• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں اس وقت حکومت کی عمران خان کے ساتھ سیاسی محاذ آرائی بڑے خطرناک مرحلہ میں داخل ہورہی ہے جس کا عملاً پاکستان کے عوام کی اکثریت کے حقیقی مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسلئے ہمارے عوام کو تو تعلیم، صحت، روزگار اور سیکورٹی کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور ہمارے سیاسی قائدین اپنے اپنے ایجنڈے پر قوم کو ڈی ٹریک کرنے میں لگے ہوئے ہیں، ایسے لگتا ہے کہ آئندہ انتخابات (اللہ کرے وقت پر ہوجائیں اور اس سے پہلے کوئی اور معاملہ نہ ہو) میں قومی مسائل شاید سیاسی قائدین کے ریڈار پر کم ہوں اور موجودہ محاذ آرائی بدترین سطح پر چلی جائے، اس کے علاوہ اعلیٰ عدالتوں اور نیب جیسے اداروں کو متنازع بنانے یا ان کی بنیاد پر سیاست کرنے کے رجحان کی حوصلہ شکنی ازحد ضروری ہے۔ہمارے عوام کی اکثریت کا تعلق کسی بھی قسم کے سیاسی تنازعات سے نہیں ہے لیکن ان میں پڑھے لکھے اور ان پڑھ ووٹرز کی اکثریت عقل و شعور سے زیادہ جذباتی ہو کر یا یکطرفہ سوچ کے تحت ووٹ ڈالتی ہے، پھر بعد میں اس کی سزا بھی اسے ملتی ہے۔ اس لئے کہ جمہوریت کے تسلسل یا اس کے وقار کا دارومدار ووٹرز کے رویے اور فیصلے پر ہوتا ہے، اسلئے بال اب عوام کے کورٹ میں ہے۔ عوام کو تو اس وقت یہ فکر لاحق نظر آرہی ہے کہ امریکہ، بھارت اور اسرائیل کے گٹھ جوڑ سے پاکستان کیلئے اقتصادی فرنٹ پر جو مشکلات دو تین ماہ کے بعد بڑھنے کا امکان یا خدشہ نظر آرہا ہے ہمارے حکمران نجانے کیوں عوام کو صحیح حقائق سے آگاہ نہیں کررہے اس لئے اگر موجودہ حالات میں پاکستان پر کوئی مزید اقتصادی پابندیاں لگ گئیں تو پھر مزید کئی سال اس کے منفی اثرات منڈلاتے رہیں گے۔ اس لئے یہ بہتر ہوگا کہ ہمارے سیاسی قائدین ہوش کے ناخن لیں۔ وہ ذاتی جھگڑوں کو قومی سیاست کا حصہ نہ بنائیں۔ اس سلسلہ میں قومی سطح پر سیاسی ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کے لئے ایک ضابطہ اخلاق نہ صرف بنانے بلکہ اس پر سختی سے عملدرآمد کرانے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلہ میں تمام ا سٹیک ہولڈرز کسی بھی طریقے سے مل بیٹھ کر سوچیں اگر اس بارے میں سنجیدگی نہ دکھائی گئی تو پھر انتخابات، جمہوریت کے لئے مسائل و مشکلات بڑھ سکتی ہیں اور ملک میں احتساب کا عمل ایک اور مرحلہ میں داخل ہوسکتا ہے جس کی ز د میں ملک کے کئی سو سے زائد بڑے لوگ آسکتے ہیں جو اربوں روپے کے اعلانیہ اور غیر اعلانیہ اثاثوں کے مالک ہیں مگر ان پر ہاتھ ڈالنے کیلئے سیاسی قائدین کی طرف سے کوئی سپورٹ نہیں مل رہی، اس لئے موجودہ حالات کی سنگینی کا احساس کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ اس سے عوام اور معیشت دونوں مزید متاثر ہوں گے اس لئے کہ جمہوریت کے استحکام اور پارلیمنٹ کے وقار سے معیشت یا معاشی حالات میں بہتری لانے کی راہ ہموار ہوتی ہے مگر افسوس ہے کہ اس وقت سب کچھ اس کے برعکس ہورہا ہے۔ معاشی فرنٹ پر سب کچھ اچھا نہیں ہے، مگر اس کے باوجود نئے مالی سال کا بجٹ بنایا جارہا ہے جس میں سوائے حکومتی کارکردگی کے دعوئوں کے کچھ نہیں ہوگا کیونکہ کافی سارے سخت اقدامات تو حکومت نے ابھی سے شروع کردئیے ہیں جس میں پٹرول کے نرخوں میں ہر ماہ ہونے والا اضافہ عوام اور زندگی کے تمام شعبوں کیلئے مزید مسائل اور پریشانی پیدا کررہا ہے۔
پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ کا بنیادی مقصد بڑھتے ہوئے مالیاتی خسارہ کے حجم میں کمی کرنا ہے کیونکہ ملکی برآمدات میں اضافہ کی بجائے درآمدات بڑھنے سے جہاں تجارتی خسارہ مسلسل بڑھ رہا ہے وہاں ادائیگیوں کے توازن میں خسارہ کسی بھی طرح صحتمند رجحان نہیں ہے۔ ان معاشی حالات کے پس منظر میںسیاسی قائدین محاذ آرائی کے بجائے قومی اقتصادی ایجنڈے پر کام کریں۔ دنیا بھر میں احتجاج اور الزام تراشی کی سیاست کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے جبکہ ہمارے ہاں جہالت اور غیر سنجیدہ سیاسی ماحول کی وجہ سے ان جھگڑوں اور معاملات کو انجوائے کیا جاتا ہے جو کہ کسی بھی طرح اچھا نہیں ہے۔

تازہ ترین