• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان مسلم لیگ ن کی پنجاب اسمبلی کی رکن عظمیٰ بخاری نے سینیٹ انتخابات کے نتائج آنے پر جس طرح آنسو بہائے درحقیقت یہ جمہوریت کا وہ نوحہ تھا جو ہر تین سال بعد اس قوم کا مقدر بنتا ہے ، ان کی بھرائی ہوئی آواز عوام کی وہ ترجمانی تھی جس میں بے بسی کا اظہار نمایاں تھا، ان کے چہرے سے جھلکتا کرب اس اذیت کی داستان تھی جس سے ہر غریب، محروم،مجبور،بے کس اور لاچار پاکستانی دوچارہے، ان کی ہچکیاں اس نیم مردہ جمہور کی ٹوٹتی سانسوں کی علامت تھیں جس میں کوئی معجزہ ہی نئی روح پھونک سکتا ہے، ان کا گلوگیر لہجہ اس غم کا بیانیہ تھا جس کا شکار پوری قوم ہے۔ ان کے الفاظ طنز میں بجھے وہ نشتر تھے جو پورے جمہوری نظام کا پوسٹ مارٹم کرنے کیلئے کافی ہیں۔ عظمیٰ بخاری کا یہ تلخ سوال کہ ؛ 31 ووٹ رکھنے والی جماعت کے امیدوار کو 44 ووٹ کیسے مل گئے ؟ جمہوریت کی بولی لگانے والے سوداگروں اور ہوس کے پچاریوں کے چہروں سے نقاب کھینچنے کی وہ کوشش تھا جس میں برسوں سے عوام کے ہاتھ ہی قلم ہو رہے ہیں۔ آفرین ہے جمہوریت کے ان دعویداروں پر جو سب جانتے بوجھتے انجان بن رہے ہیں ،مبارک بادیں دی جا رہی ہیں اور مٹھائیاں بانٹی جا رہی ہیں کیونکہ سب ایک جیسے ہیں ، ایک جگہ دوسرے پربولی لگانے کے الزام عائد کرنے والا دوسری جگہ خود بیوپاری کا روپ دھارے ہوئے تھا،تین سال پہلے بھی اسی موقع پر اور انہی صفحات پہ تحریر کیا تھا اور چند دن پہلے بھی انہی سطور میں یاد دہانیاںی کرائی تھیں کہ سینیٹ الیکشن سرمایہ کاروں کا وہ کھیل بن چکا ہے جس میں پیسہ جیت جاتا اور جمہوریت ہار جاتی ہے۔ وہی ہوا جمہوریت ایک بار پھر تاراج کر دی گئی اور عوام دیکھتے رہ گئے ، دن دیہاڑے ڈاکہ مارنے کی اسں سے بہتر مثال کیا اور کوئی ہو سکتی ہے۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے چند دن قبل خود اعتراف کیا تھا کہ سینیٹ کے انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کی اطلاعات ہیں لیکن ان کی جماعت جمہوریت کا سودا کرنیوالے ایسے تاجروں کو نہ صرف بے نقاب کریگی بلکہ انہیں سب کے سامنے شرمندہ بھی کیا جائے گا لیکن تعجب ہے کہ قومی اسمبلی میں ووٹ ڈالنے کے موقع پر جب اس طالبعلم نے ان کی توجہ سینیٹ کی تاریخ کی بد ترین ہارس ٹریڈنگ کی طرف دلائی تو انہوں نے یہ فرما کر وہاں موجود سب صحافیوں کو ششدر کر دیا کہ قومی اسمبلی میں کوئی ہارس ٹریڈنگ نہیں ہورہی۔ عین اسی وقت پولنگ اسٹیشن قرار دئے گئے کمیٹی روم نمبر دومیں فاٹا کی چار نشستوں کیلئے پولنگ کا عمل جاری تھا اور یہ ایسا الیکشن تھا جس کا وزیر اعظم صاحب کی حکمراں جماعت کے فاٹا سے وزیر مملکت سمیت دو ارکان نے صرف اسلئے بائیکاٹ کیا کیونکہ انہیں شکایت تھی کہ ان کی جماعت نے دو آزاد امیدواروں کے انتخاب کیلئے انہیں اعتماد میں لینے کی بجائے فاٹا ارکان کے اس چھ رکنی گروپ سے سودے بازی کی ہے جن پر مبینہ کروڑوں روپے لینے کے الزامات ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے ارکان صوبائی و قومی اسمبلی اور سینیٹ سمیت ہر متعلقہ فرد کو علم تھا کہ فاٹا کی چار نشستوں کیلئے اسلام آباد میں کہاں کہاں بیٹھ کر سودے بازی کی جاتی رہی ہے اور آخری بھاو کیا طے پایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فاٹا سے قومی اسمبلی کے حکومتی رکن شہاب الدین نے الیکشن کا بائیکاٹ کرتے کہا کہ چھ ارکان کے ایکا کرنے کی وجہ سے ان سمیت پانچ ارکان کے ووٹ کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی کیونکہ فاٹا سے سینیٹ کی ایک نشست پرچھ ووٹ ہی درکار ہیں۔ اسی طرح کے پی سے تحریک انصاف کے قومی اسمبلی کے رکن انجینئر حامد الحق نے پولنگ کے دوران ہی آن کیمرا یہ دعویٰ کیا تھا کہ ہارس ٹریڈنگ کے نتیجے میں فاٹا ارکان کے گیارہ میں سے چھ ارکان کی گروپنگ کی وجہ سے چار امیدواروں کی کامیابی یقینی ہے اور انہوں نے ان چار امیدواروں کے نام بھی بتا دیئے جو ریٹرننگ افسر کے اعلان کردہ غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے بالکل مطابق پائے گئے۔ مال و زر کی ’چمک‘کا یہی وہ نسخہ کیمیا تھا جس کا استعمال ذہن میں رکھتے ہوئے سابق صدر آصف زرداری نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ سینیٹ الیکشن میں بھی سب پر بھاری نظر آئیں گے۔ انہوں نے جو کہا وہ ثابت کر کے بھی دکھا دیا اور سندھ اسمبلی میں مخالفین ارکان کو خریدنے کا واویلا کرتے رہے جبکہ پیپلز پارٹی نے اپنے ارکان کے حجم کے تناسب سے زیادہ نشستیں حاصل کر کے اسے سیاسی جوڑ توڑ کا فن قرار دے دیا۔ اسی فن کی جھلک خیبر پختونخوا میں بھی بخوبی دکھائی دی جہاں پیپلز پارٹی کی صرف چھ نشستیں تھیں ،وہاں جنرل نشست پر کامیابی کیلئے سترہ اعشاریہ اکہتر ووٹ درکار تھے جبکہ خواتین کی نشست پر کامیابی کیلئے باسٹھ ووٹوں کی ضرروت تھی لیکن آصف زرداری اینڈ کمپنی نے ایسا چمتکار دکھایا کہ ایک جنرل اور ایک خواتین نشست حاصل کر کے ناممکن کو ممکن بنا دیا۔ دوسری طرف قومی وطن پارٹی جیسی جماعت صوبے میں دس ارکان رکھنے اور تحریک انصاف سے اتحاد کرنے کے باوجود ایک بھی نشست حاصل نہ کر سکی، اطلاعات ہیں کہ تحریک انصاف نے طے کردہ فارمولے کے باوجود قومی وطن پارٹی کی خواتین نشست کی امیدوار کو ووٹ نہیں دئیے بلکہ ان کے بعض ارکان کی آنکھیں چمک سے ایسی خیرہ ہوئیں کہ انہوں نے پیپلز پارٹی کی خواتین نشست کی امیدوار کے حق میں مہر لگا دی۔ اسی طرح تحریک انصاف کے ارکان نے مولانا سمیع الحق کو ووٹ نہ دے کر پارٹی قیادت کی ہدایات پر ذاتی مفادات کو ترجیح دینے کا ثبوت دیا۔ مولانا فضل الرحمان کی جماعت جے یوآئی ف سولہ ارکان کے ساتھ صرف ایک ہی نشست حاصل کر پائی لیکن اس جنرل نشست پرسابق سینیٹر طلحہ محمود کی کامیابی نے بھی سوالات کھڑے کئے کہ وہ جماعت کی طرف سے دوسری ترجیح کے امیدوار تھے جبکہ جماعت کے صوبائی امیر مولانا گل نصیب پہلے ترجیحی امیدوار تھے لیکن انیس ووٹوں کے حصول کے ساتھ فتح سابق متمول سینیٹر کے حصے میں ہی آئی۔ جہاں تک بلوچستان کا تعلق ہے تو آصف زرداری اس صوبے میں تو سینیٹ الیکشن سے پہلے ہی نقب لگا چکے تھے جس کی بدولت انہوں نے نہ صرف مسلم لیگ ن کی حکومت کو’جمہوری‘ طریقے سے تبدیل کردیا بلکہ صوبائی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کا ایک بھی رکن نہ ہونے کے باوجود اب وہ کامیاب ہونے والے چھ آزاد ارکان کو پیپلز پارٹی میں شامل کرنے کیلئے پوری طرح پر امید ہیں، اس انہونی کو ہونی میں بدلنے کیلئے ان کے دست راست سینیٹر قیوم سومرو اور سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی فیصل کریم کنڈی بلوچستان پہنچ چکے ہیں۔ مفاہمت کے بادشاہ کہلانے والے زرداری بلوچستان کے آزاد امیدواروں کو ہی صرف ساتھ ملانے پر اکتفا کرتے نظر نہیں آتے بلکہ انہیں اپنے زور بازو یا ’زر‘ بازو پر اتنا بھروسہ ہے کہ انہوں نے سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کیلئے بھی جوڑ توڑ شروع کر دی ہے۔ یہ بھی کوئی بعید نہیں کہ پیسے کے بل بوتے پر ایوان بالا میں پہنچنے والے ارکان ان دو اہم عہدوں پر انتخاب کے دوران ہی اپنی سرمایہ کاری پر منافع وصول کرنے کی شروعات کر دیں گے اور جیسے جیسے ’جمہوریت‘ کا سفر آگے بڑھتا جائے گا ان کیلئے اس جمہوریت کا رنگ چوکھا ہوتا جائے گا کیونکہ آخر کار سینیٹ الیکشن کا انعقاد ’جمہوریت‘ کی ہی تو فتح ہے۔ جمہوریت کے اس اہم سنگ میل کو عبور کرنے پر سیاسی جماعتوں اور الیکشن کمیشن کو دلی مبارک باد۔ رہے عوام تو وہ عظمیٰ بخاری کی طرح رو دھو کر جمہوریت زندہ باد کے نعرے لگانے کیلئے ہر دم تیار نظر آئیں گے۔

تازہ ترین