• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان پیپلز پارٹی کے علامتی رہنما بلاول بھٹو زرداری نے سینیٹ الیکشن میں توقع سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کے بعد اعلان کیا ہے کہ ان کی پارٹی آئندہ الیکشن روٹی، کپڑا، مکان کے نعرے پر لڑے گی۔ میرے خیال میں یہ مناسب نہیں کیونکہ پارٹی اس نعرے پر تقریباً 48سال پہلے الیکشن لڑ کر ووٹ حاصل کرچکی ہے اور اتنے طویل عرصے کے بعد پھر اسی نعرے پر الیکشن لڑنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنا پہلا وعدہ پورا نہیں کرسکی اب دوبارہ اسی نعرے پر ووٹ حاصل کرنے کی کوشش ایک بہت نادر آئیڈیا ہے، آزمانے میں تو کوئی حرج نہیں، لیکن اس کے نتائج پر گھبرانے کی بھی کوئی ضرورت نہیں کہ نعرہ تو نعرہ ہی ہوتا ہے، عوام کی مرضی ہے کہ وہ اسے پذیرائی بخشتے ہیں کہ نہیں، تاہم میرا مشورہ یہ ہے کہ بلاول کا آئندہ نعرہ ، نعرے کی بجائے مشورے کی صورت میں ہونا چاہئے اور وہ یہ کہ عوام کو اللہ تعالیٰ نے ہاتھ پائوں کس لئے دئیے ہیں وہ ہم پر بھروسہ کرنے کے بجائے اپنی روزی خود کمائیں۔ روٹی کھائیں، کپڑے پہنیں اور مکان بنائیںبلکہ اگر کچھ بچ جائے تو بقیہ رقم پارٹی فنڈ میں بطور امانت جمع کرادیں۔ عوام جانتے ہیں کہ پارٹی امانت میں خیانت کرنے والوں میں سے نہیں ہے۔
میرے دوست جانتے ہیں کہ مجھے مشورے دینے کا بہت شوق ہے اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ جس نے میرے مشوروں پر عمل کیا اس کے بعد اس نے زندگی بھر میرے ہی نہیں کسی کے مشورے پر کبھی عمل کرنے کی غلطی نہیں کی، مگر میں اس قسم کی صورتحال سے دل برداشتہ ہونے والوں میں سے نہیں ہوں۔ مشورہ دینا میرا بنیادی جمہوری حق ہے اور اس کا استعمال کرتے ہوئے میں عرض کرنا چاہوں گا کہ بلاول اپنی معصوم سی شکل و صورت سے عاقل و بالغ ہونے کے باوجود ابھی تک ایک پیارا سا بچہ لگتا ہے۔ وہ جب سینئر رہنمائوں کو للکارتا ہے تو لگتا ہے چھوٹے منہ میں بڑا لقمہ ڈالنے کی کوشش کررہا ہے، لہٰذا اسے چاہئے کہ جتنا پیارا وہ خود ہے، اتنی ہی پیاری زبان میں وہ انہیں مخاطب کرے، یقین کریں اس سے اس کی بات میں زیادہ وزن پیدا ہوگا اور اس کی بات کو زیادہ سنجیدگی سے لیا جائے گا۔ایک مفت مشورہ اس کے علاوہ بھی ہے اور وہ یہ کہ جب وہ پریس کانفرنس کرتا ہے اور نارمل لہجے میں صحافیوں سے گفتگو کررہا ہوتا ہے، ان لمحوں میں وہ مجھے ایک نہایت معقول، معاملہ فہم، سیاست کی اونچ نیچ سمجھنے والا، موقع محل کے مطابق بات کرنے والا ایک منجھا ہوا سیاست دان لگتا ہے لیکن جب وہ جلسہ عام میں اپنی باریک سی آواز میں چیختا چلاتا دکھائی دیتا ہے تو وہ مجھے کسی فلم کا مضحکہ خیزکردار لگنے لگتا ہے۔ اس کام کے لئے اس کے اباّجی کافی ہیں بلکہ اب تو وہ بھی جلسہ عام کے دوران اپنی دونوں مٹھیوں پر پھونک مار کر سامعین کی طرف بوسے پھینکتے نظر آتے ہیں اور بیچارے عوام سوچتے ہیں کہ ایک بزرگ کے ان بوسوں کا ذکر وہ کس سے کریں اور کس منہ سے کریں؟
اب اگر میں مشورے دینے پر اتر ہی آیا ہوں تو ایک اور بالکل مفت مشورہ پیش خدمت ہے اور وہ یہ کہ حمزہ شہباز عمر میں اور فہم و فراست میں بلاول سے کئی قدم آگے ہیں اور یوں بلاول انہیں حمزہ بھائی جان بھی کہہ سکتے ہیں، اگر ہوسکے تو فی الحال وہ اپنے حمزہ بھائی جان کے نقش قدم پر چلیں، حمزہ نے پنجاب میں کارکنوں کو منظم کرنے اور ان سے قریبی روابط قائم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے، تاہم اسے یہ پلس پوائنٹ حاصل ہے کہ اس کے کریڈٹ پر اس کے تایا نواز شریف اور والد شہباز شریف کی شاندار کارکردگی موجود ہے جبکہ بلاول نے یہ کام تقریباً تن تنہا کرنا ہے۔ والد صاحب جوڑ توڑ اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بہتر روابط کے لئے کوشاں رہیں گے ، چنانچہ بلاول کو چاہئے کہ وہ صرف ’’بھائی جان‘‘ حمزہ شہباز ہی سے الیکشن کی مبادیات سیکھیں بلکہ کسی دن اسلام آباد جائیں تو اپنی آپا’’مریم نواز‘‘ سے بھی ملنے چلے جائیں کہ اگرچہ سیاست میں ان کی اسٹرگل اپنے چھوٹے بھائی سے نسبتاً کم ہے، مگر بہت کم عرصے کے باوجود انہوں نے ایک کم فہم مشیر کے باوجود اپنے والد اور چچا کی حکمت اور جدوجہد سے بہت کچھ سیکھنے کے نتیجے میں ضمنی انتخابات میں پارٹی کی شاندار کامیابی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ میں جانتا ہوں ان مشوروں کے نتیجے میں کوئی لاہوریا، اپنے مخصوص لہجے میں مجھ سے پوچھ سکتا ہے کہ’’بھائی جی،تسی پیپلز پارٹی دے مامے لگدے او کہ اونہاں نوں مشورے دین لگ گئے اوہو‘‘(بھائی صاحب! آپ پیپلز پارٹی کے مامے لگتے ہو جو انہیں یوں مشورے دینے لگ گئے ہو؟‘‘) تو اس کی دو وجوہ ہیں ایک وجہ تو یہ ہے کہ میں پی پی پی کو پاکستان میں ایک مضبوط جماعت کے طور پر دیکھنا چاہتا ہوں کہ یہ جماعت وفاق کی جماعت ہے اور وفاق کو مضبوط دیکھنا چاہتی ہے اور یہ جو میں بلاول ، حمزہ اور مریم کو بھائی بہن قرار دے رہا ہوں تو مجھے دراصل آصف علی زرداری کا بھلے وقتوں کا وہ بیان یاد ہے جس میں انہوں نے اپنے اور شریف خاندان کے درمیان دائمی رشتوں اور آئندہ نسلوں کے بندھن کا ذکر کیا تھا، تو میں آصف علی زرداری صاحب کی وہ خواہش پوری کرنا چاہتا ہوں جو شاید وہ بھول چکے ہیں۔
اور آخری بات، آئندہ کی ملکی باگ ڈور ہماری آئندہ نسل نے ہی سنبھالنی ہے، خواہ وہ یہی نوجوان ہوں یا ان سے بہتر کچھ لوگ نئی نسل سے سامنے آئیں، لہٰذا ان عزیزوں سے درخواست ہے کہ وہ خود کو دوسرے سے بہتر ثابت کریں اور ورثے میں ملے ہوئے خوشگوار تجربات کو اپنے پلس پوائنٹ کے طور پر بروئے کار لائیں۔

تازہ ترین