• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
??? ????

  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

   پُرانے مال کی فروخت

بڑی بڑی دکانوں کی طرح پُرانا مال نکال کر سستے داموں فروخت کرکے نئے سال کے لیے نئے آئٹم متعارف کروانے کی روایت اگر ’’سنڈے میگزین‘‘ میں بھی متعارف ہو جائے، تو کیا بات ہو۔ سرچشمۂ ہدایت، سُرخاب، خانوادے، ڈائجسٹ، ناقابلِ فراموش کو برقرار رکھا جائے، جب کہ عالمی اُفق، اسٹائل اور جنگ پزل کو ختم کر دیا جائے۔ اس ہفتے ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓ کی روئے دادِ زندگی پر تحریر خُوب تھی۔ منور راجپوت نے تاریخی پارک ’’جہانگیر پارک‘‘ کے سروے میں کافی اہم معلومات فراہم کیں۔ ویسے وہ شاید یہ بھول گئے کہ یہ پارک کسی زمانے میں کرکٹ کے کھلاڑیوں کا بھی پسندیدہ گرائونڈسمجھاجاتاتھا۔یہاں ڈومیسٹک اور قومی کرکٹ کے کئی ٹورنامنٹ ہوتے رہے ہیں۔ طاہر حبیب، ایک وقفے بعد نظر آئے اور خُوب آئے۔ تنہا رہنے والوں کے المیے پر ایک عُمدہ تحریر پیش کرکے چونکا دیا۔ ’’اسٹائل‘‘ میں صرف ماڈل ہی قابلِ ذکر تھی۔ گھر کو دیکھتے ہیں تو ہرطرح سے ’’پیارا گھر‘‘ ہی لگتا ہے۔ رعنا فاروقی نے ناقابلِ فراموش میں تین اہم اور نہ بھولنے واقعات پیش کیے۔ دیگر سلسلے اپنی جگہ صحیح رہے۔

(چاچاچھکن، گلشن اقبال کراچی)

ج: اور، اگر پُرانے مال کی سَستے داموں فروخت کا کلیہ، ’’آپ کا صفحہ‘‘ پر بھی اپلائی ہوجائے، تو کیا ہی بات ہو .....؟

اُردو سیکھیں اور بولیں

تابش الوری کا انٹرویو پڑھا۔ موصوف شکوہ کُناں تھے کہ اردو کے نفاذ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بیورو کریسی ہے۔ مگر ہمارے خیال میں بیورو کریسی کے ساتھ سیاست دان بھی برابر کے قصور وار ہیں ہمارے خیال میں تو قومی زبان کے وسیع تر مفاد کے لیے سی پیک منصوبے کے تناظر میں چینیوں کو اس بات کا پابند کرنا چاہیے کہ وہ اُردو سیکھیں اور بولیں بھی۔

(حمّاد شورانی، جناح ٹائون، کوئٹہ)

ج:آپ کے اتنے شان دار مشورے پر، ’’خادم اعلیٰ والی تالیاں‘‘ تو بنتی ہیں۔ پتا نہیں، ایسے نادر ونایاب، خیالات ہماری عظیم قوم کے ذہنوں میں وارد کہاں سے ہوتےہیں۔

’’کوئی‘‘ چار شماروں پر بھی…

یہ دسمبر میں ’’اسٹائل‘‘ کی تحریر کو اداسی کا دورہ کیوں پڑجاتا ہے۔ ارے بھئی، دسمبر بھی دوسرے مہینوں ہی کی طرح ہے۔ وہی زمین رہتی ہے، وہی آسمان، وہی سڑکیں، وہی کھانے ہوتے ہیں۔ بلاوجہ ہی دسمبر کو اتنا ’’پُرسوز‘‘ نہ بنادیا کریں۔ اگر پیٹ میں روٹی ہو، تو دسمبر اچھا لگتا ہے اور اگر پیٹ خالی ہو، تو دسمبر خودبخود ہی خطرناک و خوف ناک ہو جاتا ہے اور یہ ڈاکٹر اطہر رانا بھی پرنس افضل شاہین کی طرح دو شماروں پر تبصرہ کیوں کرنے لگے ہیں۔ ارے بھئی، کبھی کوئی چار شماروں پر بھی تبصرہ کرلیا کرے۔ (نواب زادہ خادم ملک، سعیدآباد، کراچی)

ج: اِدھر ادھر کی ’’چولیں‘‘ مارنے کی بجائے وہ ’’کوئی‘‘ آپ کیوں نہیں بن جاتے اور یہ رُتوں، موسموں، مہینوں، سالوں کی باتیں آپ تو رہنے ہی دیں۔ یہ کچھ حسّاس دلوں کے معاملات ہیں، آپ کا ایسی باتوں سے کچھ لینا دینا نہیں۔

نِکھرا نِکھرا سنڈے میگزین

بے شمار تاروں کے جُھرمٹ، اشتہارات کی بھرمار میں نکھرا نکھرا سنڈے میگزین ملا، پڑھ کے جی خوش ہوگیا۔ ہیلتھ اینڈ فٹنس، پیارا گھر، ڈائجسٹ مَن پسند سلسلے ہیں۔ سرچشمۂ ہدایت اور سُرخاب کا جواب نہیں۔ انٹرویوز کا سلسلہ بھی خوب ہے۔ اِک رشتہ، اِک کہانی اور آپ کا صفحہ کا تو کوئی مول ہی نہیں۔ (ممتاز سلطانہ، لطیف آباد، حیدرآباد)

اٹوٹ تعلق

تمام سلسلے عُمدگی کے ساتھ جاری و ساری ہیں۔ طلعت عمران کا اندازِ تحریر بہت پسند ہے۔ ڈائجسٹ بھی پسند آتا ہے۔ ویسےمیگزین سے جو اٹوٹ تعلق ہے، وہ ہمیشہ رہے گا۔ (زہرہ عباس، عباس ٹائون، کراچی)

فین، قدردان

مَیں تو ہمیشہ ہی سے سنڈے میگزین کا بہت بڑا فین، قدردان ہوں اور اب تو میگزین روز بہ روز بہتر سے بہتر ہوتا جا رہا ہے۔

(شری مرلی چند جی گوپی چند گھوکلیہ، شکارپور)

الوداعی اعزازی چٹھی

اس بار شمارہ ہلکی دُھند اور یخ بستہ ہوا میں روبرو ہوا۔ گرم اوورکوٹ اور ٹوپیوں کے شوخ رنگوں سے آراستہ سرِورق دیدہ زیب تھا، البتہ سرِورق سےمصرع غائب دیکھ کر حیرانی ہوئی۔ سرچشمۂ ہدایت میں محمود میاں نجمی نےحضرت عبدالرحمان بن عوفؓ کی شانِ اقدس میں عقیدت کےانمول موتی صفحہ قرطاس پربکھیرے۔ اشاعتِ خصوصی میں مسلم شمیم نے ڈاکٹر علاّمہ محمد اقبال ؒکے تدبّر و دانش پر پُر فصیح تحریر احباب کی نذر کی۔ لازم و ملزوم میں، آغا حسن عابدی کی مفصّل روداد بھی ڈاکٹر قمر عباس نے بڑی جاں فشانی سے تحریر کی۔ عرفان جاوید ’’سُرخاب‘‘ کے دامن میں ایک کے بعد ایک اُجلی شخصیت سمیٹ رہے ہیں۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں ڈاکٹر ناظر محمود نے مشتعل ہجوم کے ہاتھوں قتل پر بننے والی فلموں پر فکر انگیز قلم کاری کی۔ ترجمہ کہانی کا سلسلہ، گو کہ اتنا پسند نہیں، لیکن پھر بھی ’’معاہدہ‘‘ نسبتاً بہتر تحریر تھی۔ ’’سینٹراسپریڈ‘‘ کے مصرعے اور اوور کوٹس کے دل کش رنگوں کے سبب عالیہ کاشف کی تحریر میں بھی کچھ بہتری محسوس ہوئی۔ نئی کتابوں پر اس مرتبہ طاہر حبیب کے تبصرے دکھائی دیئے اور کلاسیکل تبصرے تھے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں محمد حامد سراج کی ’’نمازِ قصر‘‘ آنکھوں کے گوشے بھگو گئی اور ’’آپ کا صفحہ‘‘میں الوداعی اعزازی چٹھی کا اعزاز اس خاکسار کے نام رہا،جس کی چاشنی دنوں تک محسوس ہوتی رہے گی۔

(ملک محمد رضوان، محلہ نشیمن اقبال، واپڈا ٹائون، لاہور)

لال پیلی تصاویر

سال 2017ء کے آخری شمارے کا ٹائٹل بہت ہی خُوب صورت تھا۔ شائنہ اور ماہ نور کی لال پیلی (نیلا پیلا کہنے والے تو منظر نامے سے اس طرح غائب ہو گئے، جیسے گدھے کے سر سےسینگ) تصاویر بہت بھلی لگیں۔ ماشاء اللہ اس بار بھی محمود میاں نجمی، مسلم شمیم، قمر عباس، منور مرزا، عالیہ کاشف، محمد بشیر جمعہ، محمد حامد سراج اور ڈاکٹرجہاں آرا لطفی کی تحاریر اچھی تھیں۔ سچ تو یہ ہے کہ آپ لوگ شمارے کی تیاری پر خُوب محنت کرتے ہیں، جو نظر بھی آتی ہے۔ اللہ عمدہ اجر دے۔ (ولی احمد شاد، ملیر،کراچی)

ج:ارے چھوڑیں بھئی، آپ بھی کن نیلے پیلوں کی بات پر لال پیلے ہونے لگے۔

سارے بابے غیر حاضر

سال 2017ء کا آخری سن ڈے میگزین جلدی جلدی ’’اتواری اخبار‘‘ کے ’’اتوار بازار‘‘ میں ڈھونڈا۔ چُھٹی کے دن، اخبارمیں خبریں کم، مگر اشتہارات کی بہتات ہوتی ہے۔ دُبلا پتلا 23صفحات کا میگزین، ’’سُر‘‘ کرکے پھسلا اور سیدھا ہاتھوں میں آگیا۔ علاّمہ اقبال اور مسلم نشاۃِثانیہ، واہ! آغا حسن عابدی اور بینکنگ انڈسٹری، خوب! ریاست بہاول پور کے تمغے، آہا! امریکا کی نئی سلامتی پالیسی اور اس کے اثرات (ہاہاہاہا…) قہقہہ اس لیے لگایا کہ کہاں وہ ’’ڈائوس امریکا‘‘ اور کہاں اُس سے ’’سلامتی‘‘ کی اُمید۔ سرِورق کے مضامین کے بعد ’’اُستاد دامن‘‘ کی کتھا پڑھی۔ عالیہ کاشف نے درمیانی صفحات پر فیشن کے رنگ بکھیرے۔ بھئی بچّیاں جانیں اور ان کے پہناوے۔ طاہر حبیب نے ’’کتابوں پر تبصرے‘‘ کردیئے۔ ہمارے خیال میں، ہمارے ایدھی صاحب، ازڈاکٹر ہارون الرشید پڑھنے والی ہوگی۔ تم نے ’’ترجمہ کہانی‘‘ اچھا سلسلہ شروع کیا ہے۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں نظروں سے کھودا، شاید تم نے میری دو تین سطور ہی چھاپ دی ہوں، مگر اس بار تو سارے ہی ’’بابے‘‘ Absent تھے۔ منصور بھائی، ناز چاچا (ہاہا ہاہا…) اب تم کہوگی ’’نانےسنجیدہ ہی اچھے لگتے ہیں‘‘ ہاہاہا…خیر، اللہ تمہیں اور تمہاری ٹیم کو آسودہ حال رکھے۔ (آمین) (پروفیسر ڈاکٹر مجیب ظفر انوار حمیدی، گلبرگ ٹائون، کراچی)

ج:بزرگوں کا سایا سلامت رہنا چاہیے، حاضر یاں تو لگتی ہی رہتی ہیں۔

دل باغ باغ

’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں ڈاکٹر محمد رضا کاظمی نے قائداعظم پر لکھی بھارتی مصنّفین کی کُتب پر سیر حاصل مضمون تحریر کیا۔ پڑھ کر معلومات میں بے حد اضافہ ہوا۔ ’’گفتگو‘‘ میں میئر کراچی، وسیم اختر کی بات چیت عُمدہ رہی۔ ’’سُرخاب‘‘ میں عرفان جاوید، استاد دامن پر کیا عُمدہ تحریر لے کر آئے، ہر بار پڑھ کر دل باغ باغ ہوجاتا ہے۔ سرِورق کا بھی جواب نہیں تھا، بہت عرصے بعد فضّہ ہاشمی جیسی ماڈل اچھی شالز کے ساتھ سب گھر والوں کوبہت پسند آئی۔ ’’متفرق‘‘ میں مراد خان کا گُڑ پر مضمون پڑھ کر پرانا وقت یاد آگیا، جب ہماری والدہ ہمیں گڑ والی چائے میں نمک ڈال کر دیا کرتی تھیں۔ اور…ہمارا صفحہ تو اچھا ہی جارہا ہے۔

(رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

ج:حیرت ہے، آپ کو اور آپ کے اہلِ خانہ کو ہر ہفتے ہی ماڈل ’’ایک عرصے بعد‘‘ پسند آتی ہے۔

دل بھرتا گیا، اشک گرتے گئے

جب بہت سے لکھنے والوں نے وقفے سے آنا شروع کر دیا، تو سوچا ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہیے کہ نئے لکھنے والوں کو بھی مواقع مل سکیں۔ سیّد تابش الوری کا انٹرویو بہت اچھا تھا۔ بہاول پور میں ایک تقریب کے دوران اُن سے ملاقات ہوئی، نہایت باذوق، نفیس اور ملن سار انسان ہیں۔ تازہ شمارے میں یومِ قائداعظم کی مناسبت سےڈاکٹر رضا کاظمی کا آرٹیکل ’’قائد اعظم اور بھارتی مصنّفین‘‘ منفرد موضوع تھا۔ ’’سُرخاب‘‘سب سے پسندیدہ سلسلہ ہے۔ امجد اسلام امجد کے بعد حسِ ظرافت کے بادشاہ اُستاددامن کی زندگی کی کہانی بھی دل چسپی سے بھرپور لگی۔ درمیانی صفحات پر جہاں ماڈل شال اوڑھے اچھی لگی، وہیں ’’جاڑے کی رُت ہے، نئی تن پہ نیلی شال‘‘ کے عنوان سے آپ کی تحریر پڑھی۔ جیسے جیسےپڑھتے گئے، دل بھرتا گیا ،اشک گرتے گئے۔ جی ہاں، والدہ محترمہ کی تیسری برسی 24دسمبر کو تھی اور دسمبر کے حوالے سے آپ کی منتخب کردہ شاعری دل کی ویرانی بڑھاتی ہی چلی گئی۔ نرجس صاحبہ! بخدا، آپ نے جذبات و احساسات سے بھرپور ایک بہت اچھوتی شان دار، تحریر لکھی۔ اب اس کے بعد، مزید تبصرے کو دل ہی نہیں مان رہا۔

(رانا محمد شاہد، گلستان کالونی، بورے والا)

ج:بس جی، ہمیں بھی کچھ ایسے ہی درد لاحق ہیں۔ وہ اطہر نفیس کی غزل ہے ناں ؎ اِک ہجر جو ہم کو لاحق ہے، تا دیر اُسے دہرائیں کیا…وہ زہر جو دل میں اتار لیا، پھر اُس کے ناز اُٹھائیں کیا…اِک آگ غمِ تنہائی کی، جو سارے بدن میں پھیل گئی…جب جسم ہی سارا جلتا ہو، پھر دامنِ دل کو بچائیں کیا۔ مائوں کےدنیاسےچلےجانےکےبعد، پیچھےاُن کاذکر، اُن کی باتیں، اُن کاغم، اُن کی یادیں ہی تو رہ جاتی ہیں۔ اور یہ تو گویا سب کا سانجھا دُکھ ہے۔

صریحاً زیادتی

سیلیبریٹیز کے انٹرویوز تو کبھی کبھار ہی شایع ہوتے ہیں، لیکن سنڈے میگزین کے نامہ نگاروں کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ گاہے گاہے اُن کے خیالات، احساسات میگزین کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں جاری سلسلہ ’’عشرئہ مبشرہ‘‘ کئی نئے واقعات سے قارئین کو آگاہ کررہا ہے۔ اس کے بعد فضائلِ ائمہ اہلِ بیتؓ کا سلسلہ بھی شروع ہوجائے، تو سونے پر سہاگے والی بات ہو کہ یہ تمام ہستیاں ہی ہمارے سَروں کا تاج ہیں۔گفتگو میں میئر کراچی، وسیم اختر کا یہ اعتراف برحق ہے کہ قائداعظم اور لیاقت علی خان ؒ کےبعد وطنِ عزیز میں کوئی حقیقی لیڈر پیدا نہ ہوسکا۔ ’’سُرخاب‘‘ کےذریعے پنجابی زبان کے منفرد شاعر، استاد دامن کی زندگی کے حقیقی گوشوں سے آگاہی ہوئی، تو ڈاکٹرمیبل ذکی کی گفتگو بھی خواتین کےلیے ان مول معلومات کا خزانہ لیے ہوئے تھی۔ دسمبر کےحوالے سے آپ کا اُداس رائٹ اَپ بہت خُوب رہا۔ پیارا گھر میں طلعت جبیں اور حورالعین کے مضامین موضوعات کے اعتبار سے متاثرکُن تھے، مچھلی کے سُوپ کی ترکیب بھی کافی انوکھی لگی۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ کے شریکِ محفل پروفیسر منصور علی خان سے سب ہی قارئین بھرپور عقیدت و محبت رکھتے ہیں، ان سے درخواست ہے کہ محفل کو رونق بخشتے رہیں اور چاچا چھکّن کی جانب سے منورمرزا کو ’’پریشان بھائی‘‘ جیسے القابات سے پکارنا صریحاً زیادتی ہے۔ (محمد علی کھوکھر،شہداد پور)

ج: جی ہاں، ہمیں خود بھی اس زیادتی کا احساس ہو گیاتھا، تب ہی اُن کےبقیہ خطوط سے ایسےتمام استہزائیہ جملے حذف کردیے گئے کہ کسی مضمون نگار کی تحریر پر تو کسی بھی طرح کا تبصرہ، زائے زنی کی جاسکتی ہے، مگرشخصیت کااستہزاتو قطعاً غیر اخلاقی حرکت ہے۔ خود منورصاحب کے کئی شاگردوں نے بھی اس بات پر سخت احتجاج کیا۔

کِنّاں جمیاں تے کِنّاں لے جانڑیاں

دو شماروں پر بات کروں گی، مجھے اپنے خط کی اشاعت کے لیے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ تقریباً تین ہفتے بعد ہی ’’ہائیڈ پارک‘‘ میں جگہ مل گئی۔ دونوں شماروں میں اپنے خط، آپ کے کرارے جواب کے ساتھ پائے۔ سُرخاب تو جیسے اپنے پَروں کی بدولت میرے سَر کے اوپر ہی سے گزر جاتا ہے، مگر ’’ڈائجسٹ‘‘ سے دوستی کی ڈش تیار کرکے اپنی ڈائری میں محفوظ کرلی ہے۔ دوسرا شمارہ ہاتھ آیا، تو پورے میگزین پر نظر دوڑا کر آخر ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں قدم جمالیے۔ پہلے شری مرلی کا خط پڑھا، پھر خادم ملک کا تلاش کرنے نکلے کہ اپنے نام پر نظر پڑی، دیکھ کر حیرت کے سمندر میں ڈوب گئی۔ سمندر میں تھی کہ چھوٹی بہن نے میگزین چھین لیا، مگر سارا دن خوشی خوشی اِدھر اُدھر کے کاموں میں مگن رہی، پھر شام کو شمارہ ہاتھ آیا، تو سکون سے مطالعہ کیا۔ ’’کنّاں جمّیاں تے کنّاں لے جانڑیاں‘‘ یہ گیت اکثر اپنی امّی جان کےمنہ سےسُن چکی ہوں۔ اسی حوالے سےحامد سراج کی تحریر بہت بہت بہت پسند آئی۔

(سمیعہ طاہر، شکر گڑھ)

ج: ارے…یہ جملہ تو ہم نے بھی اپنی امّی جی کے منہ سے بہت بار سُنا۔ مگر مائوں کی باتوں کی اصل قدر سُسرال جا کر ہی ہوتی ہے۔ اللہ پاک سب کی مائوں کو سلامت تا قیامت رکھے۔ سُنو، تم اپنی امّی جان کی بہت قدر کیا کرو۔

فی امان اللہ   

اس ہفتے کی چٹھی  

سالِ گزشتہ کی خوش گوار یادوں میں کھوئی، لیکن سالِ نو کے استقبال کے لیے ہونٹوں پہ دلآویز مُسکراہٹ سجائے خُوب صُورت ماڈل نے میگزین کے سرِورق کو دو آتشہ کر دیا۔ اِک دسمبر کی شام ہو جیسے …ٹائٹل کی سُرخی پڑھ کے تو ہم ماضی میں کھو گئے ؎ یہ شام اور تیرا نام، دونوں کتنے ملتے جلتے ہیں.....تیرا نام نہیں لوں گا، بس تجھ کو شام کہوں گا۔ ’’سنڈے میگزین‘‘ بہ مطابق معمول، اس باربھی اوّل تا آخر، سر تا پیر، سرِ ورق تا پسِ پشت لاجواب ہے۔ آغاز میں نجمی صاحب دِلوں کو مشاہیرِ اسلام کی ایمان افروز تعلیمات و داستانِ حیات سے منور کرتے ہیں۔ گویا نفسانفسی کے اس عالم میں اُن کا قلمی جہاد غنیمت سے بڑھ کر سفرِ آخرت کے لیے زادِ راہ ہے۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں طلعت عمران نے زائرینِ عُمرہ کے اِک حسّاس مسئلے کی تصویر کشی کی۔ سنڈے اسپیشل میں منور راجپوت نے اہلِ کراچی کو جہانگیر پارک کی بحالی کی خوش خبری سنائی۔ شہروں میں پبلک پارک اسی طرح آباد، سر سبز و شاداب ہوتے رہے، تو ’’نشئی، پوڈری جہاز ‘‘کہاں جائیں گے۔ (ویسے بڑی بڑی مہربانی سائیں) طاہر حبیب نے اولڈ ہومز کے تنہا باسیوں کا احوال لکھ کر تو ہمارے رُوبہ زوال جوائنٹ فیملی سسٹم کی جھلک دکھلا دی۔ شگفتہ بلوچ کے ساتھ انٹرویو میں، شاعر و سیاست دان، سیّد تابش الوری نے شکوہ کیا کہ اردو زبان کے فروغ میں بیوروکریسی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ جب کہ ہمارے خواص کی اُردو پسندی کا عالم دیکھنا ہو، تو مِیرا کی انگریزی سُن لیں یا کسی مارننگ شو میں تراکیب ِ پکوان یا طریقۂ ورزش میں اُردو کا استعمال دیکھ لیں، اللہ ہدایت اُنہیں دیتا ہے، جو طالبِ ہدایت ہوں۔ میگزین کے سلسلے’’سُرخاب‘‘ میں ہر اتوار جہانِ ادب کے سُرخیل کا جامع تعارفِ فن و خدمات پڑھ کے اُردو ادب سے ہماری چاہت، عشقِ پیچاں کی طرح گھنی ہوتی جا رہی ہے۔ اندرونی مرکزی صفحات میں عالیہ عظیمی نے ماڈل و ملبوسات کی مختصراً مدح سرائی کرے کچھ کنجوسی کی۔ پیارا گھر میں سرد شاموں کے گرم پکوان پڑھ کر منہ میں پانی، لیکن تنگئی داماں دیکھ کر ماتھے پہ پسینہ آ گیا۔ اب بات میگزین کے صفحۂ آخر یعنی ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی۔ اس بار فریدہ، سدرہ، حرا اور برقی، رونق افروز تھے، تو چاچا، بے بی اور ناز، جلوہ افروز، جب کہ مسندِ خاص کی امامہ کی شوخ چٹھی کا حاصل آپ کا یک سطری جوابِ لاجواب تھا۔ اگلا شمارہ 2017ء کا الوداعی شمارہ تھا۔ سرِورق کو بائی پاس کرتے ہوئے ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ پرپہنچے۔ عشرئہ مبشرہ میں شامل ہستی، حضرت عبدالرحمان بن عوفؓ کے ایمان افروز حالات و واقعات پڑھے۔ مسلم شمیم نے مسلم نشاۃِثانیہ سے متعلق فکرِ اقبال سے خُوب روشناس کروایا۔ ہمارا وَرثہ میں نادیہ نورین نے ریاستِ بہاول پور کےتمغے دکھا کرعباسی حکمرانوں کی گراں قدر خدمات کو سراہا، تو عالمی اُفق پر ایک بار پھر امریکا، ٹرمپ، امریکا، ٹرمپ ہی کا قبضہ نظر آیا۔ اور بھی غم ہیں زمانے میں بھئی۔ ترجمہ کہانی میں عربی فنونِ لطیفہ سے افسانوی انتخاب پیش کر کے آپ نے اس جملے پرمہرِ تصدیق ثبت کر دی کہ ’’فن کی کوئی حد نہیں ہوتی‘‘ شُکر ہے کہ تصویر باحجاب لگا دی، وگرنہ خادم ملک نے چِلّا اٹھنا تھا۔ ’’عربی افسانے میں غربی تصویر کا کیا کام؟‘‘ نئی کتابیں‘‘ کی پہلی کتاب ’’راحتِ صحت‘‘ پر قیمت درج نہیں تھی۔ عقل ِ سلیم پر زور دیا، تو حکیم صاحب کی حکمت سمجھ آگئی"Health is wealth"یعنی صحت ہی اصل دولت ہے۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘پر آپ کی طوطی نے بہترین چٹھی کا قرعۂ فال، ملک محمد رضوان کے نام نکالا، تو زبان و ناک کے موازنے پر آپ کی اور حرِا اقبال کی نوک جھوک کا بھی بہت لطف آیا۔ (محمد سلیم راجا، لال کوٹھی، فیصل آباد)

ج:مہاراجہ صاحب! لال کوٹھی میں قیام کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ تحریر بھی اس قدر سُرخ کر کے بھیجی جائے۔ مہربانی فرما کے آئندہ ایک ہی رنگ کی سیاہی کا استعمال کریں اور جابہ جا غیر ضروری اِن ورٹڈ کوماز کے استعمال سے عموماً واقعتاً اہم باتوں کی اہمیت بھی ختم ہو جاتی ہے۔ نیز، آئندہ اگر حاشیہ، سطر چھوڑنے اور صفحے کی پشت پر نہ لکھنے کی شرائط پر عمل نہ ہوا تو چٹھی کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہوئی، مسندِ خاص پر کسی صورت فائز نہیں ہو گی۔    

گوشہ برقی خُطوط  

٭ ’’سنڈے میگزین‘‘ میں ایک فہرست ’’ناقابلِ اشاعت‘‘ کی شایع ہوتی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس فہرست کی اشاعت کےبعد لوگوں کو انتظار کی زحمت سے نجات مل جاتی ہے، لیکن میرے خیال میں اس طرح لکھاریوں کی خاصی سُبکی بھی ہوتی ہے، کیا ممکن نہیں کہ صرف تحریروں کے عنوانات کے ساتھ شہروں کا نام دے دیا جائے، کم از کم لکھاری کو اپنا نام دیکھ کر دوسروں کے سامنے شرمندگی تو نہیں ہوگی۔ (محمد فاروق دانش، فیضانِ حرم، حیدر آباد)

ج: اوّل تو اس فہرست کی اشاعت کا سلسلہ قارئین کے بےحد اصرار کے بعد شروع ہوا۔ دوم، یہ کہ یہ سُبکی، ندامت والے مسئلے، بس کچھ ہمارے ہی ہیں، وگرنہ یہ تو ایک طے شدہ امر ہے کہ ہر کام، ہر ایک کے کرنے والا نہیں ہوتا۔ ہر شخص ڈاکٹر، انجینئر نہیں بن سکتا، تو ہر شخص لکھاری، شاعر بھی نہیں ہوسکتا۔ ’’جس کا کام اسی کو ساجھے‘‘، بڑے بوڑھے ایسے ہی نہیں کہہ گئے۔ ہم لوگ بلاوجہ ہی ہربات کو انَا کا مسئلہ بنالیتے ہیں، ورنہ ایک سادہ سی بات ہے، کچھ لوگ اچھا لکھتے ہیں، تو ان کی تحریریں شایع ہوجاتی ہیں، جو اچھا نہیں لکھتے یا کسی خاص موضوع پر نہیں لکھ پاتے تو اُن کی تحریریں بھی شایع نہیں ہو پاتیں۔ کیریئر کے شروع میں ہماری بھی کئی تحریریں ری جیکٹ ہوئیں، مگر ہماری تو کوئی سُبکی نہیں ہوئی۔ آج بھی ہمیں پتا ہے کہ بہت سے موضوعات ایسے ہیں، جن پر ہم نہیں لکھ سکتے، ہماری کمانڈ نہیں، تو ہم اُن پر بالکل نہیں لکھتے۔

٭ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کا صفحہ محمود میاں نجمی کی تحریروں سے کس قدر اُجلا اور شان دار ہوگیا ہے، بتا نہیں سکتی۔ بس انہیں اِک سیلوٹ پیش کرنا چاہوں گی۔ (حور العین اقبال)

٭ ممکن ہو تو محمود میاں نجمی صاحب سے ایک درخواست کردیں کہ حضرت اویس قرنی ؒسے متعلق بھی کوئی تفصیلی مضمون تحریر کریں۔ (نوشین خان، کراچی)

ج: آپ کی درخواست اُن تک پہنچ گئی ہے، کیوں کہ بہ قول اُن کے، وہ جنگ، سنڈے میگزین اور خاص طور پر ’’آپ کا صفحہ‘‘ کے باقاعدہ اور بڑے پکّے قاری ہیں۔

٭ آپ کا میگزین لاجواب ہے۔ کیا نمرہ احمد کا کوئی ناول نہیں شروع ہوسکتا۔ (عائشے گل)

ج: مشکل ہے۔ ہم لکھنے والوں کو معاوضہ نہیں دیتے اور نمرہ احمد بغیر معاوضے کے لکھیں گی نہیں۔

٭ میگزین زبردست ہے۔ سب کی محنت کو سلام پیش کرتی ہوں۔ ناقابلِ فراموش پسندیدہ صفحہ ہے۔ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ کا تو کوئی جواب ہی نہیں۔ خاص طور پر آپ کے مزدے دار جوابات بہت لُطف دیتے ہیں۔ پلیز، ’’پَری زاد‘‘ جیسا کوئی ناول بھی شروع کردیں۔ (مریم علی، سنجھورو، سانگھڑ)

آپ کا صفحہ


تازہ ترین