• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سائبر سیکیورٹی کی جنگ میں امریکی جاسوسی کے اداروں کی مدد کیلئے برطانیہ پر نظر

سائبر سیکیورٹی کی جنگ میں امریکی جاسوسی  کے اداروں کی مدد کیلئے برطانیہ پر نظر

لندن: ڈیوڈ بونڈ

واشنگٹن: کترینہ مینسن

امریکی انٹیلی جینس اہلکار نے فنانشل ٹائمز کو بتایا کہ امریکی انٹیلی جنس سائبر حملوں کے بدترین خطرے کے لئے تیار ہے، بالکل اسی طرح جیسے امریکا کا شہر ڈیم کی نچلی سطح پر واقع ہو اور تیزی سے اس میں دراڑیں پیدا ہورہی ہوں۔

امریکی جاسوسی اداروں کے ساتھ براہ راست منسلک کرنے کیلئے نجی شعبے کے جذبے میں کمی ہے جیسا کہ 2013 میں ایڈورڈ اسنوڈن کی این ایس اے کی وسعت کے انکشاف کی لیکس کی بنیاد پرکمپنی کے ایگزیکٹوز میں جزوی طور پر وسوسے پائے جاتے ہیں۔

امریکی جاسوسوں کے نگراں کو امریکی کمپنیوں پر سائبر حملے سے غیر محفوظ ہونے کے متعلق خدشات موجود ہیں اور مخالف ممالک کے ہیکرز کی جانب سے بڑھتے ہوئے خطرے کے سامنے میں تحفظ کے اضافے کے بارے میں ہدایات کیلئے وہ برطانیہ کا رخ کررہے ہیں۔

امریکی انٹیلی جینس اہلکار نے فنانشل ٹائمز کو بتایا کہ امریکی انٹیلی جنس سائبر حملوں کے بدترین خطرے کے لئے تیار ہے، بالکل اسی طرح جیسے امریکا کا شہر ڈیم کی نچلی سطح پر واقع ہو اور تیزی سے اس میں دراڑیں پیدا ہورہی ہوں۔

چار دہائیوں کے بعد گزشتہ برس ایجنسی چھوڑنے والے این ایس اے کے سابق ڈپٹی ڈائریکٹر رک لیجیٹ نے کہا کہ کچھ بہت برا ہونے والا ہے جسے ٹھیک کرنا ہوگا۔امریکا کو برطانیہ کے ماڈل کی پیروی کرنا چاہئے۔

امریکا کے انٹیلیجنس حکام کی جانب سے ایک ممکنہ حل برطانیہ کی ڈیجیٹل خفیہ ایجنسی جی سی ایچ کیو کے عوامی شعبہ برطانیہ کے نیشنل سائبر سیکیورٹی سینٹر کی نقل کرنے پر غور کیا جارہا ہے۔

این ایس اے کے سربراہ اور امریکی سائبر کمانڈ ایڈمرل مائیکل روجر جو بالترتیب سائبر دفاع اور جرائم کے معاملات دیکھتے ہیں ، نے این سی ایس سی لندن ہیڈکوآرٹر کا رواں سال دورہ کیا،جو امریکی اور برطانوی سروسز کے قریبی تعلقات کی علامت ہے۔

امریکی انٹیلیجنس عہدیدار نے کہا کہ برطانیہ کی مثال دلچسپی کی حامل ہے،مزید کہا کہ امریکا سائبر حملے کے خطرہ سے نمٹنے کے قابل نہیں۔عہدیدار قومی سائبر اسٹرٹیجی بنانے کیلئے برطانوی کوشش اور پھر انٹیلی جنس ایجنسی کے اندر اس کا اپنا سائبر سیکیورٹی تحفظ کا نظام بنانے کی نظیر پیش کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکا نے ابھی تک اس حوالے سے کچھ نہیں کیا۔

سائبر سیکیورٹی کی جنگ میں امریکی جاسوسی  کے اداروں کی مدد کیلئے برطانیہ پر نظر

سرکاری طور پر کہا گیا ہے کہ برطانیہ جیسے ممالک نجی شعبے میں بھی مداخلت کی ایک روایت رکھتے تھے جو شاید امریکا میں برداشت نہیں کیا جائے گا۔

مسٹر لیجیٹ نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ امریکا بڑا اور پیچیدہ ملک ہے اور وہاں مشترکہ توجہ نہیں ہے۔

2016 میں قائم ہونے والااین سی ایس سی جو واقعات کا انتظام کرتا ہے، کمپنیوں کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔

این سی ایس سی کے قیام میں اہم کردار ادا کرنے والے جی سی ایچ کیو کے سابق ڈائریکٹر رابرٹ ہنگن نے کہا کہ ہر ملک اس سے نبردآزما ہے اورمنطقی طریقے سے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ سائبر میں اکثر کئی کھلاڑی ہوتے ہیں اور یہ واضح نہیں ہوتا کہ کون کس کا ذمہ دار ہے۔

اگرچہ امریکا نے سرکاری اداروں میں دنیا کی جدید ترین اور بہترین ذرائع کی حامل سائبر کی صلاحیتیں حاصل کی ہیں۔جیسا کہ نیشنل سیکیورٹی ایجنسی اور ملکی سلامتی کیلئے محکمہ، سینئر امریکی اپلکاروں کومنتشر سائبر دفاعی پروگراموں کو منظم کرنے اور رابطے کیلئے بہترین طریقے سے تقسیم کیا گیا ہے۔

امریکی نجی شعبے کی سائبر حملوں سے حفاظت کی ذمہ داری محکمہ برائے ہوم لینڈ پر ہے۔لیکن مریکی سائبر دفاعی کارروائی این ایس اے، اہف بی آئی،ڈیفنس ڈپارٹمنٹ،نیشنل گارڈ اور سی آئی اے پر بھی ہے۔

روس ،شمالی کوریا اور چین کی جانب سے سائبر انتقامی کارروائیوں کے بڑھتے ہوئے شواہد نے امریکی زد پذیری کے خوف کو بڑھادیا ہے۔ امریکی انٹیلی جنس کے سربراہ نے ماسکو کی جانب سے امریکی جمہوری اداروں کو تباہ کرنے کی کوششوں کو بیان کیا،اس دوارن انہوں نے الزام لگایا کہ صدر بننےکے انتخاب کے لئے ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی مہم کریملن کے ساتھ ملی بھگت تھی۔ غیرملکی ہیکرز نے پہلے سے ہی ہائی ٹیک ہتھیاروں جیسے پرچم بردار ایف 35 فائٹر جیٹ سمیت دفاعی کنٹریکٹرز سے کلاسیفائیڈ پلان چوری کرلئے ۔

سائبر سیکیورٹی کی جنگ میں امریکی جاسوسی  کے اداروں کی مدد کیلئے برطانیہ پر نظر

امریکی جاسوسی اداروں کے ساتھ براہ راست منسلک کرنے کیلئے نجی شعبے کے جذبے میں کمی ہے جیسا کہ 2013 میں ایڈورڈ اسنوڈن کی این ایس اے کی وسعت کے انکشاف کی لیکس کی بنیاد پر کمپنی کے ایگزیکٹوز میں جزوی طور پر وسوسے پائے جاتے ہیں۔

مسٹر ہنگن نے مزید کہا کہ سائبر میں حکومت کا ایک اہم کردار ہے لیکن وہ سب کچھ نہیں کرسکتی اور نہ اسے کرنا چاہئے۔اسے وسیع پیمانے پر معیشت کو خطرے سے نمٹنے کیلئے صنعت کو اس قابل بنانا ہے۔

اس ہفتے سائبر کمان کے سربراہ کی حیثیت سے کانگریس کو شہادت میں ایڈ مرل راجر نے کمزور سسٹم کو سامنے رکھ دیا اور زیادہ سے زیادہ انضمام پر بحث کی۔انہوں نے کہا کہ ہم دفاعی صنعتی بنیاد اور دفاع میں دفاعی شعبے کے کںٹریکٹرز کو کیسے بہتر بناسکتے ہیں۔ہمیں یہاں مختلف طریقے سے متحرک ہونا پڑ؁ گا۔

تاہم ایک علامت ہے کہ امریکی دفاعی ادارے نجی شعبے کے کنٹریکٹرز کے درمیان سائبر سیکیورٹی کے معیار کو بڑھانے کا خواہاں ہے،نائب دفاعی وزیر پیٹرک شاناہان نے رواں ماہ کہا کہ پینٹاگون کنٹریکٹ دیتے ہوئے یہ شرط عائد کرسکتا ہے کہ کمپنیاں سائبر تحفظ کے حوالے کتنی پرعزم ہیں۔

سان ڈیاگو میں دفاعی صنعت کی کانفرنس میں فنانشل ٹائمز کو بتایا کہ ہمیں ایسا کلچر پیدا کرنا ہوگا کہ ہر کسی کا نگراں ہے وہ نظر میں ہیں لہذٰٓا ان کی فہرست میں سب سے اوپر کیلئے یہ ہونا چاہئے، ٹھیک،کیا ہم محفوظ ہیں؟ کیا ہم سلامت ہیں؟ کیا ہم اپنے رازوں کی حفاظت کررہے ہیں؟ اور پھراندرونی طور اس بات کو یقینی بنانے کیلئے وہ اپنی جگہ پر حفاظت سے ہیں کیلئے میکنزم اور کلچر ہے۔ 

تازہ ترین