• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی تجزیات و انکشافات کےنام پر ہر بات میں سازش ڈھونڈنے والوںاور معاشرے میں بیمار ذہنیت کے جراثیم پھیلانے والوں کو سینیٹ کے انتخابات مبارک۔ سچ یہ ہے کہ تباہی کے پیامبروں نے ساری قوم کو شک و شبے کی بیماری اور مایوسی میں مبتلا کردیا ہے۔ اِن شاء اللہ اسی طرح جمہوری و انتخابی عمل مکمل ہوگا۔ اپنے منطقی انجام کو پہنچ کر نئی منتخب حکومت کے قیام کا باعث بنے گا اور سازش کی سب تھیوریاں دم توڑ جائیں گی۔ یہ چند فقرے میں نے بے اختیار لکھ دیئے حالانکہ میں سیاست سے کچھ بیزار ہو چکا ہوں اور آج اپنے قارئین کو غیرسیاسی گلستان کی سیر کروانےکا ارادہ رکھتا ہوں۔
تاریخ پڑھتے اور سیاست کے رنگ ڈھنگ دیکھتے ہوئے آج مجھے اپنی تاریخ میں چند ایک ’’جوڑیاں‘‘ اور ’’جوڑے‘‘ بہت یاد آئے توجی چاہا کہ موضوع کا ذائقہ بدلوں۔ ظاہر ہے کہ جوڑے انسانی رشتوں سے تشکیل پاتے ہیں لیکن بعض جوڑے تاریخ پہ اس طرح چھا جاتے ہیں کہ وہ تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں یا یوں کہئے کہ وہ خود تاریخ بن جاتے ہیں۔یوں تو ہماری تحریک ِ پاکستان کی صد سالہ جدوجہد کے دوران کئی جوڑے ابھرے، لوگوں کی توجہ اور محبت کا مرکز بنے لیکن پھر سیاسی مدوجزر میں گم ہوگئے۔ ایک جوڑی ایسی تھی جو تقریباً نصف صدی تک مستقل مزاجی، بہادری اور خلوص سے ڈٹی رہی اور معماران ِپاکستان یا بانیانِ پاکستان کا درجہ پاگئی۔ وہ جوڑی تھی قائداعظم اورمادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کی، جس نے بہن بھائی کے رشتے کو ایک ایمان افروز داستان بنا دیا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ماں بیٹے کی مانند بہن بھائی کارشتہ پاکیزہ ترین، مخلص ترین اور مضبوط ترین سمجھا جاتا ہے اور میرا مشاہدہ ہےکہ بہن سراپاایثار، سراپا محبت اورسراپا دعا ہوتی ہے۔ قائداعظم نے پسند کی شادی کی۔ رتی جناح بہرحال ایک بہادر خاتون تھیں۔ انہوں نے گورنر بمبئی لارڈ ولنگڈن کے خلاف احتجاج میں اپنے خاوند کاجس جرأت و بہادری سے ساتھ دیا، اس نے انہیں یادگار بنادیا۔ رتی جناح سے اختلافات اور پھر زندگی کے آخری حصے میں رتی کی بیماری نے قائداعظم کو تنہاکردیا۔ شاید دل ہی دل میں وہ سمجھتے تھے کہ آہنی اعصاب، پہاڑ جیسی استقامت اور ویژن کے باوجود انہیں ایک ایسے ساتھی کی ضرورت ہے جو ان کے لئے آسانیاں پیدا کرے، معاملات کی نگرانی کرے اور محبت کا چشمہ ثابت ہو۔قائداعظم کے بھائی بھی موجود تھے اوربہنیں بھی لیکن یہ قدرت کا حسن انتخاب تھا کہ قائداعظم نے اپنے قریب ترین ساتھی کی حیثیت سے اپنی بہن فاطمہ جناح کا انتخاب جو پیشے کے حوالے سے دانتوں کی ڈاکٹر تھیں اور تنہا زندگی گزانے اور زندگی کی راہوں کواپنے عظیم کردار سے فتح کرنے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔ سیاست آسان کام اور میدان نہیں۔ انگریزوںاور ہندوئوں کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنا اور ہمہ وقت مخالفین کی آنکھوں میں کھٹکنا بہت بڑا امتحان تھا اور اس راہ میں معمولی لغزش نہ صرف انسان کی ذات کو تباہ کرسکتی تھی بلکہ اس کی جدوجہد، محنت اور منزل کو بھی غارت کرسکتی تھی۔ ایک معمولی سا اسکینڈل اور ابرو چشم کا اشارہ انسان کو ہمیشہ کے لئے ڈبو دیتاہے۔ تاریخ پڑھیں تو اس احساس سے حیرت کے نئے باب کھلتے ہیں کہ دونوں بہن بھائی کتنے اُجلے دامن اور بلند و بالاکردار کے مالک تھے کہ کوشش کے باوجود چشم زمانہ ان میں کہیںبھی معمولی سا داغ بھی نہ ڈھونڈ سکی۔ مس فاطمہ جناح نے دن رات بھائی کا ساتھ دے کر اور ان کے ساتھ جلسے، جلوسوں اور تقریبات میں ساتھ رہ کراپنے آپ کو قائداعظم کی زندگی کا جزولاینفک اور تحریک آزادی کا ایک عظیم کردار بنا لیا۔ لطف کی بات ہے کہ مس فاطمہ جناح کی تیس سالہ سیاسی جدوجہد او ر قائداعظم کے ساتھ نے ان کی شاندار سیاسی تربیت کردی تھی اور وہ اپنے بھائی کی مانند اصولی سیاست کی عملی مثال بن چکی تھیں۔ اگر قائداعظم انہیں عملی سیاست میں لاتے، دستور ساز اسمبلی کا رکن منتخب کروا لیتے، جو ان کے لئے معمولی کام تھا یا انہیں بحیثیت مشیراقتدار کے ڈھانچے میں شریک کرلیتے تو وہ ہماری سیاست کے لئے ایک اثاثہ ثابت ہوتیں۔ ذہن کے دریچے کھول کر سوچو تو اس سوال کا جواب فقط ایک فقرے میں موجود ہے کہ قائداعظم اقربا پروری، دوست نوازی، خاندانی یا ذاتی جاہ و حشمت کے سخت خلاف تھے چنانچہ انہوں نے قیام پاکستان کے بعد اپنی بہن کو گھریلو امور کی نگہبانی تک محدود کردیا۔ مادر ِ ملت اپنے بھائی کی خدمت کی علامت بن کر تاریخ میں محفوظ ہوگئیں۔ نہ قائداعظم نے اقتدار کو گھر کی لونڈی بنانے کا کبھی تصور کیا اور نہ کسی فیملی ممبر کو حکومتی راہداریوں کی شکل دکھائی۔ تقریباً یہی حال دوسری جوڑی کا تھا ۔ کیمبرج پلٹ نواب زادہ لیاقت علی کی بیوی رعنا نہایت پڑھی لکھی، ذہین اورمہذب خاتون تھیں۔ لیاقت علی خان اور رعنا کی جوڑی بھی خوب تھی۔ رعنا تحریک آزادی کی تین دہائیوں کی فیصلہ کن جدوجہد کے دوران لیاقت علی خان کے ساتھ ساتھ رہیں۔ قیام پاکستان کے بعد ان کا کردار اور امور خانہ داری کے علاوہ بیگم وزیراعظم کے فرائض سرانجام دینا تھا۔ نہایت دولت مند نواب خان کی بہو ہونےکے باوجود انہوں نے قیام پاکستان کے بعد نہایت سادہ زندگی گزاری۔ کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ وزیراعظم ہائوس کو راشن پرمٹ پر ملنے والی چینی دو تین ہفتوں کےبعد ختم ہوجاتی تو سارا گھرانہ پھیکی چائے پیتا۔ لیاقت علی خان شہید ہوئے تو رعنا اور ان کےبیٹے اس سرزمین میں چھت سے محروم تھے جس کے حصول کے لئے انہوں نے زندگی کا بہترین حصہ وقف کردیا تھا۔ لیاقت علی خان چاہتے تو رعنا کو سیاست میں لاتے لیکن قائداعظم کے تربیت یافتہ لیڈران اقربا پروری وغیرہ سے پاک تھے۔ ان کا مقصد ِحیات ملک و قوم کی بے لوث خدمت تھا نہ کہ اقتدار اور حکومت کو ذاتی جاگیر بنانا۔
اب ذرا قلم کا رخ موڑتا ہوں کیونکہ کالم کا دامن محدود ہے اورباتیں طویل۔ اپنی تاریخ و سیاست پر نظر دوڑاتے ہوئے آج کل مجھے سیاست پر ایک اور جوڑی چھائی ہوئی نظر آتی ہے اور وہ طاقتور جوڑی ہے باپ بیٹی کی۔میاں نوازشریف اور مریم کی جوڑی ماشاء اللہ خوب ہے اور کامیابی کی نئی منزلیں طے کر رہی ہے۔ اللہ پاک اس جوڑی کو سلامت رکھیں جو باپ بیٹی کی محبت کی نئی داستان رقم کر رہی ہے۔ میں نے عرض کیا نا کہ بیٹی اور بہن سراپا ایثار اور سراپا خلوص و محبت ہوتی ہیں۔قاسمی صاحب جن لوگوں کے گیت گاتے ہیں انہی کی پارٹی کے چند بونے سیاستدان ان کے دشمن ہیں ۔ کلثوم نواز کو اللہ سبحانہ ٗ تعالیٰ صحت کاملہ عطا فرمائیں وہ اگر بیمار نہ بھی ہوتیں تو اس کٹھن جدوجہد میں میاں نواز شریف کا اس طرح ساتھ نہ دے سکتیں جس طرح مریم دے رہی ہیں۔ یہ درست ہے کہ مریم کو سیاست میں لانا اور اقتدارکی راہ دکھانا میاں نواز شریف کی مجبوری ہے کیونکہ انہیں اپنی محنت کے ثمر کےلئے ایک عدد جانشین کی ضرورت ہے۔ فطری اصول کے مطابق وہ جانشین حسین نواز اورحسن نوازہوسکتے تھے اور کسی دور میں حسین نواز کی سیاسی تربیت کا عمل بھی جاری تھا لیکن جنرل مشرف کے شب خون نے اس عمل پر بھی شب خون ماردیا۔ حسین نے سیاست سے علیحدگی اورکاروبار پرفوکس کرنے کا ارادہ کرلیا۔ لگتا ہے کہ حسین نواز جنرل مشرف کی سختیوں، قید اور ذلت و خواری کے سبب سیاست سے تائب ہوگئے۔ چنانچہ میاں صاحب کو جانشینی کے لئے مریم کا انتخاب کرنا پڑا۔ مریم مزاحمت کی بہادرانہ سیاست، عوامی جلسوں میں بھرپور تقاریر اور کارکنوں کو متحرک کرکے اپنا مقام بنا چکی ہیں۔ عدالتوں کی حاضریاں، میڈیا مینجمنٹ اور قید و بند کو گلے سے لگانے کے اعلانات نے انہیں سیاسی طور پر پختہ کردیا ہے اور میرے اندازے کے مطابق انتخابات کے بعد جب میاں شہباز شریف وزیراعظم بنیں گے تو مریم
پنجا ب کو سنبھالنے کے قابل ہوچکی ہوں گی کیونکہ پنجاب وفاقی اقتدار کے حصول کے لئے بہترین تربیت گاہ ہے۔ کالم کو سمیٹتے ہوئے عرض کروںگاکہ ماضی میںہماری تاریخ نے قائداعظم اور محترمہ فاطمہ جناح ، لیاقت علی خان او ر رعنا لیاقت کی جوڑیاں دیکھیں جو تاریخ کاحصہ بن گئیں۔ اب ہم میاں نواز شریف اور مریم کی جوڑی دیکھ رہے ہیں جو کامیابی سے سیاست کے صفحات پر اپنے نقوش ثبت کر رہی ہے۔ آزمائشیں، امتحانات اور اتار چڑھائو آئیں گے کہ وہ سیاست کا حصہ ہیں۔ میرا اقتدار، سیاست اور ان کی لابیوں سے کوئی تعلق نہیں اور یہ کالم بنیادی طور پر دعائیہ ہے، تنقیدی نہیں۔ چنانچہ میری دعا ہے کہ اللہ پاک اس نئی جوڑی کو سلامت رکھیں اور انہیں ملک و قوم کی بے لوث خدمت کی توفیق عطا فرمائیں کہ ہر توفیق صرف اور صرف اللہ سبحانہ ٗ تعالیٰ کی جانب سے عطا ہوتی ہے۔

تازہ ترین