• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کہتے ہیں کہ پاکستان میں رہنے والا ہر شخص کسی نہ کسی پیرسائیں کا مرید، معتقد اور ماننے والا ہوتا ہے۔ کوئی پاکستانی بے پیرنہیں ہوتا۔ پاکستانیوں کا کعبہ قبلہ تو ایک ہوتا ہے مگر ان کے پیر سائیں الگ الگ ہوتے ہیں۔ یہ معلومات مجھے باوثوق ذرائع سے ملی ہیں۔ وہ لوگ آپ کے اور میرے بارے میں اعداد و شمار جمع کرتے ہیں اور بیرون ملک اپنے آقائوں کو بھیجتے رہتے ہیں۔ مثلاً پاکستان میں رہنے والے کتنے فیصد لوگ پاگل ہیں، کتنے فیصد لوگ نیم پاگل ہیں۔ اور کتنے فی صد لوگ عنقریب پاگل ہونے والے ہیں۔ ایسی اور اس قسم کی معلومات وہ لوگ پاکستان سے باہر بھیجتے رہتے ہیں۔ وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ پاکستان میں کتنے فی صد لوگ اپنے لئے رشوت لیتے ہیں اور کتنے فی صد لوگ اپنے اعلیٰ افسران کے لئے رشوت لیتے ہیں۔ ان کے ہاں کام کرنے والا ایک چپراسی میرا دوست ہے۔ وہ مجھے مطلوبہ معلومات کی فوٹو کاپیاں فراہم کرتا ہے۔ اسی چپراسی دوست نے مجھے پیر سائیوں کے بارے میں مصدقہ تحقیق کی فوٹو کاپیاں لاکر دی تھیں۔
پیر سائیں استعارہ ہے۔ صرف دو لفظوں کا مرکب نہیں ہے۔ یہ ایک محاورہ ہے۔ پیر سائیں صرف پاکستان اور ہندوستان میں پائے جاتے ہیں۔ آپ عمرہ یا حج کرنے کیلئے سعودی عرب جائیں۔ آپ کو کسی پیر سائیں کا نام و نشان دکھائی نہیں دے گا۔ وہاں پیرسائیں نہیں ہوتے۔ آپ مصر جائیں، آپ شام جائیں ، آپ دمشق جائیں، آپ ایران جائیں، آپ ملائشیا جائیں، آپ انڈونیشیا جائیں، آپ ترکی جائیں، آپ دبئی اور شارجہ جائیں، کسی پیر سائیں کاواسطہ آپ سے اور آپ کا واسطہ کسی پیرسائیں سے نہیں پڑے گا۔ تمام اسلامی ممالک میں سوائے پاکستان کے مردہ یا زندہ پیر سائیں دکھائی نہیں دے گا۔ ہمارے ہاں زندہ یا مردہ پیرسائیں بکثرت پائے جاتے ہیں۔ ہم پیرسائیوں میں خود کفیل ہیں۔ پیرسائیں زندہ ہوں یا مردہ ہوں، ہم پاکستانیوں کی زندگی پر چھائے ہوئے ہوتے ہیں۔ اب تو پیر سائیوں نے ہماری سیاسی سوچ کی ڈور بھی سنبھال لی ہے۔ کس کو ووٹ دیں، کس کو ووٹ نہ دیں ؟ یہ فیصلہ بھی ہم پیرسائیں کی ہدایت کے مطابق کرتے ہیں۔ پیر سائیں وزیر بنواتے ہیں۔ پیر سائیں وزارت سے محروم بھی کرواسکتے ہیں۔ پیر سائیں روڈ راستے بلاک کروا سکتے ہیں۔ ریل گاڑیاں رکواسکتے ہیں۔ اگر چاہیں تو حکومتوں کا تختہ الٹ سکتے ہیں۔ مگر میں روہڑی کے جن پیروں کا ذکر آپ سے کرنا چاہتا ہوں ، وہ آج کل کے پیروں سے قطعی مختلف ہیں۔
روہڑی اور سکھر کے درمیان دریائے سندھ گزرتا ہے۔ دریائے سندھ کے ایک کنارے پر روہڑی شہر آباد ہے۔ عین روہڑی شہر کے سامنے، دریائے سندھ کے دوسرے کنارے پر سکھر شہر آباد ہے۔ سکھر میں تیزی سے عمارت سازی ہورہی ہے۔ دس پندرہ منزلہ عمارتیں تعمیر ہورہی ہیں۔ بزنس مال ، شوروم ، کاروباری مراکز کھڑے ہورہے ہیں۔ تیزی سے سکھر شہر کی آبادی بڑھتی جارہی ہے۔ دیہات سے خوش حال لوگ نقل مکانی کرکے سکھر شہر میں آباد ہورہے ہیں۔ بلوچستان سے بھی ہمارے بھائی ہمیشہ کی طرح سکھر آکر آباد ہورہے ہیں۔ اس کے برعکس روہڑی اجڑتا جارہا ہے۔ بٹوارے سے پہلے جس شہر کا نام روہڑی تھا، آج اس روہڑی شہر کا سایہ تک نہیں ملتا۔ یہ دوشہر روہڑی اور سکھر اگر یورپ میںہوتے یا کسی ترقی یافتہ ملک میں ہوتے تو آج دونوں شہروں کے در میان کیبل کار چل رہی ہوتی۔ دونوں شہروں کے درمیان فیری سروس رواں ہوتی۔ دریائے سندھ کے دونوں کناروں پر باغ باغیچے ہوتے۔ ریستوران ہوتے۔ پارک ہوتے۔ سایہ دار درختوں کے نیچے سستانے کے لئے آرام دہ بنچ لگے ہوتے۔ آج دریائے سندھ کے دونوں کنارے دیکھ کر ہمیں اپنے گنوار ، اجڈ اور بے ڈھنگے ہونے کا شدت سے احساس ہوتا ہے۔ یہی دو کنارے بٹوارے سے پہلے خوابوں کی طرح آباد تھے، ایسے خواب جو کھلی آنکھ سے دیکھے جاتے ہیں۔
روہڑی شہر میں بیشمار پیر سائیوں کے مزار آپ کو چپے چپے پر ملیں گے۔ کچھ مزار ا ٓباد ہیں۔ کچھ اجڑ چکے ہیں۔ ان تمام مدفون پیروں کی اپنی اپنی ساکھ ہے، اپنی اپنی شہرت ہے۔ ایک پیرسائیں کا نام ہے، پیر حاجنا شاہ۔ ماننے والوں کا یقین ہے کہ ایسے لاعلاج مریض جن کاعلاج صرف آپریشن سے ممکن سمجھا جاتا ہے، وہ مریض پیر حاجنا شاہ کے مزار پر چلہ کاٹتے ہیں اور ٹھیک ٹھاک ہوکر چلے جاتے ہیں۔ چلہ کاٹتے ہوئے مریضوں کے گردوں اور مثانوں سے پتھری نکل جاتی ہے۔ پتے کی پتھری نکل جاتی ہے۔ ناسوربند ہو جاتے ہیں۔ پھوڑے ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ ٹھیک ہوجانے والے مریض ہدیہ کے طور پر مزار کے مجاوروں اور وہاں موجود لوگوں کو مچھلی کا سالن اور روٹی کھلاتے ہیں۔ آج بھی پیر حاجنا شاہ کے مزار پر مریضوں کاتانتا بندھا رہتا ہے۔ سول سرجن کہلانے میں آتے ہیں۔
ایک مزار میں پیر موریو توریو دفن ہیں۔ ENTیعنی گلا ، ناک اور کان کے امراض میں مبتلا مریض ان کےمزار پر آتے ہیں۔ ٹھیک ہو جانے کے بعد ہدیہ کے طور پر مزار کے مجاوروں کو نمک دیتے ہیں۔
ایک مزار میں پیرعلی آسمانی دفن ہیں۔ ٹائیفائیڈ میں مبتلا مریض ان کے مزار پر آتے ہیں۔ وہیں پڑے رہتے ہیں۔ ٹھیک ہوجانے کے بعد مزار کے مجاوروں کو دہی اور روٹی دیتے ہیں۔ اور صحت یاب ہو کر اپنے گھر جاتے ہیں۔
ایک پیر سائیں کے مزار پر Migraine میں مبتلا مریض جاتے ہیں۔ آدھے سر میں ناقابل برداشت درد کو مائیگرین کہتے ہیں۔ پیر سائیں کا اسم گرامی ہے پیر شادی شہید۔ ٹھیک ہو کر گھر لوٹ جانے والے شفایاب مریض مزار کے مجاوروں کو ہدیہ کے طور پر میٹھی روٹی کھلاتے ہیں۔
روہڑی میں دوپیر ایسے بھی مدفون ہیں جو بچوں میں بیماریوں کے معالج ہیں۔ یعنی Child Specialist ہیں۔ ایک پیرسائیں کا نام ہے۔ شاہ عبدالرحمان ، صحت یاب ہوجانے کے بعد بچوں کو کہا جاتاہے کہ وہ پیر سائیں کی قبر پر پتھر برسائیں۔ دوسرے چائلڈ اسپیشلسٹ پیرسائیں کا نام ہے، پیر دادو شاہ۔ صحت یاب ہونے والے بچوں کو کہا جاتا ہے کہ وہ پیر سائیں کی قبر پرچڑھ کر بیٹھ جائیں۔
ایک پیر سائیں کے ہاں بیمار گھوڑوں کا علاج ہوتا ہے۔ کسی کے ہاں دماغی امراض کے مریض آتے ہیں۔ ایک پیرسائیں ہیں روہڑی میں۔ ہر مرض کے معالج ہیں۔ ان کے بارے میں باتیں ہوں گی اگلے منگل کے روز۔

تازہ ترین