• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کیلئے جوڑ توڑ کا آغاز

چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کیلئے جوڑ توڑ کا آغاز

سینیٹ انتخابات کے بعد اب چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے عہدوں کے لیے جوڑ توڑ کے عمل کا آغاز ہوگیا ہے، پیپلزپارٹی کسی جیالے کو چیئرمین سینیٹ کے عہدے پر لانے کے لیے پر عزم ہے۔

سینیٹ انتخابات کے بعد ن لیگ 33 نشستیں حاصل کرکے ایوان بالا کی سب سے بڑی جماعت بن گئی ہے لیکن چیئرمین سینیٹ کے عہدے کے لیے اسے کم از کم 53 ممبران کی حمایت درکار ہے، ایسے میں اگرن لیگ کو اپنی موجودہ اتحادی جماعتوں پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے 5 ، نیشنل پارٹی کے 5، جے یو آئی ایف کے 4، مسلم لیگ فنکشنل کے 1 ممبر کی حمایت حاصل ہو جائے تو ن لیگ کے پاس 48 ممبران کی حمایت ہو جائے گی لیکن کیا ن لیگ کو جمعیت علماء اسلام ف کی 4 نشستوں کی حمایت حاصل ہو پائے گی؟

دوسری جانب اپوزیشن بنچز میں پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس 20 نشستیں ہیں، اس کی اتحادی اے این پی کے پاس 1 اور آزاد رکن یوسف بادینی کی 1 نشست ہے جس سے پیپلز پارٹی کو 22 ممبران کی سپورٹ حاصل ہے، اگر پیپلز پارٹی بلوچستان کے 6 آزاد سینیٹرز کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے تو اس کے پاس 28 نشستیں ہو جائیں گی۔

اپوزیشن بنچز پر موجود پاکستان تحریک انصاف کے پاس 12، ایم کیو ایم کے پاس 5، بی این پی مینگل کے پاس 1، جماعت اسلامی کے پاس 2 نشستیں ہیں، اگراپوزیشن جماعتیں متحد ہو جائیں تو ان کی بھی نشستیں ہوجائیں گی۔

بی این پی مینگل اپوزیشن بنچ پر براجمان ہونے کے باوجود حکومتی جماعت کی جانب جھکاؤ رکھتی ہے اور جماعت اسلامی پی ٹی آئی کے ساتھ چلتی ہے، کیا ایسے میں 4جماعتیں پیپلز پارٹی کی حمایت کریں گی؟

ایسے میں فاٹا کے 8 آزاد سینیٹرز کی اہمیت مزید بڑھ جائے گی، چیئرمین سینیٹ کا عہدہ حاصل کرنے کے لیے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو ان کی حمایت درکار ہونا نا گزیر ہو گیا ہے لیکن یہ بھی اہم ہو گا کہ فاٹا کے ارکان ایک گروپ کی صورت میں پارٹیوں کی حمایت کرتے ہیں یا پھر دو گروپوں میں تقسیم ہوتے ہیں۔

چیئرمین سینیٹ کے عہدے کے لیے حمایت حاصل کرنے کے لیے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے امیداوار کی بھی کلیدی حیثیت ہوگی۔ اگر پیپلز پارٹی سینیٹر رضا ربانی کو دوبارہ ایوان بالا کے عہدے کے لیے نامزد کرتی ہے تو شاید انھیں پی ٹی آئی، ایم کیو ایم سمیت کئی جماعتیں سپورٹ کریں لیکن رحمان ملک، شیری رحمان، یا سلیم مانڈوی والا کے لئے حمایت حاصل کرنا اتنا آسان نہ ہو گا۔

ن لیگ کی جانب سے راجہ ظفر الحق چیئرمین سینیٹ کے عہدے کے لیے فیورٹ ہو سکتے ہیں، ساتھ ہی پرویز رشید اور مشاہد اللہ خان بھی اس عہدے کے لیے امیدوار ہو سکتے ہیں، ایسے میں اگر ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے عہدے کی جانب دیکھیں تو مسلم لیگ ن کی کوشش ہو گی کہ وہ نیشنل پارٹی یا پی کے میپ کو ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا عہدے دے، پیپلز پارٹی بھی اپنی حمایت کرنے والی جماعتوں کو ڈپٹی چیئرمین کا عہدہ پیش کر سکتی ہے۔

لیکن آخری بات یہ ہے کہ سیاست میں سب کچھ ممکن ہے، لہٰذا یہ بھی ممکن ہے کہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی مفاہمت کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے عہدوں پر ایک دوسرے کے امیدوار منتخب کرا دیں۔

تازہ ترین