• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بڑی جماعت، بڑی فتح
کوئی کچھ بھی کہے ن لیگ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے، پی پی کا دوسرے نمبر پر آنا بھی اچھا شگون ہے، کیونکہ کسی بھی جمہوری ملک میں صرف دو ہی بڑی سیاسی پارٹیاں ہوا کرتی ہیں، پی ٹی آئی نے بڑا زور مارا لیکن ہنوز وہ سیاسی وزن و حجم سے محروم ہے، تبدیلی و انقلاب لانے والے رزق دھرنا ہو گئے، انداز سیاست کا بانکپن ن لیگ کو آتا ہے، باقی سب وہ رقاص ہیں کہ ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا، خان صاحب نو من تیل کے انتظار میں اپنی سیاست کی رقاصہ کو روکے ہوئے ہیں، یہ ٹریلر دیکھ کر آئندہ انتخابات کا منظر دیکھا جا سکتا ہے، ایک ’’نا اہل‘‘ نے ن لیگ کو یہاں تک تو پہنچا دیا، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اصل حکمرانی دلوں پر ہوتی ہے، ن لیگ سے سربراہ چھوٹ کر بھی نہ چھوٹا، وہ اپنے قائد کے ساتھ جڑی رہی، دراڑوں کی باتیں، ہارس ٹریڈنگ کے الزامات، اور سینیٹ الیکشن ملتوی ہونے کی افواہیں دم توڑ گئیں، پی ٹی آئی اب تو یہ سمجھ جائے کہ؎
جو دل جیت لینے کا ڈھب جانتے ہیں
وہ ترکیب ورکیب سب جانتے ہیں
کیا اب بھی مریم نواز کے ٹویٹ غلط ہیں؟ آخر وہی ہوا کہ روک سکتے ہو تو روک لو، اور فتح عظیم کو کوئی روک نہ سکا، اب یہ غلط فہمی نہ رہے کہ آئندہ انتخابات میں دیکھ لیں گے ساری قوم نے جو دیکھنا تھا دیکھ لیا، آئندہ اس سے بھی کئی گنا بڑی فتح ہو گی، پارٹی کو منتشر کرنے اور اس کے منتشر ہونے سے متعلق کتنی ہی ہوائیاں چھوڑی گئیں سب ہوا ہو گئیں، ن لیگ کا ہر رکن سمجھدار نکلا، اپنے قائد کی اطاعت کا دامن نہ چھوڑا اور آج دامن بھر گیا۔ سیاسی دانش وائر لیس ہوتی ہے، ایک شخص باہر ہو کر بھی اندر ہی رہا، اور قیاس آرائیوں والے بے نتیجہ قیاس لئے رہ گئے؎
مدعی لاکھ برا چاہے کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے
٭٭٭٭
زر مبادلہ کی آمد میں کمی، وجوہات و اسباب
ایک وجہ تو یہ ہے کہ مجموعی طور پر ملکی حالات ایسے ہیں کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنا سرمایہ پاکستان لانے سے کچھ خوفزدہ ہیں، دوسری اہم وجہ یہ بھی ہے کہ آبادی اور بیروز گاری بڑھنے کے ساتھ باہر کا رخ کرنے والوں کو باہر جانے کے لئے بیشمار کاغذی پیچیدہ کارروائیوں سے گزرنا پڑتا ہے، اور اس پر طرہ یہ کہ قدم قدم پر رشوت ستانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بیروزگار نوجوان اس اذیت ناک پیچیدہ طویل پراسیس کے باعث باہر جانے کا ارادہ ہی ترک کر دیتے ہیں، حکمران اپنی سیاسی ساکھ بچانے میں اسی درجہ مصروف ہیں کہ وہ بیرونی ملکوں میں جا کر ایسے معاہدے نہیں کرتے جن کے بدولت دوسری حکومتیں ہم سے افرادی قوت کا مطالبہ کریں یا ہم اپنے بیروزگار نوجوانوں کیلئے ان سے کامیاب لین دین کریں، ہمیں یاد ہے کہ بھٹو کے عہد میں سعودی عرب، امارات اور کئی دوسرے ملکوں سے بات چیت کی گئی معاہدے کئے گئے اور نوجوانوں کے لئے باہر کے دروازے کھل گئے، تب ویزے کے حصول کا عمل بھی سادہ اور آسان تھا، مگر اب ویزہ حاصل کرنا، باہر کی دنیا میں کام کرنے کا پرمٹ حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، حکومت کو چاہئے کہ باہر جانے کے لئے ویزے کے حصول سے پہلے کے مختلف مراحل کو ون ونڈو آپریشن کے ذریعے آسان بنائے تاکہ ایک ہی چھت تلے ایک ہی دن میڈیکل، تعلیمی اسناد کی تصدیق، وزارت خارجہ سے این او سی کا حصول، قانونی مدد وغیرہ تمام لوازمات پورے ہوں، بالخصوص ایجنٹوں پر مکمل پابندی لگائی جائے جن کی اکثریت صرف سبز باغ دکھاتی اور پیسے بٹورتی ہے، مزدوری کے لئے بیرون ملک جانے والے اور اسٹوڈنٹ ویزہ کے امیدواروں کے لئے ایک سیل حکومت اپنی نگرانی میں قائم کرے، ہمیں بیرونی کرنسی اور بیروزگاروں کو روزگار کی ضرورت ہے، اس سلسلے میں فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔
٭٭٭٭
عطاء الحق قاسمی ہمارا اثاثہ ہیں
اس ملک میں بڑے بڑے کالم نگار پیدا ہوئے لیکن عطاء الحق قاسمی کئی ادبی، فنی اور علمی جہات سے اپنا ثانی نہیں رکھتے، اکثر دانشور بعض دانش کی باتیں جانتے ہوئے بیان پر قدرت نہیں رکھتے مگر یہ قاسمی صاحب کا خاصہ ہے کہ تلخ سچ کو کمال ہنر کی شیرینی سے حیطۂِ تحریر میں لے آتے ہیں، ہم ان کا گناہ بے گناہی جانتے ہیں خود تو کچھ کہہ نہیں سکتے حافظ شیرازی کی زبانی کہے دیتے ہیں؎
یوسف از پاکی داماں خود بہ زنداں می رود
بے گناہی کم گنا ہے نیست در دیوانِ عشق
(یوسفؑ اپنی پاکدامنی کے باعث خود زنداں کی طرف چل پڑے، کیونکہ جہان عشق میں بے گناہ ہونا کم گناہ نہیں)
جس پی ٹی وی کو انہوں نے خون جگر دیا آج اسی کی خدمت کرتے دھر لئے گئے، اہل قلم کیوں خاموش ہیں؟ مجبور ہو کر مجھ بے قلم نے جسارت کی کہ شاید بڑے بڑے نطاق بھی اپنے استاذِ فن مارے بول پڑیں، شاعری، ڈرامہ نگاری، کالم نویسی اور طنز و مزاح کی دنیا میں آج ’’عطاء الحق‘‘ اکیلے ہیں، کوئی ہمسر نہیں، وہ اثاثہ ہیں کوئی محافظ نہیں، زندگی ہی میں قدر شناسی نہ کی تو پھر قدر شناسوں سے بہ اکراہ کہنا ہو گا؎’’سخن شناس نہ ای دلبرا خطا اینجا است‘‘ بہرحال کافی دنوں سے انتظار تھا کہ کوئی شور اٹھے، کوئی احساس دلائے کہ مردِ حق تو عطاء الحق ہیں، ان کے آبگینہ صفت وجود کو ٹھیس لگی ہے، ہم تو اتنے حاذق نہیں کہ مرہم رکھ سکیں تاہم ایک قرض تھا سو بساط بھر چکا دیا کہ ناقدر شناسی سے بڑی کوئی ظلمت نہیں۔
٭٭٭٭
طوطا ’’Fall‘‘
....Oمریم نواز:روک سکو تو روک لو،
ن لیگ سینیٹ میں اکثریتی جماعت بن گئی۔
اور سونامی رُک گئی، بیٹی! اسی طرح جادئہ پدر پر چلتی رہو۔
....Oخورشید شاہ:تمام افواہیں دم توڑ گئیں اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں گی۔
Well Said
....Oعمران خان:سینیٹ الیکشن میں شرمناک ہارس ٹریڈنگ، پیپلز پارٹی، ن لیگ نے بولیاں لگائیں۔
شرمناک شکست کے بعد یہی کہہ سکتے ہیں کہ سیاست، کرکٹ نہیں خان صاحب! آپ آئوٹ ہو گئے۔
....Oشہباز شریف:طوطا فال نکالنے والے مایوس ہو گئے۔
میاں صاحب یہ دراصل طوطا ’’FALL‘‘ ہے۔

تازہ ترین