• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں اپنے دفتر میں کام کررہا تھا کہ موبائل پرایک غیر سیاسی مگر نوجوان صنعتکار کا فون آیا کہ وہ فور ی طور پر ملنا چاہتا ہے تو میں نے کہاایک گھنٹے کے بعد آجائو مگر وہ بے تکلف دوست آدھے ہی گھنٹے میں تشریف لے آئے۔ علیک سلیک کے بعد کہنے لگے کہ مجھے آپ سے ایک مشورہ کرنا ہے ان صاحب کا برسوں چیمبر ز اور صنعتی ایسوسی ایشن سے بہت گہرا تعلق رہا ہے ۔کہنے لگے کہ بھائی جان مجھے ’’اوپر‘‘سے تحریک ِانصاف میں شمولیت کی دعوت ملی ہے چونکہ آپ ماضی میں سیاست میں حصہ لیتے رہے ہیں تو مجھے مشورہ دیںکہ میں واقعی سیاست میں آجائوں ۔میں نے پہلا سوال کیا اوپر سے کیا مرُاد ہے ،ہنس کر کہنے لگے سرکاری دوست نے خصوصی طور پر دعوت دی اور کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ پی پی پی اور مسلم لیگ دونوں سے جان چھڑائی جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں نے بر سہا برس سے اس ملک میں سیاست کو کاروبار بناکر عوام کو بے وقوف اور پاکستان کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ ہر دن کوئی نہ کوئی کرپشن کا کیس تقریباً ہر وزارت میں سامنے آتا ہے۔ دونوں ملک گیر پارٹیوں کے ذمہ داران ایک دوسرے کے معاملات چھپاکر نوراکشتی کررہے ہیں۔ ایک نے 5سال گزار دیئے اور دوسرا بھی 5سال مکمل کرنے کو ہے۔ میں نے پوچھا کہ آخر وہ سیاست میں کیوں آنا چاہتے ہیں کہنے لگے کہ میرا دل چاہتا ہے میں کسی بھی طرح پاکستان کی خدمت کروں اگرچہ کاروبار میں تنہا ہوں، بچے ابھی زیرِ تعلیم ہیں پھر بھی وقت نکال کر سیاست کروں گا۔ میرے بہت سے دوست تحریک ِانصاف میں ہیں ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ ہم صنعتکار اپنے اپنے حصہ کی سیاست کریں ان پیشہ ور سیاستدانوں کی 70سال سے دوسری اور تیسری نسل سیاست میں ہے یہ زمینداری اور جاگیرداری کو مضبوط سے مضبوط تر کررہے ہیں ۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ مجھے کافی عرصے سے عمران خان کا تمام کرپٹ سیاستدانوں کو چیلنج کرنا بہت اچھا لگتا ہے کہ کم از کم تحریک ِانصاف گزشتہ چند سالوں میں بہت اُبھر کر سامنے آئی ہے۔ لگتا ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ اب عمران خان کے ذریعے پاکستان میں سیاسی تبدیلی لانا چاہتی ہے مگر مسلم لیگ ن کا پلڑا بھاری ہے اسی وجہ سے مجھ سے بھی رابطہ کرکے یہ پیغام دیا گیاکہ میں اور میرے دوست کسی جلسہ عام میں شمولیت کا اعلان کرکے صنعتکاروں کو بھی سیاست میں آنے کی ترغیب دیں ۔میں نے جرح کی مجھے عمران خان سے کوئی اصولی اختلاف نہیں ہے وہ جذباتی ہیں جوشِ خطابت میں وہ سیاسی آداب کا خیال کئے بغیر پڑھے لکھے لوگوں کے سامنے تو تڑاخ پر اُتر آتے ہیں اور اب تو لاہور کے جلسے کے بعد خود کو ملک کا وزیراعظم سمجھ بیٹھے ہیں ۔ابھی تو صرف ایک جلسے کا خماراُن کو کہاں سے کہاں لے گیا اگر دو چار اور جلسے انہوں نے ایسے کردیئے تو نہ جانے اپنے آپ کو کہاں پہنچا دینگے خصوصاً تین سابق بیوروکریٹس کی اُن کی جماعت میں شمولیت سےان کی نیک نامی پر حرف آنے کا خدشہ ہوگا ۔ان بیوروکریٹس صاحبان کا ماضی بھی داغ دار رہا ہے ۔ بقول چوہدری شجاعت ماضی کے کرپٹ سیاستدان کسی کی اشیر باد سے اور اُن کی ڈرائی کلین کی فیکٹریوں سے ماضی کی طرح دھل دھل کر تحریک ِانصاف میں شامل کردیئے جائینگے پھر وہی سیاستدان اُن کی پارٹی پر قابض ہوکر اپنی من مانیاں خود بھی کرینگے اور خان صاحب سے بھی کروائیں گے۔ دونوں صورتوں میں عمران خان کی ساکھ کو دھچکا لگے گا اور پارٹی بھی روایتی سیاست کا شکار ہوجائے گی ۔اگرچہ عوام کی بہت بڑی اکثریت اب گندی سیاست سے بیزار نظر آتی ہے مگر پورے ملک میں پھیلے ہوئے سیاسی گند کو عمران خان کیسے تنہا صاف کرنے میں کامیا ب ہوجائیں گے ۔نہ تو اُن کا 25سالہ ماضی سیاست میں کامیابی کی نشاندہی کرتا ہے نہ وہ سیاسی دائو پیچ جانتے ہیں نہ وہ عوامی لیڈر بن کر اُبھرے ہیں ۔البتہ میڈیا میں آکر انہوں نے عوام کو زبان ضرور دی ہے ۔جس طرح ماضی میں ذوالفقارعلی بھٹو نے عوام کی زبان استعمال کی اور ایوب خان جیسے آمر کےسامنے عوام کو لا کھڑا کیا مگر عمران خان سے ایسی توقعات وابستہ کرنا بھی قبل از وقت ہے ۔بیشک میڈیا روزانہ اُن کو بلاکر سخت زبان میں تنقید کروارہا ہے۔ کرپٹ سیاستدانوں کے خلاف آواز بلند کرکے اُن سے عوام کو آگاہ کررہا ہے مگر اس سے اِن سیاستدانوں کو کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ایک طرف وہ عمران خان کے جلسے میں جاتے ہیں تو دوسرے دن نواز شریف کے جلسوں میں عوام کی تعداد کم نظر نہیں آتی ۔اب تو پی پی پی والے بھی بڑے جلسے کررہے ہیں وہ الگ بات ہے کہ عوام کی طرف سے ووٹ صرف چند سوہی مل رہے ہیں۔ ہر صوبے میں سیاسی جماعتیں اپنے اپنے حامیوں کی تعداد بتاکر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں لگی ہوئی ہیں۔ ایک سیٹ پر مسلم لیگ کا امیدوار کامیا ب ہوتا ہے تو دوسری سیٹ پر پی ٹی آئی کا امیدوار 20تیس ہزار سے زائد ووٹ لے کر کامیاب ہوجاتا ہے ۔اگر لاہور کے جلسے سے کامیابی کا اندازہ لگایا جائے ،بیلٹ بکسوں میں پی پی پی کے حامی ووٹ کیوں نہیں ڈالتے کیا وہ دونوں سیاسی جماعتوں کے اُمیدواروں سے خائف ہیں۔بڑے بڑے جاگیرداروں ،چوہدریوں ،نوابوں اور وڈیروں کی سیاست پر گرفت اتنی سخت ہے کہ 1967میں یہ پودا تنا ور درخت کی صورت اختیار کرچکا تھا اب تو بیوروکریسی بھی اس میں حصہ دار بن چکی ہے۔ ہر طرف الگ الگ مافیائوں کا زور ہے ۔ایک تنہا عدلیہ اس کے سامنے ڈٹی ہوئی ہے ۔
میرے دوست نے جب میرا تجزیہ سنا تو منہ لٹکا کر واپس چلاگیا اگر چہ اس کا دُکھ مجھے بھی بہت ہوا کہ میں نے اسے کیوں مایوس کیا مگر مجھے خطرہ تھا کہ وہ سیاست کی دلدل میں پھنس کر اپنا جما جمایا کاروبار نہ تباہ کر بیٹھے اور اُس کے بچے جب تعلیم سے فارغ ہوں تو وہ کاروبار کے بجائے نوکریوں کی تلاش میں مارے مارے نہ پھریں۔ کاش اللہ تعالیٰ اس ملک پر اپنی نظرِکرم کرکے ہمارے ملک کو صحیح ترقی کی راہ پر ڈال دے اُس کے ہاں دیر ہے اندھیرنہیں ۔مگر عوام جب تک انقلابی طور پر کھڑے نہیں ہوتے اس ملک کی تقدیر نہیں بدل سکتی۔ اُس کے لئے قربانی لازم ہے کیا 20کروڑ انسان قربانی کے لئے تیار ہیں؟ مگر نااُمیدی بھی کفر ہے۔ آج مسلم لیگ ن والے دوبارہ مظلوم بن کر عوام کی ہمدردیاں سمیٹنے میں کامیاب ہوتے جارہے ہیں۔ اگر ان کا عمل جاری رہا تو اگلے الیکشن میں وہ کامیاب ہوجائیں گے۔

تازہ ترین