• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے نو منتخب ایوان بالا اور وفاق کی علامت ’’ سینیٹ آف پاکستان ‘‘ کے انتخابات کا انعقاد ہو چکا ہے اور انتخابات نہ ہونے کے حوالے سے تمام خدشات دم توڑ چکے ہیں لیکن 3 مارچ 2018 ء کے سینیٹ کے انتخابات کو پاکستان میں جاری جمہوری عمل کیلئے خوش آئند قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ ان انتخابات میں سیاسی وفاداریاں بیچنے اور خریدنے کا کام کھلے عام ہوا ہے اور یہ تاثر پختہ ہوا ہے کہ پاکستان کے اس ایوان بالا کا انتخابی عمل سیاسی قوتوں کے ہاتھوں سے نکل کر ’’ مارکیٹ فورسز ‘‘ کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے اور وہ لوگ سینیٹ میں آسانی سے آسکتے ہیں ، جن کا پاکستان کے سیاسی اور جمہوری عمل میں کوئی کردار نہیں ہے ، ان کے پاس صرف پیسہ ہے ۔اس انتخاب سے قومی اور بین الاقوامی طور پر ہماری بڑی بدنامی ہوئی ہے۔دنیا میں تقریباََ ہر ملک میں دو ایوان ہاوَس ہوتے ہیں مگر کسی جگہ سے بھی ہم کو اس طرح کے واقعات سنائی نہیں دیتے جس طرح ان چند دنوں میں پاکستان میں ہوا ہے۔ اپر ہائوس زیادہ نمائندہ اور اہم ہوتا ہے وہاں یا تو کوئی کوالیفیکیشن ہوتی ہے یا اہم طبقوں سے لوگ آتے ہیں، وہ لوگ قابل، اعلی تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔ ٹیکنوکریٹس ہنر مند اور انتخابات میں کامیاب نہیں ہو سکتے مگر ان کی نمایاں حیثیت ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں صرف وہ لوگ آسکتے ہیں جن کے پاس صرف پیسے ہیں۔یہ دنیا کی کسی جمہوریت میں نظر نہیں آتا۔سندھ میں نہ صرف متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) پاکستان کے 14ارکان سندھ اسمبلی نے اپنی سیاسی وفاداریوں کا سودا کیا بلکہ سندھ اسمبلی کی اپوزیشن کی دیگر سیاسی جماعتوں کے ارکان نے بھی اپنی سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کو ووٹ نہیں دیا ۔ بلوچستان میں سینیٹ کی 11 نشستوں میں سے 8 آزاد امیدوار کامیاب ہوئے ۔ ان آزاد امیدواروں میں سے شاید 2 کا تعلق پاکستان مسلم لیگ (ن) سے ہے ۔ باقی منتخب سینیٹرز کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں ہے ۔ یہ انتہائی حیرت انگیز اور تشویش ناک بات ہے کیونکہ سینیٹ میں صوبوں کی نمائندگی صوبائی اسمبلیوں میں سیاسی جماعتوں کے ارکان کے تناسب سے ہوتی ہے ۔ خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کے کئی ارکان نے اپنا حق رائے دہی استعمال نہیں کیا ۔ پنجاب اسمبلی میں بھی یہ ہی کھیل ہوا ہے ۔ اسی طرح قومی اسمبلی میں سینیٹ کیلئے فاٹا کی نشستوں پر بھی جوڑ توڑ میں سیاسی جماعتوں نے غیر سیاسی عمل کا سہارا لیا اور فاٹا کیلئے منتخب ہونے والے چار ارکان سینیٹ کا تعلق بھی کسی سیاسی جماعت سے نہیں ہے ۔ چاروں صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی سے منتخب ہونیوالے سینیٹرز ہی آئندہ یہ طے کریں گے کہ سینیٹ آف پاکستان کا چیئرمین کون ہو گا اور پاکستان کا یہ ایوان بالا کس طرح اس ملک میں قانون سازی کریگا اور کس کے مفاد میں فیصلے کریگا ۔ سینیٹ کے انتخابات میں ہر جگہ غیر متوقع نتائج آئے ہیں ۔ پنجاب اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کے منتخب سینیٹر چوہدری سرور کو ایوان میں مطلوبہ حمایت نہیں تھی ۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کے 10 سینیٹر منتخب ہوئے ۔ 168 کے ایوان میں پیپلز پارٹی کے 95 ارکان کیلئے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ سینیٹ کی 12 نشستوں میں سے 10 نشستیں جیت سکیں ۔ پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) کے سندھ اسمبلی میں 9 ارکان ہیں ۔ ان کے امیدوار سید مظفر حسین شاہ کی کامیابی محض اپوزیشن کے سیاسی اتحاد کی وجہ سے نہیں ہوئی بلکہ اس کے دیگر اسباب بھی ہیں ۔ سندھ میں ایم کیو ایم پاکستان انتشار کا شکار ہے اور اس کے 14 ارکان کی سودے بازی کا دونوں دھڑوں کے رہنماؤں ڈاکٹر فاروق ستار اور ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے اعتراف کیا ہے ۔ خیبر پختونخوا میں پیپلز پارٹی نے 7 ارکان پر سینیٹ کی دو نشستیں حاصل کیں ۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) بھی خیبر پختونخوا میں 2 نشستیں حاصل کرنے کیلئے مطلوبہ حمایت کی حامل نہیں تھی ۔ فاٹا کے 4 سینیٹرز کے انتخاب میں جو کچھ ہوا ، اس کی تفصیلات بتانے کیلئے الگ کالم کی ضرورت ہے ۔ فاٹا کے یہ سینیٹرز سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں کس کا ساتھ دیتے ہیں ؟ اس سے سارے کھیل کا پتہ چل جائے گا ۔ مذکورہ بالا حقائق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ پاکستان کا ایوان بالا ’’ اسٹاک ایکسچینج ‘‘ بن گیا ہے اور پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں اس عمل میں ملوث ہیں ، جسے ’’ ہارس ٹریڈنگ ‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ یہ صورت حال انتہائی تشویش ناک ہے ۔ ہارس ٹریڈنگ سیاسی جماعتوں نے اپنے پیسے سے نہیں کی بلکہ ان دولت مند لوگوں کے پیسے سے کی ، جن کو انہوں نے سینیٹ کے ٹکٹ دیئے ۔ اس طرح ایوان بالا کا انتخابی عمل سیاسی قوتوں سے نکل کر ’’ مارکیٹ فورسز ‘‘ کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے ۔ اب وہ لوگ نمایاں ہیں اور خوش ہیں جو صلاحیتوں اور علمیت کے بجائے جوڑ توڑ اورخرید و فروخت کے عمل سے گزر کرآئے تھے۔یہاں ہر پارٹی کے دولت مند امیدواروں کے نام دینے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اگرچہ تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے مخلص اور سخت گیر سیاسی کارکنوں کو بھی ٹکٹ دیئے تھے لیکن انہوں نے دوسری انتہا پر جا کر دولت مند غیر سیاسی افراد کو ٹکٹ دیئے ۔ اس طرح دولت مند لوگوں کا سینیٹ میں پہنچنے کا راستہ کھل گیا ہے اور یہ ممکن ہے کہ مخلص اور سخت گیر سیاسی کارکنوں کیلئے سینیٹ میں جانے کا راستہ بند ہو جائے ۔
سینیٹ پاکستان کا ایسا منتخب جمہوری ادارہ ہے ، جس میں تمام وفاقی اکائیوں یعنی صوبوں کو مساوی نمائندگی حاصل ہے ۔ سینیٹ پاکستان کا اصل وفاق ہے اور پاکستان میں وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام کا عکس ہے ۔ اس ایوان بالا کو مغربی ممالک میں ’ دارالخواص ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے اور ان لوگوں کو سیاسی جماعتیں اس ایوان میں بھیجتی ہیں ، جو اپنے علاقوں میں سیاسی طور پر بہت زیادہ موثر ہوتے ہیں اور جنہیں مختلف شعبوں میں ’’ مہارت ‘‘ حاصل ہوتی ہے ، جنہوں نے زندگی بھر کی ریاضت کے بعد سماجی اور شعبہ جاتی مقام حاصل کیا ہوتا ہے لیکن پاکستان کا ایوان بالا مارکیٹ فورسز کے ہاتھوں میں جا رہا ہے ۔
ایسی صورت حال میں یہ ضروری ہو گیا ہے کہ پاکستان کے ایوان بالا کو مارکیٹ فورسز کے ہاتھ میں دینے کی بجائے کوئی ایسا فیصلہ کیا جائے کہ منتخب جمہوری ادارے عوام اور سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں میں رہیں ۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی یہ تجویز صائب ہے کہ سینیٹ کے انتخابات براہ راست ہوں ، یعنی ہر صوبے ، وفاقی اور دارالحکومت اور فاٹا کے عوام ، ارکان لوکل کونسل ، صوبائی اور قومی اسمبلی کی طرح سینیٹ کے ارکان کا بھی براہ راست انتخاب کریں ۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ صرف ارکان سینیٹ کا ہی نہیں بلکہ صدر مملکت کا انتخاب بھی براہ راست ہونا چاہئے اگرچہ عوام سے ووٹ لینے والے بھی اپنے پیسے کے ذریعے اثر انداز ہوتے ہیں لیکن کامیابی میں سب سے بڑا فیکٹر عوام سے تعلق کا ہی رہتا ہے ۔ پاکستان کے ایوان بالا کو مارکیٹ فورسز کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑنا چاہئے کیونکہ مارکیٹ فوسز کا مفاد آگے چل کر بہت خطرناک شکل اختیار کر لیتا ہے ۔ یہ دنیا کی کسی جمہوریت میں نظر نہیں آتا یہ صرف پاکستان میں ہے اور ہر انتخاب میں priceبڑھتی ہی ہے۔

تازہ ترین