• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

پی ایس ایل، دل چسپ مقابلے اہم ٹیموں کی پوزیشن خطرے میں

پی ایس ایل، دل چسپ مقابلے اہم ٹیموں کی پوزیشن خطرے میں

عمران عثمانی

ایک طرف پاکستان سپر لیگ کا ہنگامہ خیز ایڈیشن تھری جوبن پر ہے ،اتوار 4 مارچ تک رائونڈ کے 30 میچوں میں سے آدھے یعنی 15 میچز کھیلے جاچکے تھے،کل کے ایک دن کے آرام کے بعد آج سے اگلے مرحلے کا آغاز ہورہا ہے،کراچی کنگز جس نے ابتدائی 3 میچ مسلسل جیتے اسکی راہ میں پہلی رکاوٹ کوئی ٹیم تونہ بن سکی البتہ بارش اسکی پیش قدمی کرنے کو سلو کرنے کا آغاز بنی ،جمعہ کو شارجہ میں ملتان کے خلاف اس کا میچ بے نتیجہ رہا،دونو ں ٹیموں کو ایک ایک پوائنٹ ملا،دیکھا جائے تو اس ایک ایک پوائنٹ کا فائدہ آگے چل کر دونوں ٹیمیں اٹھاسکتی ہیں،اور اسکا سب سے برا اثر لاہور قلندرز پر پڑ سکتا ہے کہ جو ابتدا میں ناکامی کا شکار رہی۔

اور اگر مسلسل فتوحات کے ٹریک پر آئی بھی تو یہ 2 ٹیمیں 2 فتوحات کے بعد ہی اسکے لئے اسی ایک پوائنٹ کے سبب بڑا خطرہ ہونگی ،دوسری جانب کوئٹہ گلیڈی ایٹرز،اسلام آباد یونائٹڈ اور پشاور زلمی جیت کے ساتھ ہار نے کا سلسلہ جاری رکھی رہیں تو پھر آخری لمحات تک فائنل فور کی جنگ غیر یقینی کا شکار رہے گی،اسی طرح کراچی کنگز اور ملتان سلطانز کی ایک ایک شکست تمام ٹیموں کو آگے بڑھنے کا موقع دیں گی،جمعہ کی رات کا مقابلہ لاہور قلندرز اور اسلام آباد کا تھا ۔

لاہور کی شاندار بائولنگ پر بلے بازوں نے ایک بار پھر پانی پھیر دیا اور 121 رنز پر ہتھیار پھینک کر میچ ٹائی کیا اور پھر سپر اوور میں نہ جیت سکے،ایسا لگتا ہے کہ فتح لاہور قلندرز سے روٹھی ہوئی ہے اور اسکی فائنل فور میں رسائی اب ناممکنات میں داخل ہورہی ہے کہ جوٹیم 122 کا ہدف نہ حاصل کرسکے وہ اتفاق سے جیت کر بھی حریف ٹیموں کے لئے تر نوالہ ہی ثابت ہوگی ، ہفتہ کو ملتان سلطانز نے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو شکست دی جبکہ پشاور زلمی نے لاہور قلندرز کو ہرایا ،اتوار کو اسلام آباد یونائٹڈ اور کرچی کنگز نے قسمت آزمائی کی اور اس میںاب تک کھیلے گئے میچوں میں پشاور زلمی کے ڈیون اسمتھ،کوئٹہ کے شین واٹسن،ملتان کے سنگا کارا اور شعیب ملک ٹاپ اسکوررز کی فہرست میں نمایاں تھے۔

اسی طرح بائولنگ میں ملتان کے عمران طاہر،پشاور کے ابھرتے ہوئے کرکٹر عمید آصف ،کراچی کے شاہد آفریدی اور کوئٹہ کئ شین واٹسن بولنگ کے میدان میں بڑے بڑے گیند بازوں کے لئے چیلنج بنے ہوئے تھے۔سپر لیگ سے ذرا ہٹیں تو دوسری جانب یکم مارچ سے آسٹریلیا اور جنوبی افریقا کے درمیان بڑی ٹیسٹ سیریز شروع ہوگئی ہے ۔6مارچ سے سری لنکا میں 3ملکی کپ کا اسٹیج بھی لگ رہا ہے جہاں میزبان ملک کے ساتھ ہمسایہ ممالک بھارت اور بنگلہ دیش بھی ایکشن میں ہوں گے۔

کیویز کے دیس میں نیوزی لینڈ ہوم گرائونڈز پر انگلینڈ کے خلاف تمام فارمیٹ کے مقابلے شروع کر چکاہے، اس طرح ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والے 8مماک پاکستان ،نیوزی لینڈ، انگلینڈ، جنوبی افریقا، آسٹریلیا، بھارت، سری لنکا اور بنگلہ دیش کے کھلاڑی اگلے ایک ماہ تک مصروف رہیں گے۔

 ایسے میں ٹیسٹ اسٹیٹس کے پرانے نام ویسٹ انڈیز اور زمبابوے کہیں پردوں میں چھپے نہیں ہیں بلکہ وہ بھی مارچ کے ماہ میں ایک ایسا ایونٹ کھیل رہے ہیں جو خاص کر ویسٹ انڈیز جیسی ٹیم کے لئے شرمناک تو پہلے ہی ہے مگر اعصاب شکن اور پریشان کن بھی ہو گیا ہے،وارم اپ میچوں میں افغانستان کے خلاف 110پر ڈھیر ہونے کے بعد شکست مقدر بنی تو اسکی بیٹنگ لائن عرب امارات کے خلاف بھی 115 پر آئوٹ ہوکر ایک اور تاریک تاریخ رقم کرچکی تھی،ایسے میں ا سپنرز کی عمدہ کارکردگی اور کچھ حریف ٹیم کی ناتجربہ کاری نے بہرحال اسے شکست سے بچالیا،زمبابوے کا ایک میچ بارش کی نذر رہا تو افغانستان اور آئر لینڈ بھی ایک ایک میچ بارش کی وجہ سے مکمل نہ کرسکے،مگر وہ شکست سے محروم رہے۔10 میچوں میں آئرش ٹیم کا اسکور 243 سب سے زیادہ رہا ۔

موسم،وکٹ کے رویہ اور کیریبین بیٹنگ لائن کی ناکامی ویسٹ انڈیز کے لئے انتہائی پریشان کن اور تشویشناک ہے، اوپر سے نئے ٹیسٹ اسٹیٹس کے حامل ممالک افغانستان اور آئر لینڈ مستقل بڑا چیلنج ہونگے۔

آئی سی سی ون ڈے رینکنگ کی نمبر 9سے 12پوزیشن تک کی 4ٹیمیں ویسٹ انڈیز ، افغانستان، زمبابوے اور آئر لینڈ کے ساتھ ورلڈ کرکٹ لیگ ڈویژن ون سے کوالیفائی کرنے والی 4ٹیمیں ہالینڈ، اسکاٹ لینڈ، ہانگ کانگ اور پاپوانیوجینیا اور پھر ڈویژن ٹو سے آنے والی 2ٹیمیں نیپال اور متحدہ عرب امارات مل کر یہ 10ٹیمیں منی ورلڈ کپ کھیل رہی ہیں۔ ٹاپ دو ٹیمیں اگلے سال انگلینڈ میں ہونے والے ورلڈ کپ کرکٹ ٹورنامنٹ کا ٹکٹ حاصل کریں گی جہاں میزبان انگلینڈ کے ساتھ آئی سی سی کی ٹاپ ون ڈے رینکنگ کی 7ٹیمیں آسٹریلیا، جنوبی افریقا، بھارت، پاکستان، سری لنکا، بنگلہ دیش اور نیوزی لینڈ پہلے ہی قدم رکھ چکی ہیں۔

انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے 2015ء کے ورلڈ کپ سے قبل ہی یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ 2019ء کے عالمی کپ میں ٹیموں کی تعداد گھٹا کر 10کی جائے گی، اس وقت تک ٹیسٹ کھیلنے والے ممالک کی تعداد بھی 10ہی تھی، تاہم اگر ان کو ہی براہ راست ورلڈ کپ کھلایا جاتا تو ایسوسی ایٹ ٹیمیں یا وہ ٹیمیں جنکو ون ڈے کرکٹ کا درجہ حاصل ہے اور یا جو اپنی کارکردگی سے ٹیسٹ اسٹیٹس تک حاصل کرنے کے دروازے پر ہوں گی، نظرانداز کرنے کے مترادف ہوتا، تو اس کے لئے آئی سی سی نے نیا ایونٹ ورلڈ کپ کوالیفائر کروانے کا اعلان کیا اور 30ستمبر 2017ء کی تاریخ مقرر کی کہ اس تاریخ تک ون ڈے درجہ بند ی میں ٹاپ رینکنگ کی 7ٹیمیں میزبان ملک انگلینڈ کے ساتھ براہ راست کوالیفائی کی اہلیت رکھیں گی اور باقیوں کو کوالیفائنگ ورلڈ کپ سے کھیل کر آگے جانا ہو گا۔

 جس وقت آئی سی سی نے یہ فیصلہ کیا تھا اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ دو مرتبہ کا ورلڈ چیمپئن ویسٹ انڈیز یا ایک مرتبہ کے عالمی چیمپئن پاکستان اور سری لنکا پر بھی اس کی تلوار لٹک سکتی ہے یہی وجہ ہے کہ ایونٹ کی میزبانی اس وقت کی لو رینکنگ ٹیم بنگلہ دیش کو دیدی گئی انکا خیال بھی یہی تھا کہ زمبابوے اور بنگلہ دیش اس کا شکار ہونگے۔ 

پھر وقت نے دیکھا کہ پاکستان کی 2016ء کی مایوس کن کارکردگی نے اسے ورلڈ کپ میں براہ راست جانے کے خطرے سے دو چار کر دیاتھا بلکہ ایسے میں تو تجزیہ نگاروں نے یہاں تک کہنا شروع کر دیا تھا کہ پاکستان کوالیفائر رائونڈ میں چلا گیا اور پھر وہاں سے بھی نہ جیت سکا تو پاک بھارت مقابلے کے بغیر 2019 کا ورلڈ کپ غیر دلچسپ اور نقصان کا حامل ہو گا۔

 تاہم گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان اور سری لنکا نے اپنی پوزیشن مستحکم کی اور ویسٹ انڈیز کی جگہ بنگلہ دیش نے لے کر ورلڈ کپ میں براہ راست قدم رکھ دیا جس کی وجہ سے آئی سی سی نے ایونٹ کی میزبانی بنگلہ دیش سے زمبابوے کو منتقل کر دی۔اب جبکہ 25مارچ کے فائنل کے نتیجہ سے قبل ہی دوفائنلسٹ ٹیمیں ورلڈ کپ کا ٹکٹ حاصل کریں گی تو بھی کم سے کم 2ٹیسٹ ممالک ورلڈ کپ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ میگا ایونٹ کھیلنے سے قاصر ہوں گے کیونکہ آئر لینڈ اور افغانستان حال ہی میں یہ درجہ حاصل کر چکے ہیں ویسٹ انڈیز اور زمبابوے پرانے ٹیسٹ اسٹیٹس کے حامل کرکٹ ممالک ہیں تو کم سے کم دو ٹیموں نے باہر ہونا ہی ہے اور یہ تعداد کسی بڑے اپ سیٹ کی صورت میں 3اور4بھی ہو سکتی ہے جس کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ 

ورلڈ کپ کوالیفائر ایونٹ میں شامل 10ٹیموں کو دو گروپ میں تقسیم کیا گیا جو رابن رائونڈ کی بنیاد پر میچ کھیلیں گی ہر گروپ کی سرفہرست 3,3ٹیمیں سپر سکس مرحلے کے لئے کوالیفائی کریں گی اور یہ گروپ کی ٹیمیں ایک دوسرے کے خلاف میچ کھیلیں گی سپر سکس کی ٹاپ 2ٹیمیں نہ صرف ورلڈ کپ 2019ء کےلئے کوالیفائی کریں گی بلکہ کوالیفائر چیمپئن کے لئے فائنل بھی کھیلیں گی۔ ایونٹ کے وارم اپ میچ 27فروری سے یکم مارچ کے درمیان کھیلے گئے نیپال اور ہالینڈ کے میچوں کو انٹرنیشنل میچوں کا درجہ حاصل نہیں ہو گا اس کے علاوہ کوالیفائر کے تمام میچ انٹرنیشنل اسٹیٹس میں شمار ہوں گے۔

ویسٹ انڈیز کرکٹ کی زبوں حالی تمام کرکٹ کھیلنے والے ممالک کے لئے افسوسناک ہے ۔افغانستان کرکٹ ٹیم جس نے حال ہی میں زمبابوے کو آئوٹ کلاس کیا ہے ایونٹ سے قبل وارم اپ میچ میں سابق عالمی چیمپئن کو ہرا نے کے بعد ویسٹ انڈیز کے لئے بڑی مشکلات کھڑی کر سکتی ہے اسی طرح آئرش ٹیم بھی جواں جذبوں کے ساتھ میدان میں اترے گی زمبابوے ٹیم اگرچہ ناقص ترین پرفارمنس کے مقام پر ہے مگر 25سالہ پرانے ٹیسٹ اسٹیٹس کی حامل ٹیم ہمیشہ ورلڈ کپ جیسے مقابلوں میں اپ سیٹ کرتی رہی ہے ۔

بظاہر ویسٹ انڈیز اور افغانستان کے کوالیفائی کرنے کے امکانات زیادہ ہیں،کرس گیل سمیت تمام جارح مزاج بیٹری ٹیم کا حصہ ہے،کیریبین بورڈ نے ایونٹ جیتنے کے لئے نکالے ہوئے کھلاڑی بھی واپس بلالئے ہیں،افغانستان اور آئر لینڈ کا جوش وجذبہ قابل دید ہوگا،میزبان زمبابوے کی ٹیم اگر ہوم گرائونڈ میں ڈٹ گئی تو پھر بلیک آندھی سرخ آندھی میں بدل کر اپنے ملک لوٹنے پر مجبور ہوجائے گی،سبز جھنڈی افغانستان اور آئر لینڈ لے اڑیں گے۔ 

ورلڈ کپ کوالیفائر انتہائی اہم اور سنسنی خیز ہوگا،پہلے مرحلے کے بڑی ٹیموں کے میچوں کے ساتھ سپر سکس و فائنل کے تمام میچ براہ راست ٹیلی کاسٹ ہونگے ویسٹ انڈیز ٹیم کے کسی بھی وجہ سے عالمی کپ میں کوالیفائی نہ کرنے کا بڑا سیڈ بیک ہوگا عالمی کرکٹ کے لئے اسے برداشت کرنا مشکل ہو گا ممکن ہے کہ مستقبل میں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل ورلڈ کپ کھیلنے والے ممالک کی تعداد 12 کر کے 10 کو براہ راست رسائی دینے پر مجبور ہو جائے اور باقی دو کے لئے کوالیفائر ایونٹ کا انعقاد کیا جائے اس کا فیصلہ موجودہ ورلڈ کپ کوالیفائر آسانی سے کروا دے گا ۔

کیربین بورڈ اس ایونٹ کے لئے نہایت سنجیدہ ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان سپر لیگ سے وابستہ ٹاپ لیول کے کھلاڑیوں کو اس نے ریلیز نہیں کیا پاکستان سپر لیگ کے میچوں کی طرح ورلڈ کپ کوالیفائر ایونٹ کے میچ بھی اپنی جگہ تیزی ، سنسنی خیزی اور دلچسپی سے خالی نہیں ہوں گے عالمی کرکٹ کے منظر نامہ میں اگلے سال کے عالمی کپ میں داخل ہونے والے دو خوش نصیب ممالک کو دیکھنے کا اشتیاق تو سب کو ہی ہو گا۔

تازہ ترین
تازہ ترین