• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارتی ریاست اتر پردیش کے شہر بجنور میں پیدا ہونے والے سید ارتقااحمد زیدی کم سنی میں ہجرت کرکے پاکستان آ گئے اور اپنے خاندان کے ہمراہ کوئٹہ شہر میں قیام کیا۔ یہیں پلے بڑھے اور یہیں سے سرکاری ملازمت کا آغاز کیا، آپ نے چالیس سال تک مختلف جگہوں پر نوکری کی مگر زیادہ عرصہ وفاقی حکومت میں خدمات انجام دیتے رہے، اس دوران آپ عالمی بینک اور اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کےکنسلٹنٹ اور ڈپٹی لیڈر بھی رہے اور بالاخر پلاننگ کمیشن میں ڈپٹی چیف کے عہدے سے ریٹائر ہوگئے۔ آپ افغانستان، پاکستان تجارتی راہداری معاہدے کے تمام ادوار میں شامل رہے اور اسکی کامیابی میں آپ کی ٹیم کے ساتھ ساتھ ان کی انتھک کوششوں کا بھی حصہ رہا جو شاید ان کے کیریئر کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اپنی ملازمت کے دوران آپ نے بائیس ممالک میں پچاس سے زیادہ مرتبہ بین الاقوامی سیمیناروں اور کانفرنسوں میں مختلف سطحوں پر پاکستان کی نمائندگی کی۔
سات سو صفحات پر مشتمل زیدی صاحب کی کتاب ’ارتقا‘ آپ کی پوری زندگی کا احاطہ کرتی ہے جس میں ان کی ذاتی اور پیشہ وارانہ زندگی کے بےشمار دلچسپ اور ہنگامہ خیز واقعات ہیں۔ کتاب کا سادہ اسلوب اور بے ساختہ روانی آپ کے حسن ترتیب اور زبان و بیان پر دسترس کی عکاس ہے۔ آپ کی حس مزاح اور بذلہ سنجی کتاب کے مطالعے کو اور بھی خوبصورت بنادیتے ہیں۔ آپ جہاں اپنے اسکول اور کالج کے واقعات کو بڑی شوخی سے بیان کرتے ہیں وہیں آپ ایوان اقتدار کی غلام گردشوں میں سیاست، مصلحت پسندی اور اقربا پروری کے ساتھ ساتھ مخلص اور ایماندار افسروں کے جذبہ حب الوطنی اور جانفشانیوں سے بھی آگاہ کرتے ہیں، مختلف حالات و واقعات پر آپ کا تجزیہ متوازن بھی ہے اور محتاط بھی، اپنے مخالفین کیلئے بھی آپ کے مشاہدے تہذیب، اخلاق اور رواداری کے دائرے میں ہیں حالانکہ اب اس طرح کا رواج روزمرہ کے نفرت انگیز ٹی وی مباحثوں کی وجہ سے عنقا ہوتا جارہا ہے۔
زیدی صاحب کو اسکول میں اپنے ریاضی کے استاد سے سخت پرخاش ہے کیونکہ وہ ہر ہفتہ طلباء سے اپنے گھروں سے سوکھی روٹیاں لانے کا مطالبہ کرتے ہیں جس کی وجہ موصوف کے گھر میں ’’چار بھاری بھرکم گہرےکالے رنگ کی بھینسیں اور کافی فربہ چھ بکرے بکریاں تھیں‘‘ جو ان کی غذائی ضروریات کا ایک لازمی جز تھیں جنہیں روٹیاں پانی میں ڈبو کر نرم کرنے کے بعد کھلائی جاتی تھیں، زیدی صاحب بمشکل ایک پاؤ یا آدھا سیر روٹیاں ہی لے پاتے تھے اسلئے استاد محترم پوری کلاس میں آپ کو تضحیک کا نشانہ بناتے تھے،اس کے برعکس امیر گھرانوں کے غبی طلباء کئی سیر روٹیاں لانے پر داد و تحسین کے ڈونگرے وصول کرتے تھے۔ ملک میں جب پہلا مارشل لا لگا تو آپ آٹھویں میں پڑھتے تھے اس واقعہ کو آپ کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں: ’’اسکول میں کچھ پر اسرار قسم کی سرگرمیاں دیکھنے کو مل رہی تھیں، ٹیچر پڑھائی میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لے رہے تھے، آپس میں سرگوشیاں کررہے تھے اور ان کے چہرے فکرمند لگ رہے تھے، ایک لڑکے کے پوچھنے پر ہمارے کلاس ٹیچر نے بتایا کہ ملک میں مارشل لا لگ گیا ہے اور جرنل ایوب خان نے اقتدار سنبھال لیا ہے، فوجی کسی کو بھی گولی مار سکتے ہیں اگر کوئی ان کی بات نہ مانے تو، تمام لڑکے سہم گئے‘‘۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں ملازمت کے دوران ایک نہایت ہی غیر معمولی واقعہ پیش آیا، جولائی 1969 ء میں چاند پر امریکیوں کے پہنچنے کی خبر مقامی مسجد کے مولوی صاحب کو کئی ماہ بعد جنوری 1980ء میں ملی اور گویا قیامت برپا ہوگئی، انہوں نےجذباتی تقریر کرتے ہوئے فرمایا: ’’خدا ان خانہ خرابوں کا منہ کالا کرے، کتنے جھوٹے ہیں، اللہ کسی کافر کو کبھی بھی اجازت نہیں دےگا کہ وہ چاند پر اپنا ناپاک قدم رکھے، اس چاند کو دیکھ کر مسلمان روزہ رکھتے ہیں، عید کرتے ہیں، اللہ کس طرح چاند کو ناپاک ہونے دےگا؟" جب ایک شخص نے چاند پر انسان کے پہنچنےکا دفاع کیا تو انھوں نے ڈانٹ کر کہا: ’’لگتا ہے تم بھی ان کافروں کے ایجنٹ ہو، میں نے فیصلہ دے دیا ہے کہ کوئی مسلمان یہ نہیں مان سکتا کہ کوئی کافر چاند پر پہنچ گیا ہے، اگر کوئی اس بات پر یقین کرتا ہے تو وہ خود کافر ہے‘‘۔ یہ سب باتیں لاؤڈ اسپیکر پر ہو رہی تھیں،اپنی زندگی میں ارتقا زیدی صاحب نے مختلف حکمرانوں کے ادوار دیکھے،آپ ایوب خان کے دور کو بہترین ادوار میں شمار کرتے ہیں مگر بھٹو صاحب کی انتظامی اصلاحات کو سرکاری اداروں کی تباہی کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں کیونکہ اس سے سرکاری ملازم حکومت کے ذاتی ملازم بن گئے جس سے ایماندار اور باضمیر سرکاری ملازمین کی زندگی کٹھن ہوگئی اور محنت اور ایمانداری سے کام کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہو ئی آپ محترمہ بینظیر بھٹو کے اس افسوسناک طرز عمل کا ذکر کرتے ہیں کہ وہ کس طرح اپنے حلقے کے لوگوں کو خوش کرنے کیلئے ان کے بجلی کے بلوں میں تخفیف کیلئے سینئر بیوروکریٹس پر دباؤ ڈالتی تھیں اور یوں نہ صرف قومی خزانے کو نقصان پہنچا رہی تھیں بلکہ آئین کی بھی خلاف ورزی کر رہی تھیں، اس کے برعکس آپ صدر فاروق لغاری کی سوجھ بوجھ اور ایمانداری کے معترف ہیں جن کو اپنے کام پر نہ صرف عبور حاصل تھا بلکہ وہ تحمل سے بات سن کر معقول فیصلے دیتے تھے، آپ ضیاء الحق کو ایک کینہ پرور انسان قرار دیتے ہیں ’’جن کی ناعاقبت اندیشی نے ملک کو بہت نقصان پہنچایا‘‘۔ اس کے برعکس محمّد خان جونیجو کو انتہائی شریف اور ایماندار شخص قرار دیتے ہیں، زیدی صاحب مشرّف کے بارے میں بہتر خیالات رکھتے ہیں اور ان کے وزیر اعظم شوکت عزیز کو اچھے الفاظ میں یاد کرتے ہیں، دوران ملازمت2008ء میں آپ کو پیپلز پارٹی حکومت میں موجودہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی جو اس وقت وزیر تجارت تھے کے ساتھ کام کرنے کا موقع مل گیا، جن کے پروفیشنل ازم اور کام کرنے کے طریقہ کار کو آپ نے کافی سراہا۔
ارتقا زیدی صاحب نے یہ کتاب 2012 ء میں امریکہ میں اپنے کینسر کے علاج کے دوران چھ ماہ کے عرصے میں لکھی. ان کی کتاب اسقدر دلچسپ اور خوبصورت ہے کہ میں نے اس کو ایک ہی نشست میں پڑھا، اس کو پڑھکر مرحوم قدرت اللہ شہاب کی معرکتہ الآراء کتاب شہاب نامہ کی یاد تازہ ہوگئی، پاکستان اور اس سے محبت کرنے والے حضرات کیلئے یہ کتاب واقعی ایک بہترین تحفہ ثابت ہوگی، یہ کتاب بیوروکریٹس کو ضرور پڑھنی چاہئے بلکہ سروسز جوائن کرنے والے نوجوانوں کو اس کتاب کے مطالعے سے آگے کی زندگی میں کافی رہنمائی مل سکتی ہے، کراچی کے ایک مشہور پبلیشر نے اس کا دوسرا اور ترمیم شدہ ایڈیشن اسی سال جنوری میں شائع کیا ہے۔

تازہ ترین