گزشتہ دنوں فیوچر فورم نے کراچی کے مقامی فائیو اسٹار ہوٹل میں ماحولیاتی تبدیلی پر ایک اہم کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں ملک بھر سے ماحولیاتی ماہرین اور اسٹیک ہولڈرز کے علاوہ کراچی گرامر اسکول کے طلباء و طالبات کو بھی مدعو کیا گیا تھا جنہوں نے اس اہم موضوع پر ایک پریذنٹیشن پیش کی۔ مجھے اس کانفرنس میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے مدعو کیا گیا تھا جہاں میں نے اس پر ایک معلوماتی پریذنٹیشن دی جو میں آج اپنے قارئین سے شیئر کرنا چاہوں گا۔
ماحولیاتی آلودگی کی ابتدا درختوں کی کٹائی سے ہوئی، انسان اس کے نقصانات سے ناواقف ہونے کی وجہ سے درختوں کی کٹائی کرتا رہا اور دیکھتے ہی دیکھتے جنگل کے جنگل ختم ہوگئے۔ ماہرین کے مطابق کسی ملک کا ایک چوتھائی رقبہ جنگلات پر مشتمل ہونا بہتر ہے لیکن پاکستان میں جنگلات پر مشتمل رقبہ صرف 4 فیصد ہے جس میں مسلسل کمی آرہی ہے۔ IPCCکے مطابق دنیا میں جنگلات کی کٹائی کی وجہ سے سالانہ 1.6 بلین ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں پھیل رہی ہے۔ دنیا میں فضائی آلودگی کا بڑا سبب ناقص ٹرانسپورٹ ہے جس سے خارج ہونے والے کاربن مونو آکسائیڈ اور سلفر نائٹروجن کے نتیجے میں سانس، ناک، کان، حلق، گلے اور جلدی امراض میں ہر سال اوسطاً 8 فیصد اضافہ ہورہا ہے۔بسوںاور گاڑیوں کے دھوئیں ماحول میں زہریلی گیسوں کو جنم دے رہے ہیں، روزانہ لاکھوں ٹن کچرا، چاول اور فصلوں کے Residue کو جلاکر اضافی کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں شامل کی جارہی ہے۔گلوبل وارمنگ یعنی عالمی درجہ حرارت میں اضافہ موجودہ دور کا سب سے بڑا چیلنج ہے جس کی سب سے بڑی وجہ گرین ہائوس گیسز ہیں جو سورج کی تپش سے زمین میں جذب ہوکر زمین کا درجہ حرارت بڑھاتی ہے۔ زمینی درجہ حرارت میں اضافہ ہونے کے باعث برفانی تودے اور گلیشیرز تیزی سے پگھل رہےہیں۔
ماہرین ماحولیات کے مطابق گرین ہاؤس گیسوں سے کلورو فلورو کاربنز (CFCS) کے اخراج سے زمین کو براہ راست سورج کی تابکاری (Ultraviolet) نقصان دہ شعاعوں سے محفوظ رکھنے والی حفاظتی تہہ اوزون (Ozone) میں شگاف پڑچکا ہے جس کے باعث زمینی درجہ حرارت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور اس کے نتیجے میں قطب شمالی و جنوبی پر برف کی چوٹیاں اور گلیشیرز پگھلنے کے شدید خدشات ہیں جس سے سمندری سطح بلند ہونے اور ساحلی شہروں کے ڈوبنے کا خدشہ ہے لہٰذااوزون تہہ کو مزید نقصان سے بچانے کے لئے ہمیں زہریلی گیسوں کے اخراج کو روکنا ہوگا۔ ماہرین ارض کے مطابق زمین کا تین چوتھائی حصہ پانی اور صرف ایک حصہ خشکی پر مشتمل ہے۔ زمین پر پائے جانے والے پانی میں سے 97 فیصد پانی سمندروں میں پایا جاتا ہے جبکہ باقی دو فیصد گلیشیرز اور ایک فیصد دریاؤں،جھیلوں اور ندیوں میں پانی پایا جاتا ہے۔ عالمی درجہ حرارت بڑھنے سے سب سے شدید خطرہ گلیشیرز کو لاحق ہے جن کی صرف دو تہیں پگھلنے سے سمندر کی سطح میں 20 فٹ اضافے کا امکان ہے اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ گزشتہ 50 سالوں میں دنیا کا اوسط درجہ حرارت 0.5 فیصد بڑھ گیا ہے جبکہ گزشتہ 30 سالوں میں ہیٹ اسٹروک کی تعداد میں 5 گنا سالانہ اضافہ ہوا ہے جس کا عملی مظاہرہ ہمیں دو سال قبل کراچی میں دیکھنے میں آیا جب لو لگنے کے نتیجے میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ درجہ حرارت میں اضافے سے کراچی کی سمندری سطح میں 10سینٹی میٹر اضافہ ہوا ہے۔ماہرین کی رائے ہے کہ صدی کے آخر تک پاکستان کے درجہ حرارت میں 3 سے 5 فیصد اور سمندری سطح میں 60 سینٹی میٹر اضافہ ہوگا جو ساحل سمندر کے قریبی علاقوں کیٹی بندر، دریائے سندھ کے باشندوں کو متاثر کرے گا۔ اس کے علاوہ گلوبل وارمنگ کے باعث دنیا کے کئی حصوں میں موسم سرما میں پیدا ہونے والی سبزیاں اور پھل اب موسم گرما میں پیدا ہونے لگے ہیں۔
گلوبل وارمنگ ایک عالمی مسئلہ ہے، دنیا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں سب سے زیادہ حصہ 10 ترقی یافتہ صنعتی ممالک کا ہے جن میں امریکہ سرفہرست ہے جس کے بعد چین، روس، جاپان، بھارت، جرمنی، برطانیہ، کینیڈا، جنوبی کوریا اور اٹلی کا نمبر آتا ہے۔ امریکہ کا دنیا کی مجموعی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں 24%، یورپی ممالک کا 14% جبکہ چین کا حصہ 13% ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق یورپ میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا فی کس اخراج اوسطاً 10 میٹرک ٹن سالانہ ہے جبکہ اس کے مقابلے میں امریکہ سالانہ 20 میٹرک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرنے کا ذمہ دار ہے جو دنیا کے دیگر ممالک کی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اوسط اخراج سے چھ گنا زائد ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام اور اوزون کی تہہ کو نقصان پہنچانے والی گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے لئے کئی معاہدے کئے گئے۔1997ء میں جاپان میں 160 سے زائد ممالک نے کیوٹو پروٹوکول پر دستخط کئے لیکن فروری 2005ء میں معاہدے کو عملی شکل دینے کے وقت امریکہ نے معاہدے کی توثیق سے انکار کردیا کیونکہ معاہدے کے تحت مقررہ حد سے زیادہ فضائی آلودگی پھیلانے والے ممالک پر جرمانہ عائد کیا جانا تھا جبکہ ایسے صنعتی ادارے جو فضائی آلودگی مقررہ حد سے کم اخراج کرتے ہیں، اُنہیں کاربن کریڈٹ دیئے جاتے جس کی مجموعی مالیت اربوں ڈالر تک پہنچ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل بڑے امریکی اور یورپی خریدار ماحولیات دوست صنعتوں سے اشیا خریدنے کو ترجیح دے رہے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان میں صنعتوں بالخصوص ڈینم سیکٹر میں ’’گرین فیلڈ انڈسٹریز‘‘ متعارف کرائی جارہی ہیں۔ پاکستان میں ایسے صنعتی ادارے جو تھرمل/ڈیزل کے بجائے قدرتی گیس، پانی، ہوا اور سورج کے ذریعے بجلی حاصل کررہے ہیں اور اُن کا کاربن اخراج مقررہ حد سے کم ہے، وہ اس بناء پر کاربن کریڈیٹس کے لئے کلیم کرسکتے ہیں۔ حال ہی میں کچھ پاکستانی کمپنیوں نے کاربن کریڈٹ کے حصول کے لئے درخواستیں دی ہیں لیکن حکومتی پالیسی کے مطابق کاربن کریڈیٹس کی وصولی کی صرف حکومت حقدار ہے جبکہ اس کے برعکس بھارت میں نجی شعبہ کاربن کریڈٹس خود وصول کرسکتا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی، زہریلی گیسوں کے اخراج اور زمینی درجہ حرارت میں اضافہ ہماری فصلوں کی پیداوار کو بھی متاثر کررہا ہے کیونکہ زمینی درجہ حرارت میں اضافے سے پانی بھانپ بن کر اڑ جاتا ہے اور فصلوں بالخصوص چاول اور گنے کی فصل کو مطلوبہ مقدار میں پانی نہیں مل پاتا جس سے فصلوں کی فی ایکڑ پیداوار متاثر ہوتی ہے۔
پاکستان میں زرعی شعبے کو پہلے ہی پانی کی کمی کا سامنا ہے اور ہماری فی ایکڑ پیداوار دیگر ممالک کے مقابلے میں کم ہے۔ یہ عمل پاکستان کی زرعی شعبے کی پیداواریت اور فوڈ سیکورٹی کو متاثر کرسکتا ہے۔ کانفرنس کے سیشن میں ڈاکٹر سلیم نے ’’ماحولیاتی تبدیلی کے ملکی زراعت پر اثرات‘‘ پرایک معلوماتی پریذنٹیشن پیش کی۔ سوال جواب کے سیشن میں اسکول اے لیول کے طلباء و طالبات نے انتہائی اہم سوالات کئے جس سے ان کی اس اہم موضوع میں دلچسپی ظاہر ہوتی ہے۔ پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلی کے باعث اب تک 566 اموات ہوچکی ہیں اور آنے والے وقت میں ملک میں شدید بارشوں، سیلاب، ہیٹ اسٹروک، گرین ہائوس زہریلی گیسز کے اخراج، گلیشیرز کے پگھلنے اور فصلوں کے نقصان میں اضافہ متوقع ہے۔ حکومت نے 2012ء میں نیشنل کلائمنٹ چینج پالیسی کا اعلان کیا تھا جس کے تحت حکومت کو 2030ء تک زہریلی گرین ہائوس گیسوں کے اخراج میں 20 فیصد کمی لانا ہے۔ حکومت سے درخواست ہے کہ قومی پالیسی پر عملدرآمد یقینی بنائے تاکہ ملک کو ماحولیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے خطرات سے بچایا جاسکے۔