• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اب اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ ہمارے تین مرتبہ وزیراعظم بننے والے محترم میاں نوازشریف اب اپنے خلاف سپریم کورٹ کے نااہلیت کے فیصلے کے فقط ناقد نہیں، وہ کھل کھلا کر فیصلہ دینے والے بینچ کو عدلیہ ماننے سے انکاری ہیں۔ وہ اور ان کی صاحبزادی اپنے اس بیانیے کو قومی بیانیہ بنانے اور اس کے آئین سے تصادم کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے۔ بیانیہ ان کا یہ ہے کہ اصل عدلیہ وہ بینچ نہیں جنہوں نے مجھے نااہل قرار دیا، بلکہ اس کے مقابل اصل فیصلہ عوام کا ہے یعنی وہ ووٹرز جو جلوسوں میں ہاتھ اٹھا اٹھا کر ان کے بیانیے کی تائید کرتے ہیں۔ یہ بھی مان لیا جائے تو انکی اپنی ہی تعریف کے مطابق عدلیہ تو پھر پولنگ ڈے پر ہی لگے گی یا قوم جلسہ گاہوں میں بچارے ان شرکا کی تائید کو ہی سپریم کورٹ کے فیصلے کے مقابل اصل فیصلہ مان لیا جائے؟ ہاں کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ حکمرانوں کی عدلیہ تو ووٹرز ہوگئے وہ بھی ان کے اپنے، یا ان کے حواریوں کے زیر اثر ہیں، جو ان کے جلوسوں میں آکر یا لانے پر محترم میاں صاحب اور ان کی صاحبزادی کے لفظ لفظ کی تائیدی بن کر وفا شعاری کا ولولہ انگیز مظاہرہ کرتے ہیں۔گزشتہ روز تو میاں صاحب نے اپنی تحریک عدل کے تناظر میں ہی گجرات، کوٹلہ اور ارب علی خاں میں عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ ’’فیصلہ کن جنگ کا تہیہ کرلیا، 70سالہ بیماری ختم کرنے کا وقت آگیا ہے‘‘۔
محترمہ مریم صاحبہ نے اپنے گرجدار خطاب میں کہا ’’عدالتیں جتنی تیزی سے نوازشریف کے خلاف فیصلے دے رہی ہیں، اس سے کہیں جلدی فیصلہ عوامی عدالت سے آجاتا ہے، نااہل کرنیوالوں کو رسوائی کے سوا کچھ نہ ملا‘‘۔
اب قومی الت یہ بن گئی ہے کہ آئین پاکستان کی رٹ اور اس کے تحت ریاستی نظام ہی سابق وزیراعظم اور ان کی سیاست دان بن جانے والی بیٹی سے سپریم کورٹ کے فیصلے کو منوا رہا ہے، لیکن وہ عدلیہ کے فیصلہ اور نیب کی کارروائی کو کسی طور پر دل سے ماننے کے لئے تیار نہیں اور یہ عدم اتفاق الیکشن سے بھی جلسوں میں لگی ’’عوامی عدالتوں‘‘ میں دھڑلے سے جاری ہے جسے اب ’’کھلی جنگ‘‘ قرار دے دیاگیا ہے، کیونکہ دل کسی طور نہیں مان رہا کہ سپریم کورٹ کا 5رکنی بینچ اصل ملکی عدالت ہے، لیکن ن لیگ کا ہی بڑا اور سرگرم دھڑا جو جناب شہباز شریف کی قیادت میں اپنی جماعت کی سیاست کو لے کر چل رہا ہے، تمام سیاسی جماعتوں اور پوری قوم کی طرح، آئینی عدالت کو ریاستی عدالت مان رہا ہے۔ ایسے میں جناب نوازشریف اور محترمہ مریم اپنی عدالت کو اصل عدلیہ کے طور پر منوانے کے لئے کل انحصار ن لیگی ووٹروں پر کررہے جنہوں نے الیکشن 18میں ووٹ دینے ہیں، سردست وہ اس کا ثبوت اپنے کامیاب جلسوں سے دے رہے ہیں۔
اس سارے پس منظر میں بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ دونوں اور ن لیگ کے چند مخصوص مقررہ وزراء نے تو آپ کی تصوراتی عوامی عدلیہ کو ہی جو اصل عدالت مان لیا ہے، تو یہ سپریم کورٹ جسے پوری قوم، سیاسی جماعتیں اصل عدلیہ مان رہے ہیں، اور آپ بھی اس کی آئینی رٹ کے مطابق متاثر ہوگئے تو پھر آپ کا عدم اتفاق کیا ہے؟ یہ مان بھی لیا جائے کہ عوامی ووٹ سے ہی فیصلے ہونے چاہئیں تو جو ملزمان، مدعی، وکیل، عام شہری آئینی عدلیہ کو ہی مانتے ہیں، لیکن وہ ووٹ لینے والے نہیں کہ وہ بطور امیدوار انتخابی عمل میں آتے ہی نہیں، ان کی عدالت حصول انصاف کے لئے آپ کی اصلی عدالت (ووٹرز والی) کیسے ہوسکتی ہے؟ یہ تو نہیں ہوسکتا کہ ووٹ لینے والوں کی عدالت تو صرف ووٹرز ہوں اور ان کا فیصلہ ہی اصل فیصلہ ہو اور جو کروڑوں شہری ووٹ لیتے نہیں صرف دیتے ہیں، ان کی عدلیہ سپریم کورٹ ہو جسے میاں صاحب اور صاحبزادی بھی نہیں مان رہیں۔
پھر یہ بھی نہیں کہ اس موجودہ عدلیہ کو آپ نے کبھی نہیں مانا، ماضی قریب میں آپ نے موجودہ تشخص کی ہی حامل اسی سپریم کورٹ کو بطور وزیراعظم مانا بلکہ بطور اصل عدلیہ اس کی وکالت کی۔ لیکن تب جب پیپلز پارٹی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سپریم کورٹ سے فراہمی انصاف کے بعد وزیراعظم نہ رہے اور پارٹی نے اس عدالتی فیصلے کو قبول کیا، کوئی مزاحمت نہ کی فقط لوپروفائل میں، احتیاط سے گنجائش کا فائدہ اٹھاتے فیصلے پر تنقید کی تو آپ نے 25ستمبر 2012ء کو حامد میر سے اپنے ٹی وی انٹرویو میں میر صاحب کو روک کر سوال کیا کہ ’’آپ مجھے بتائیں عدلیہ کونسا کام غلط کررہی ہے؟ پھر اس کا جواب بھی آپ نے خود دیا کہ میری نظر میں تو موجودہ حکومت توبہت کچھ غلط کررہی ہے۔ جیوڈیشری تو کوئی کام غلط نہیں کررہی۔ کوئی ایک کام بھی بتاد یں کہ جو عدلیہ نے غلط کیا ہو۔ میڈیا میں آرہا ہے کہ انہوں نے (بے نظیر اور آصف زرداری کے اکائونٹ کے حوالے سے) 6کروڑ ڈالر بے نقاب ہونے کے بعد یہ رقم سوئیز بینک سے منتقل کررہے ہیں۔ یہ پاکستان کا پیسہ تھا اسے آنا چاہئے یا نہیں؟ مجھ جیسے بندے کو عدلیہ کے ساتھ ہونا چاہئے یا نہیں؟ جیوڈیشری اگر یہ پیسہ واپس لانا چاہتی ہے تو مجھے عدلیہ کا ساتھ دینا چاہئے یا زرداری کا؟
امر واقعہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ ماضی کے برعکس سپریم کورٹ کے نئے تشخص اور اس کی سرگرمی کے باعث ہورہا تھا۔ آج بھی عدالت عظمیٰ اسی تشخص کی حامل ہے جسے قائم کرنے میں خود میاں صاحب نے بھی راست اقدام کیا تھا۔ سپریم کورٹ جس طرح یوسف گیلانی کے خلاف کیس کے وقت سرگرم تھی، آج بھی ہے تو پھر اتنا واویلا کیوں؟
محترم نوازشریف غور فرمائیں کہ وہ تین مرتبہ اس مملکت کے وزیراعظم بنے ہیںجس کی عدلیہ کا احترام پوری قوم اور آپ کے اپنے نامزد بھائی بھی کررہے ہیں، پھر مریم صاحبہ بہت بلند سیاسی عزم سے سیاسی میدان میں اتری ہیں، وہ اسٹیٹس کو کی سیاست چلانے میں ابتدائی امتحانات میں بھی کامیاب ہورہی ہیں،یہ تو پھر آئینی عدلیہ سے انکاری اور اس کی جگہ اپنے ووٹروں کو اصلی قرار دینے کی انتہائی غیر جمہوری مزاحمت سے گریز کریں۔ یہ آئین و قانون کی بالادستی کا معاملہ ہے جس کا آغاز آپ جیسے مقبول عام سیاست دان اور تین مرتبہ وزیراعظم بننے والے بے پناہ بااختیار حکمراں کے احتساب سے شروع ہوا ہے۔ وما علینا الا لبلاغ۔

تازہ ترین