• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزارت عظمیٰ کے بعد نوازشریف پارٹی صدارت کے لئے بھی نااہل قرار پائے ہیں۔سپریم کورٹ کا تحریری فیصلہ کہتا ہے کہ بادشاہت کیلئے نااہل بادشاہ گر کیسے؟وزارت عظمیٰ سے نااہلی کے فیصلے کو ہی پارٹی صدارت نااہلی کیس میں بنیاد بنایا گیا ہے۔علی احمد کر د سمیت متعدد قانون دان سپریم کورٹ کے فیصلے سے متفق نظر نہیں آتے۔دنیا کے معتبر ترین جریدے اکانومسٹ نے بھی نوازشریف کے خلاف فیصلے کو متنازع سمجھا ہے۔آج کے اخبارات میں چھپنے والی خبروں کے مطابق اکانومسٹ سمجھتا ہے کہ سینیٹ انتخابات میں مسلم لیگ ن کو نقصان پہنچانے کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کا مبینہ ہاتھ ہے۔سینئر صحافی رفیق مانگٹ کی رپورٹ کے مطابق اکانومسٹ لکھتا ہے کہ مسلم لیگ ن کے امیدواروں کو الیکشن کمیشن نے آزاد میدوارکے طور پر انتخابات لڑنے کے لئے مجبور کیا،ایوان بالامیں داخل ہونے سے قبل آزاد ارکان کی وفاداریاں تبدیل کروائی جاسکتی ہیں۔ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے بارے میں بین الاقوامی سطح سے اس قسم کے تجزیے آنا تشویشناک ہے ،مگر عدالتوں کو بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ان کے حوالے سے متنازع گفتگو شروع کیوں ہوئی ہے؟اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ متنازع تجزیوں کے پیچھے اصل حقائق کیا ہیں؟ کیا ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی جماعت کو عدالتی فیصلے کے بعد سینیٹ انتخابات سے باہر کرنا جمہوری طرز عمل ہے۔آج کے فیصلوں کی قیمت وطن عزیز اگلی چند دہائیوں تک ادا کرے گا۔جس طرح پی پی پی کے قائد ذوالفقار علی بھٹو کے متنازع پھانسی کے فیصلے کا داغ آج تک نہیں دھل سکا ،اسی طرح گزشتہ چند ماہ کے دوران ہونے والے فیصلوں کا بوجھ بھی خطرناک ہوگا۔
بادشاہت کے لئے نااہل بادشاہ گرکیسے کے فیصلے کے بعد مسلم لیگ ن کی صدارت اہم مسئلہ تھا۔کچھ لوگ اس فیصلے کے بعدپارٹی میں تقسیم کی امید لگائے بیٹھے تھے،مگر نوازشریف کے قائدانہ فیصلے نے ایک مرتبہ پھر ثابت کیا کہ نوازشریف کا متبادل بھی نوازشریف ہے۔ نوازشریف نے وہ فیصلہ کیا جو ان کے والد مرحوم میاں شریف زندہ ہوتے تو کرتے۔شہباز شریف اس سے قبل بھی مسلم لیگ ن کے صدر رہ چکے ہیں۔اس وقت میاں شریف کی مرضی اور خواہش کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی سرور پیلس میں مشاورت ہوئی اور شہباز شریف کو پارٹی صدر بنایا گیا۔میاں شریف مرحوم نے اپنی زندگی میں ہی طے کردیا تھا کہ نوازشریف کے بعد ان کے سیاسی جانشین شہباز شریف ہونگے۔بہرحال نوازشریف نے پارٹی صدارت کے حوالے سے بالا فیصلہ کرکے ناقدین کی ایک اور خواہش پر بھی پانی پھیر دیا۔آج شہباز شریف کے پارٹی صدر بننے کے بعد نئی بحث شروع ہوچکی ہے کہ اب مسلم لیگ ن کی پالیسی کیا ہوگی؟ کیا شہباز شریف اپنے بڑے بھائی اور قائد کی مزاحمتی پالیسی کو ترک کرکے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ چلنے کو ترجیح دیں گے؟ جو لوگ شریف فیملی کو جانتے ہیں اور ان کی خاندانی روایات سے آگاہ ہیںانہیں علم ہوگا کہ بڑوں کا احترام اور عزت اس فیملی پر ختم ہے۔نوازشریف پارٹی صدر نہ ہوتے ہوئے بھی پارٹی صدر سے زیادہ موثر ہونگے۔پہلے تو نوازشریف پارٹی صدر کے طور پر فیصلے کرتے تھے اور شہباز شریف دلیل کے ذریعے اپنا موقف خوب بیان کرتے تھے ۔مگر اب فیصلے کا اختیار شہباز شریف کے پاس آچکا ہے ،بیوروکریسی کے افسران اکثر فائل پرInitialکرتے ہیں۔مسلم لیگ ن کے ہر فیصلے پر Initialنوازشریف ہی کریں گے ۔آج بھی ویٹو کا اختیار نوازشریف کے پاس رہے گا۔شہباز شریف ایک سخت جان ایڈمنسٹریٹر ہیں۔بہت سے لوگ انہیں لچکدار اور سمجھوتہ پسند سمجھتے ہیں۔مگر جس شہباز شریف کو میں جانتا ہوں ،وہ بہت زیادہ اسٹینڈ لینے والا شخص ہے۔ہمیشہ حکمت سے معاملات سلجھانے کا قائل ہے مگر جب کسی معاملے پر ڈٹنا ہوتو پھر ڈٹ جاتا ہے۔شہباز شریف کا اداروں کے حوالے سے موقف اپنی جگہ ،بطور پارٹی صدروہ پارٹی میٹنگز میں اس موقف کومزید بہتر طریقے سے بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔مگرحتمی وہی ہوگا جو نوازشریف کا فیصلہ ہوگا۔
شہباز شریف کے پارٹی صدرہونے کا مطلب ہے کہ نوازشریف کا دایاں بازو پارٹی کا سربراہ ہے۔میری دانست میں جو اعتماد نوازشریف اپنی اولاد پر بھی نہیں کرتے وہ شہباز شریف پر کرتے ہیں۔مشرف نے اپنے متعدد ٹی وی انٹرویوز میں خود کہا کہ انہوں نے نہ ہی کبھی عمران خان کو وزارت عظمیٰ کی آفر کی اور نہ ہی چوہدری نثار کو البتہ شہباز شریف کو یہ آفر ضرور کی گئی تھی کہ وہ وزیراعظم بن جائیں۔مگر شہباز شریف نے برملا کہا کہ بھائی جان کے بغیر سیاست کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔اسی طرح 2014کے دھرنوں کے بعد سے جولائی 2017تک نوازشریف نے خود شہباز شریف کو 7سے زائد مرتبہ کہا کہ شہباز تسی وزارت عظمیٰ دا منصب سنبھال لو،مگر شہباز شریف نے ہمیشہ ہر طرح کی مادی چیز پر بھائی کو ترجیح دی۔اس لئے میر ی دانست میں نوازشریف کی پارٹی میں پوزیشن پہلے سے زیادہ مضبوط ہے۔اگر شہباز شریف اور نوازشریف کے بارے میں کہا جائے کہ یہ دو جسم اور ایک روح ہیں تو غلط نہیں ہوگا۔شریف فیملی میں اختلافات ہونگے مگر صرف اتنے جتنے ہر کزنز میں ہوتے ہیں۔عام انتخابات 2018کی انتخابی مہم نوازشریف،شہباز شریف،حمزہ شہباز اور مریم نواز اکٹھے مل کر چلائیں گے۔ایسا بھی ہوگا کہ ایک دن میں چار مختلف مقامات پر یہ چار افراد جلسے کریں گے اور ایسا بھی ہوگا کہ ایک اسٹیج پر یہ چاروں افراد نظر آئیں گے۔اس لئے نوازشریف کے پارٹی صدر رہنے یا نہ رہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔شہباز شریف نے اگر عہدوں کو ہی ترجیح دینی ہوتی تو بہت پہلے دے چکے ہوتے۔والد صاحب کی خواہش اور پارٹی کے وسیع تر مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے نوازشریف نے بہت مدبرانہ فیصلہ کیا کہ شہباز شریف کو پارٹی کا صدر بنایا۔یہ فیصلہ وقت کی ضرورت تھا۔میرے خیال سے اس وقت ایسا کوئی دوسرا فیصلہ نہیں تھا ،جس سے مسلم لیگ ن کو تقسیم ہونے سے بچایا جاسکتا۔ نوازشریف جو بھی فیصلہ کرتے شہباز شریف سمیت پوری شریف فیملی اس کو قبول کرتی مگر پارٹی کی اکثریت اس فیصلے پر کھڑی نہ ہوتی۔پنجا ب میں لاجواب ایڈمنسٹریشن اور پارٹی پر مضبوط گرفت نے شہباز شریف کی صدارت کے فیصلے میں کوئی رکاوٹ نہیں آنے دی۔ڈیڑھ سال قبل اپنے کالم میں لکھا تھا کہ نوازشریف کامتبادل بھی نوازشریف ہے ،کیونکہ لیڈر کا متبادل اس کا نظریہ ہوتا ہے۔لیکن اگر زمینی حقائق نوازشریف کے بعد کسی کا تقاضا کریں تو شہباز شریف سے بہتر آپشن کوئی نہیں ہوگا۔

تازہ ترین