• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جمہوری نظام میں مقبول سیاسی پارٹیوں کا کردار اس لحاظ سے نہایت اہم ہوتا ہے کہ یہ مختلف نسلی، لسانی ، مذہبی، فرقہ وارانہ، علاقائی اور طبقاتی عناصر کو ملک و قوم کے وسیع تر تناظر میں متحد و مربوط رکھتی ہیں۔ قیام پاکستان کے ساتھ ہی اس کے تخلیق کار محمد علی جناح کی رحلت کے بعد قومی سیاست کے اسٹیج پر جو کھیل شروع ہوا اُس کا نتیجہ پاکستان کے دو لخت ہو نے کی صورت میں سامنے آیا۔اس قومی سانحے کی تشکیل کاردیگر وجوہات کے ساتھ اہم ترین وجہ کسی ایسی پارٹی کی عدم موجودگی تھی جو ملک کے مشرقی و مغربی حصوں میں یکساں طور پر عوام میں مقبول ہوتی۔مسلم بنگال کی علیحدگی سے سندھ بلوچستان اور صوبہ سرحد(کے پی کے) کے مرکز گریز عناصر نے بھی شہہ پکڑلی تھی اور اُن دنوں گریٹ بلوچستان، سندھو دیش اور پختونستان جیسی اصطلاحات کا چرچاہوامگر ملک کے چاروں صوبوں میںپیپلز پارٹی کے موثر وجود کی بنا پر اُن کی حیثیت نقش بر آب ہی رہی۔وفاق کے اتحاد کی بجا طور پر علامت قرار دی جانے والی پیپلز پارٹی جسے مقتدرہ کی مسلسل کوششیں اور بد ترین آمریتیں بھی محدود نہ کر پائیں، جناب آصف زرداری کی پانچ سالہ مطلق العنان، ناقص ترین طرز حکمرانی اور بے اصول سیاسی سمجھوتوں کے سبب سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔یہ صرف پیپلز پارٹی کا نقصان ہی نہیںبلکہ وفاقی حوالے سے بھی لمحہ فکریہ ہے۔’’ مرد حُر‘‘اور’’ایک زرداری سب پہ بھاری‘‘ جوش خطابت میں بہہ کر طاقتور حلقوں کو اینٹ سے اینٹ سے بجا دینے اور احتجاجیوں سے سڑکیں تنگ کر دینے کی چتائونی دے کر خود ملک سے باہر جا بیٹھے اور پارٹی کی ذمہ داری بلاول بھٹو کے ناتواں کندھوں پر ڈال گئے جو پچھلے دنوں چندروز بلاول ہائوس میںگزار کر گئے۔ خدا لگتی یہ ہے کہ اُن کے اس دورے کا پنجاب کے عوام نے کوئی نوٹس نہیںلیا مگر اتنا ضرور ہوا کہ جاتے جاتے وہ پیپلز پارٹی کے مستقبل کا سوال چھوڑگئے۔
پنجاب ملکی سیاست اور مرکز میںحکومت سازی کے ضمن میں غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے ۔کبھی یہ پیپلز پارٹی کا گڑھ ہوا کر تا تھا جبکہ آج کی زمینی حقیقت یہ ہے کہ تلاش کرنے سے بھی کہیں اس کا وجود نظر نہیں آتا ۔ جمہوری نظام میں سرگرم سیاسی پارٹیوں کو مقبولیت اور عدم مقبولیت کا سامنا رہتا ہے اور پیپلز پارٹی بھی اپنے دور آفرینش سے ہی دونوں پہلوئوں کے تجربےسے گزرتی چلی آرہی ہے لیکن مقبولیت کا موجودہ بحران ایک تو اُس کی تاریخ کا بد ترین بحران ہے دوسرے اس بحران سے نکالنے کیلئے محترمہ بے نظیر بھٹو جیسی شخصیت بھی میسر نہیں رہی ۔ بلاول بھٹو کو میدان سیاست میں میاں نواز شریف ، شہباز شریف اور عمران خان جیسی قدآور اور تجربہ کار سیاسی شخصیات کا سامنا ہے جن کے مقابلے میں وہ جچتے ہیں اور نہ ہی اُن کی دال گلتی دکھائی دیتی ہے۔ پنجاب کے رائے دہندگان فی الحال مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی میں منقسم ہیں جبکہ خود پیپلز پارٹی کا اپناروایتی ووٹ بنک بھی بڑی حدتک پی ٹی آئی کے اکائونٹ میں منتقل ہو چکا ہے ۔ ان حالات میں پارٹی کے حوالے سے اپنی شناخت قائم رکھتے ہوئے اس کا دم بھرنے والے دیرینہ کارکنان اب زندگی کے اُس حصے میں داخل ہو چکے ہیں جہاں قوت کارکردگی جہان نو پیدا کرنے کی صلاحیتوں سے محروم ہو چکی ہوتی ہے۔ پارٹی کے احیائے نو اور نشاط ثانیہ کا واقعہ نئی نسل کی اُس کے ساتھ جڑت سے ہی ممکن ہو سکتا ہے جس کے تاحال دور دور تک آثار دکھائی نہیں دیتے۔جب تک پنجاب میں قدم نہیں جمتے، پیپلز پارٹی کا قومی سیاست میں کردار نہ ہونے کے برابر ہی رہے گا۔
پیپلز پارٹی کا قیام تاریخی طور پر عمل میں آیا تھا اور ملکی سیاست میں اُس کا کردار اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ملکی استحکام اور جمہوریت کی بقاء کے سلسلے میں یہ شاندار ماضی کی حامل جماعت ہے جس کے کارکنوں اور قائدین کی بے مثال قربانیوں سے اس کی تاریخ بھری پڑی ہے۔ ایسی سیاسی جماعتیں مقبولیت کے بحران کا شکار تو ہو سکتی ہیں لیکن مرا نہیں کرتیں۔ المیہ یہ ہے کہ بلاول کو پارٹی کی قیادت ایسے موڑ پر منتقل ہوئی ہے جب اس میں جان برائے نام رہ چکی ہے۔اسے اس کے کھوئے ہوئے مقام پر واپس لانے کیلئے اب طویل اور صبر آزما جدوجہد کیلئے خود کو تیار کرنا ہوگا۔انہیں اس حقیقت کو تسلیم کر کے قدم آگے بڑھانے ہونگے کہ حالات اور زمانہ دونوں بدل چکے ہیںاور اب گڑھی خدا بخش میں ابدی نیند سوئی شخصیات کے تنہا حوالوں سے عوام الناس کو متحرک نہیں کیا جا سکتا ۔اس کیلئے انہیں پارٹی کے طاقت کے سرچشموں ، مزدوروں ، کسانوں، صحافیوں، اساتذہ ، طالبعلموں اور سماج کے دیگر محنت کش اور دانشور حلقوں کی توجہ اپنی طرف کھینچنے کیلئے روح عصر کے تقاضوں کے مطابق قابل عمل ٹھوس پروگرام وضع کرنا ہوگا جو ملک و قوم کو درپیش مسائل کے حل کی اُمید دلاتا ہو۔پارٹی کو اُس کی اصل شناخت پر واپس لانا ہوگا جو بائیں بازو کی نمائندہ جماعت کی حیثیت کبھی اُسے حاصل تھی ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ پارٹی چلانے کے حوالے سے اپنا خاص وژن رکھتے ہیں جو جناب آصف علی زرداری کے وژن سے کیفیتی لحاظ سے مختلف اور بہتر ہے لیکن پارٹی کو پہنچنے والے اُس نقصان کا ازالہ جو سابقہ پانچ سالہ دور اقتدار میں اُن کے والد محترم کی ترجیحات کی وجہ سے پہنچا اتنا آسان ہرگز نہیں جتنا مفادات کی آس لگائے اس کے لواحقین خیال کر رہے ہیں۔عمر اور تجربے کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا جبکہ اس حوالے سے بلاول ابھی خاصے کم عمر اور نا تجربہ کار ہیں۔ابھی اُنہیں عملی سیاست سمیت نظری طور پر بھی بہت کچھ سیکھنا ہے ۔ انہیںسندھ کے علاوہ پورے ملک اور بالخصوص پنجاب میں اپنی جگہ بنانے کیلئے سنگلاخ سیاسی میدان پار کرنے ہونگے۔ 2018کے عام انتخابات میں بلاول یا پیپلز پارٹی کا کوئی رول بنتا دکھائی نہیں دیتا۔ انہیں چاہئے کہ اپنے آپ اور پارٹی کو اُس وقت کیلئے تیار کریں جب اُن کا مقابلہ مریم نواز، حمزہ شہباز، مونس الہٰی یا اُن کی جنریشن کے دیگر افرادسے ہوگا ۔اُس وقت بھی سیاست میں اُن کی کامیابی اُن کی عوامی سطح پر کریڈیبلٹی سے مشروط ہوگی جو تاحال ناپید ہے۔
تازہ ترین