• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ابن انشا مرحوم چھوٹے جملے میں بنوٹ کھیلتے تھے۔ ایک دفعہ لکھا، سیالکوٹ میں کھیلوں کا سامان اور شاعر اچھے بنتے ہیں۔ حضرت کا اشارہ اقبال اور فیض کی طرف تھا۔ ابن انشا کی طرز میں نثر لکھنا جسارت نہیں، مہم جوئی ہے۔ مہم جوئی ہمارا قومی شعار ہے۔ دلدل میں اترنا ہو، کھائی میں چھلانگ لگانا ہو، منجدھار میں غوطہ زنی کرنا ہو، ملک کا آئین توڑنا ہو، خود ملک توڑنا ہو، ہم باطل سے ڈرنے والے نہیں۔ آنکھیں بند کر کے نعرہ مستانہ بلند کرتے ہیں اور پھر چراغوں میں روشنی نہیں رہتی۔ ابن انشا کے اتباع میں صرف یہ کہنا تھا کہ پاکستان میں دفاعی تجزیہ کار اور کالم نگار اچھے بنتے ہیں۔ رسد طلب سے بڑھ جائے تو جنس ارزاں ہو جاتی ہے۔ میر تقی نے فرمایا تھا، صناع ہیں سب خوار، ازاں جملہ ہوں میں بھی… کالم منڈی کی مجموعی صورتحال سے قطع نظر، کوئی سال بھر پہلے مشفق مکرم ظفر محمود نے کالم لکھنا شروع کئے تو بہت خوشی ہوئی۔ ظفر محمود کا علم بے پناہ، تجربہ فراواں اور مشاہدہ گہرا ہے، کالم کیا لکھتے ہیں، سوندھی مٹی کے کوزے میں کھیر پیش کرتے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک مزے کا جملہ لکھا کہ کراچی نیشنل اسٹیڈیم کے بیرونی حصے میں ایک گردآلود تختی آج بھی موجود ہے جس پر مرقوم ہے کہ ’یہ عمارت عہد نقوی میں تعمیر ہوئی۔‘ واضح رہے کہ طالب نقوی پاکستان کے ابتدائی برسوں میں افسر شاہی کی اس تکون کا حصہ تھے جس کے ایک رکن ہاشم رضا کے بارے میں کسی دل جلے نے لکھا تھا، ہاشم رضا میں شمر ہے پورا گھسا ہوا… پورب کے ساکنو! قائد اعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں اسلامیان ہند نے یہ قطعہ ارضی اس لئے حاصل کیا تھا کہ ہمیں قافلہ حسین کی آزمائش بھولنے نہ پائے۔
مانک میاں مشرقی پاکستان کے جید صحافی تھے۔ کہا جاتا تھا کہ ملک کے مشرقی اور مغربی حصے میں حسین شہید سہروردی اور پی آئی اے کے بعد اگر کوئی بندھن ہے تو مانک میاں کی ذات گرامی ہے۔ عزیز احمد مشرقی پاکستان کے چیف سیکرٹری تھے۔ بعد میں بھٹو صاحب کے وزیر مملکت برائے خارجہ امور بھی رہے۔ مانک میاں ان سے ملاقات کے لئے آئے۔ اس رتبے کے صحافیوں اور اعلیٰ سرکاری افسروں میں میل ملاقات معمول کی بات ہوتی ہے۔ مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے چیف سیکرٹری عزیز احمد نے بنگالی صحافت کی اس نابغہ ہستی کے ساتھ ایسی بدسلوکی کہ مشرقی پاکستان کے صحافی ہمیشہ کے لئے برگشتہ ہو گئے۔ سرکاری اہل کار وائسرائے جیسا رویہ اپنائے گا تو مشرقی پاکستان کو کالونی قرار دینے والے باغی ذہن بھی پیدا ہوں گے۔ یہ بات مگر ریاستی منصب پر بیٹھنے والوں کو کم ہی سمجھ آتی ہے۔ ایک مثال دیکھیے۔ 1971 کا تاریک برس تھا، آٹھ دسمبر آ چکا تھا۔ مکمل فوجی شکست میں ایک ہفتہ باقی تھا۔ فیصلہ ہوا کہ اعلیٰ سول افسروں کی جان بچانے کے لئے انہیں گورنر ہاؤس میں منتقل کر دیا جائے۔ حسن ظہیر لکھتے ہیں کہ چیف سیکرٹری مظفر حسین نے گورنر ہاؤس میں اپنے لئے بالائی منزل پر اعلیٰ کمرے کا انتخاب کیا تاکہ ان کے منصب کا پروٹوکول قائم رہے۔ پروٹوکول بہت اہم چیز ہے۔ ملک تو بنتے اور ٹوٹتے رہتے ہیں۔ ایوب خان کے سیکرٹری اطلاعات الطاف گوہر سرکاری موقف دینے کے لئے پریس کانفرنس کرتے تھے تو ان کے طمطراق کا احوال کبھی حسین نقی سے پوچھئے گا۔ ایک دفعہ ملک کی قیادت سیاسی ہاتھوں سے نکل گئی تو پھر سول سرونٹ کے دن بھی گنے گئے۔ اگر عوام کی رائے کے بجائے ریاستی اختیار ہی سے اقتدار کشید کرنا ہے تو پھر سول سرونٹ کا قلم کیوں؟ بریگیڈئیر شیر بہادر کا پستول، جنرل جہانزیب ارباب کی بھبھک، جنرل گل حسن کی گالی اور جنرل محمود کی مونچھیں اقتدار کا کہیں زیادہ موثر منبع قرار پاتی ہیں۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کسی بھی ملک میں فوج ایک منظم ادارہ ہوتا ہے، اس میں اوپر سے نیچے تک قیادت کی درجہ بندی واضح ہوتی ہے، ذرائع ابلاغ کو بے وجہ بکواس کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ نہ جلسے کا ہجوم ہوتا ہے اور نہ جلوس کا ہنگامہ، یکسوئی سے قومی ترقی کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ اسی لئے محسن قوم پرویز مشرف نے پچھلے دنوں فرمایا کہ ایوب خان اور ان کے اپنے دور میں پاکستان آسمان پر پہنچ گیا تھا۔ یہ بتانا مناسب نہیں سمجھا کہ آسمان کی بلندیوں پر فلک کی کج رفتاری کا کیا نظارہ دیکھا۔ مارچ 1969 میں یحییٰ خان نے ایوب خان، دسمبر 1971ء میں گل حسن نے یحییٰ خان اور اگست 2007ء میں پرویز کیانی نے پرویز مشرف کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟ کیا کیا خضر نے سکندر سے…
قوم کے وسیع تر مفاد جمہوریت سے نجات حاصل کرنے کے بعد رعایا سے رابطہ رکھنے کے لئے موقع شناس سیاسی لوگوں کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ایوب خان نے مغربی پاکستان میں امیر کالا باغ اور مشرقی پاکستان میں منعم خان کا انتخاب کیا۔ نواب امیر محمد کالاباغ فرماتے تھے، ’پاکستان دو وکیلوں نے بنایا۔ ایک خواجہ اور دوسرا شیخ۔ دونوں کے پاس ایک ایکڑ زرعی زمین نہیں تھی، انہیں کیا معلوم تھا کہ حکومت کیسے کی جاتی ہے؟‘۔ واقعی قائد اعظم حکومت کرنا نہیں جانتے تھے۔ یہ بصیرت تو منعم خان کو ملی جن کا فرمان تھا کہ ’جو میرے صدر (ایوب) کے خلاف زبان کھولے گا میں اسے جیل میں ڈال دوں گا‘۔ بالکل ایسے جیسے اکتوبر 2007 میں پرویز الہٰی نے پرویز مشرف کو دس بار وردی میں منتخب کرنے کا اعلان کیا تھا۔ چوہدری پرویز الہٰی معزز شخص ہیں۔ یقیناً انہیں یاد ہو گا کہ ابھی نو بار پرویز مشرف کو وردی میں صدر بنانا ان کے ذمہ ہے۔
آمریت کو بے ضمیر سیاست دانوں کے علاوہ ایسی عدلیہ کی ضرورت بھی پڑتی ہے جو جابر سلطان سے پوچھ کر فیصلے سنائے۔ اگست 1977کا پہلا ہفتہ تھا۔ معروف صحافی انعام عزیز، مولوی مشتاق حسین سے ملنے گورنر ہاؤس گئے۔ مولوی صاحب کو چیف الیکشن کمشنر بنایا جا چکا تھا۔ انعام عزیز نے ـ’اسٹاپ پریس‘ میں اس ملاقات کی یادداشتیں لکھی ہیں۔ مولوی مشتاق نے فرمایا ’آپ کو اندازہ نہیں کہ اس ملک کے اخبار نویس مجھ سے بہت خوف زدہ رہتے ہیں۔ دو ایک کو تو توہین عدالت کے جرم میں جیل کی سزا بھی سنا چکا ہوں۔ ایک اخبار نے میرے بارے میں کوئی خبر شائع کی، میں نے ڈھونڈ کر اس ایڈیٹر کو طلب کر لیا اور عدالت میں اسے اتنا رگیدا کہ وہ چھٹی کا دودھ بھول گیا...رہا آپ کا معاملہ، تو متنبہ کر رہا ہوں کہ آپ اخبار نویس ضرور ہوں گے مگر توجہ سے نہیں چلیں گے تو مارے جائیں گے۔
اس وقت تو آپ کو بخش دیتا ہوں... آئندہ یاد رکھیے گا کہ میں آپ کو اپنی عدالت میں ضرور بلواؤں گا۔ اور پھر آپ کا جو بھی حشر ہو گا اس کا اندازہ آپ کو ہونا چاہئے۔‘
پاکستان کی آزاد مملکت میں ہم نے سنگ مرمر سے تراشے بہت سے دیوتا دیکھے۔ سب کو سرکاری منصب پر پہنچ کر ملک کی مسیحائی کا واہمہ لاحق ہوا۔سب کے پاؤں مٹی سے بنے تھے۔ اس وقت یہ قصے اس لئے یاد آئے کہ میں نے استاذی عطا الحق قاسمی کے یکے بہ دیگرے دو کالم پڑھے ہیں۔ جنہیں پڑھ کر مجھے ذاتی طور پر گہری ذلت اور شدید توہین کا احساس ہوا کہ ہمارے مستند اکابر کو ایسے صفائیاں دینا پڑ رہی ہیں جیسے 1919 کے مارشل لامیں لاہور کے زعما کی سڑک پر حاضری لگائی جاتی تھی۔ اس دوران ایک اور قاضی نے امتیاز عالم کے بارے میں سخت ریمارکس دئیے ہیں۔ امتیاز عالم فاطمہ جناح کی حمایت میں قید ہوا۔ 68ء میں قید کاٹی۔ یحییٰ خان نے گرفتار کیا۔ بھٹو کا معتوب رہا، ضیاالحق نے چھ برس تک امتیاز عالم کو ہری پور اور پشاور کی جیلوں میں رکھا۔ پرویز مشرف نے امتیاز عالم کو قید رکھا۔ مجھے صحافی ہونے کا دعویٰ نہیں، پاکستان کا ایک شہری ہونے کے ناطے عرض کرتا ہوں کہ ہمارے اکابر کو گھٹنوں کے بل جھکانے کا زعم رکھنے والوں کو خیال کرنا چاہئے کہ ہم اس زمین کے دراوڑ ، بھیل، کوہلی اور شودر ہیں۔ ہمارے دلوں میں محبت کی حرارت ہے لیکن ہم نے تاریخ تھر کے اونٹوں سے پڑھی ہے۔ ہم معاف کر دیا کرتے ہیں، ہم بھولنا نہیں جانتے!

تازہ ترین