے بارے میں یوں بھی کہہ سکتا ہے۔مَیں ساری رات اسے پٹیاں کرتی رہی۔ سویرے ایک ہمسائی کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس لے گئی۔اُس دِن کھانا بننے میں دیرہوگئی، تو اس نے پہلی بار مجھ پہ ہاتھ اُٹھایا۔میرے چہرے پر نشان اُبھرے اور دِل میں کانٹے اُگ آئے۔کچھ دِن گزرے، تو اس نے مجھ سے معافی مانگ لی اور جاتے ہوئے پیسے مانگے کہ اس کے پاس واپسی کا کرایہ نہیں ہے۔ ’’شوکت! نہ جائو۔‘‘مَیں نے منّت کی۔ہماری بیٹیاں بڑی ہورہی ہیں۔اب تو اللہ نے بیٹا بھی دے دیا۔مَیں بھی کام کرتی ہوں۔یہیں کوئی کام ڈھونڈ لو۔ہم تھوڑے میں گزارہ کرلیں گے۔ ’’ابھی تو جانا ضروری ہے۔مَیں کوشش کرتا ہوں، اِدھر کام ڈھونڈنے کی۔‘‘وہ مجھے دلاسا دے کر چلا گیا۔سُسرکی وفات کے بعد، دیور بھی بیوی بچّوں کو لے کر الگ ہوگیا، تو ہم عورتیں گھر میں اکیلی رہ گئیں۔اب ساس بھی پریشان رہنے لگی تھی۔اُس نے مجھے کہا کہ مَیں خط لکھ کر شوکت کو واپس آنے کا کہوں۔اُس رات مَیں نے اسے طویل خط لکھا، وہ ساری باتیں لکھ ڈالیں، جو کبھی کہہ نہ سکی تھی۔خط کی تحریر مٹی مٹی سی تھی۔میرے آنسوئوں نے اسے مبہم کردیا تھا۔مَیں نے اسے یونہی لفافے میں بند کرکے بھیج دیا۔اب مَیں روز اس کی راہ دیکھتی۔وہ نہ آیا اور نہ خط کا جواب بھیجا۔ایک دِن میری خالہ زاد شکیلہ مجھ سے ملنے آئی، تو میرا حال دیکھ کر بولی،’’مَرد اپنے بیوی بچّوں سے یونہی لاپروا نہیں ہوتا۔اس کے پیچھے ضرور کوئی وجہ ہوتی ہے اور اکثر یہ وجہ ’’دوسری عورت‘‘ ہوتی ہے۔‘‘مَیں باقاعدہ اس سے لڑ پڑی۔شوکت کیوں کرنے لگا دوسری شادی، یہ تو بس حالات تھے، جنہوں نے اُسے ہم سے دُور کردیا تھا۔ اس بار وہ آیا، تو ساس نے اس کا دامن پکڑ لیا اور واپس اس شرط پر جانے دیا کہ وہ اپنا سامان لے آئے۔کچھ دِنوں بعد وہ سامان لے کر آگیا، مگر گھر پر کم ہی ٹکتا۔پوچھتی تو کہتا کام کی تلاش میں ہوں۔‘‘

پھر ایک دِن اس نے کاروبار کرنے کے بہانے مجھ سے میرا سارا زیور لے لیا۔مہینوں بعد بھی جب گھر کچھ نہ آیا، تو مَیں نے ڈرتے ڈرتے کاروبار کا پوچھا، تو اس نے مجھے دُھنک کر رکھ دیا۔مَیں نیل و نیل ہوگئی۔میرے بچّے دھاڑیں مار مار کر روتے رہے۔مگر اس پر تو جیسے درندگی سوار تھی۔ساس بھی گھر پر نہ تھی۔اپنے زخموں سے زیادہ مجھے بچّوں کا رونا اندر سے چھید رہا تھا۔جب وہ مار مار کر تھک گیا، تو گھر چھوڑ کر چلا گیا۔اب وہ کئی کئی دِن گھر نہ آتا۔میری ساس بیمار رہنے لگی تھی۔مَیں اور بچّیاں اس کی دِل جوئی کرتیں۔ایک دِن ساس نے میرے سامنے ہاتھ جوڑ دیے۔’’زرینہ…ہوسکے تو مجھے معاف کردینا۔مَیں نے تیرا شوہر تجھ سے دُور کیا تھا۔دیکھ، میرا بیٹا بھی مجھ سے جُدا ہوگیا۔‘‘اگلے دِن وہ مَرگئی۔ماں کو دفنانے کے بعد وہ سیدھا اس کے کمرے میں جاکر ایک ایک چیز کھنگالتا رہا، مگر کچھ ہوتا تو ملتا۔ ساس، مکان کے کاغذات اور کچھ زیور میرے حوالے کرگئی تھی اور مجھے قسم دی تھی کہ شوکت کو ہرگز نہ دوں۔

شوکت نے واقعی دوسری شادی کرلی تھی۔اس کے باوجود وہ جب گھر آتا، تو مَیں اُس کی ویسی ہی خدمت کرتی، جیسے ساری زندگی کرتی آئی تھی۔بڑی بیٹی، جو بارہویں سال میں تھی، مجھ سے پوچھتی، ’’ابّا کیا کرتا ہے ہمارے لیے، تو اُسے کیوں گھر آنے دیتی ہے؟‘‘ ’’ایسے نہیں کہتے، وہ باپ ہے تمہارا۔ہمارا سائبان ہے وہ۔‘‘ اُس دِن وہ لُغت کھول کر بیٹھی تو مَیں نے پوچھا، ’’کس لفظ کے معنی ڈھونڈ رہی ہو؟‘‘ ’’امّاں!’’سائبان‘‘ کے معنی ڈھونڈ رہی ہوں۔‘‘ اب وہ سوالوں کے جواب خود تلاشنے لگی تھی۔ایک دِن مَیں کھڑکی میں کھڑی شوکت کوجاتا دیکھ رہی تھی کہ میری بیٹی میرے پیچھے آکھڑی ہوئی۔ ’’امّاں! تُو ہمیشہ اس کھڑکی میں کھڑی ہوکر ابّا کوجاتا دیکھتی ہے، مگر روکتی نہیں۔‘‘ ’’یہ میرے اختیار میں کب ہے؟‘‘ مَیں نے بےبسی سے کہا۔’’امّاں! اُسے جاتے ہوئے نہ دیکھنا، تو تیرے اختیار میں ہےناں!‘‘مَیں نے بیٹی کو حیرانی سے دیکھا، مگر وہ اپنی بات کرکے رکی نہیں۔

بیٹے کے اسکول کا پہلا دِن تھا۔مَیں نے اُسے اسکول کی وردی پہنائی، بال بنائے، ماتھا چوما اور انگلی تھام کر باہر کو لے چلی۔ میرے قدم دہلیز پرتھے کہ وہ آگیا۔’’کہاں جارہی ہو،صبح سویرے؟‘‘حالاں کہ جواب بیٹے کی صورت سامنے ہی موجود تھا۔ پھر بھی مَیں نے کہا،’’وہ آج مُنے کے اسکول کا پہلا دِن ہے،تومَیں…‘‘ ’’ان نئے کپڑوں، جوتوں اور کتابوں کے پیسے کہاں سے آئے؟ پرسوں مَیں نے مانگے، تو ایک دھیلا نہیں تھا، تمہارے پاس۔ مکان کے کاغذات بھی تم نے ہی کہیں چُھپا کررکھے ہیں۔ تیری یہ اوقات کہ تو ذاتی مکان میں رہے اور ’’ وہ‘‘ کرائے کے گھروں میں رُلتی پھرے۔ ابھی اسی وقت کاغذات نکال کر لے آ۔اس نے مجھے اندر دھکیل کر چٹیا سے پکڑ لیا۔ مُنّا بھاگ کر اس کی ٹانگوں سے لپیٹ گیا۔ ’’امّاں کو نہ مارو…‘‘ ’’ابے ہٹ…‘‘ یہ کہہ کر اس نے پوری طاقت سے مُنّے کو دھکا دیا۔’’ بس، آگے مت بڑھنا شوکت۔ جو ہاتھ مجھے اور بچّوں کو سُکھ دینے کے لیے مشقّت نہ کرسکے،وہ اب ہمیں دُکھ دینے کےلیے بھی نہیں اُٹھیں گے۔‘‘مَیں جیسے ایک دَم خواب سے جاگی۔’’چلے جاؤ، ہماری زندگی سے۔‘‘ مَیں نے چیخ کر اُسے دروازے کا رستہ دکھایا۔کچھ لمحے وہ حیرت اور بے یقینی سے مجھے دیکھتا رہا، پھر تیزی سے باہر نکل گیا۔مَیں وہیں بیٹھ کر بے آواز رونے لگی۔جب میرا دامن تر اور روح باوضو ہوگئی، تو مَیں نے طاق میں رکھا قرآن پاک اُٹھایا اور اسے سینے سے لگاکر بولی،’’ سوہنے رب! مَیں تو یونہی آج سے پہلے خود کو بڑا حقیر گردانتی آئی تھی، پَر آج مجھے پتا چلا کہ تونے مجھے کتنی بڑی ذمّے داری سونپ رکھی ہے۔ چار زندگیوں کو سنوارنے کی ذمّے داری۔ مجھے توفیق دے کہ مَیں ان کی اچھی تربیت کرسکوں۔ان کے دِل وذہن منوّر کرسکوں۔ بیٹیوں کو ظلم سہنے کی ہمّت نہیں، بلکہ اپنے حق میں کچھ کہنے اور ڈٹ جانے کا حوصلہ دے سکوں۔ بیٹے کو ایسا مَرد بناسکوں، جو عورت کی تذلیل کی بجائے، تکریم کواپنی مردانگی جانے اور صحیح معنوں میں اس کا سائبان بنے‘‘۔ پھر مَیں نے بیٹے کے گلے میں بستہ ڈالا، بکھرے بال سنوارے اور اس کی انگلی تھام کر ایک نئی ڈگر پرچل پڑی۔ ہمیں دیر ہوگئی تھی، مگر مجھے یقین تھا کہ منزل ہماری منتظر ہے۔

آبگینہ…!!

ڈاکٹر عزیزہ انجم

مَیں بنتِ حوا

مَیں صنفِ نازک

سُنہرے خوابوں کی خوش نُما تتلیاں سنبھالے

سفر پہ نکلی، تو دیکھ پائی

بساطِ عالم نے صنفِ نازک کا نام دے کر

عنایتوں کی جو بارشیں کیں

سوار اپنے بڑھائے آگے

پیادہ مُہروں کو مات دینے کی سازشیں کیں

مجھے سجایا، مجھے سنوارا

مجھے ہی جیتا، مجھے ہی ہارا

مَیں رنگِ محفل

مَیں حسنِ کامل

مَیں تاج اور تخت کی کشمکش کا حاصل

مَیں روحِ بسمل

مَیں اپنے پیروں کے آبلوں کی اسیر ٹھہری

امیر ہوکے فقیر ٹھہری

مَیں سامری کا طلسم سمجھی

نہ اس میں پوشیدہ اسم سمجھی

حیات کا سرمدی ترانہ لکھا تھا جس نے

اُسی کے ہاتھوں نے مجھ کو اذنِ جواز بخشا

مجھے محبّت کا سوز بخشا، گداز بخشا

مرے تکلم کو نرم لہجے کا ساز بخشا

مجھے نزاکت کا ناز بخشا

مگر بُلندی کا راز بخشا

مَیں اُمِ عیسیٰ ؑ

مَیں اُختِ موسیٰ ؑ

مَیں ابنِ آدم کے مرتبوں میں شریک ٹھہری

کٹھن سفر کی رفیق ٹھہری

مَیں سائبانِ شفیق ٹھہری

مَیں اپنے رب کی سماعتوں کے قریب ٹھہری

خود اپنا اعلیٰ نصیب ٹھہری

مَیں اپنے ہونے کا مان لائی

مَیں آبگینہ قرار پائی

حقیقتوں کی کتاب کھولی، تو جان پائی 


ایک عوت، ہزار رُوپ…

٭عورت کا ہر روپ ہی افضل ہے۔ماں ہے، تو اولاد کی جنّت، بہن ہے، تو بھائیوں کی عزّت۔بیٹی ہے، تو باپ کے لیے راحت۔ بیوی ہے، تو اطاعت و فرماںبرداری کا سرچشمہ۔

٭ عورت ایک ایسی پہیلی ہے، جسے آج تک درست طور پر شاید ہی کوئی حل کرسکا ہو۔

٭عورت کا خمیر وفا ، محبّت اور ایثار کے جذبوں سے گندھا ہے۔

٭عورت قدرت کا اِک ایسا شاہ کار ہے، جس نے پوری کائنات میں رنگ بَھر رکھا ہے۔

(خلیل الرحمنٰ،سلامت پورہ چونگی، لاہور)

تازہ ترین
تازہ ترین