• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فلم کو صنعت کا درجہ دے دیا گیا!!!

اختر علی اختر،کراچی

پاکستان فلم انڈسٹری، ٹیلی ویژن، تھیٹر، فیشن، موسیقی، رقص، مصوری اور دیگر فنون سے جڑی شخصیات نے ہمیشہ کلچرل پالیسی کا رونا رویا۔ ہر دوسرا فن کار یہی کہتا دکھائی دیتا تھا کہ ہمارے ملک میں بدقسمتی سے کوئی کلچر پالیسی نہیں بنائی گئی۔ موجودہ حکومت نے پاکستان میں بسنے والے ہزاروں فن کاروں کا دیرینہ مطالبہ پورا کرتے ہوئے آخر کار پاکستان کی ’’پہلی فلم و کلچرل پالیسی‘‘ کا اعلان کردیا۔ 

یہ پالیسی فی الفور نافذ العمل ہوگی۔ اب بہت جلد فن کاروں کی قسمت بدلنے والی ہے!! پاکستان کا فن کار خوش حال ہوگا تو معیاری فلمیں، ڈرامے، گیت، رقص اور تھیٹر دیکھنے کو ملے گا۔ فن کار خوش ہوگا تو ملک میں تخلیقی کاموں کی رفتار تیز ہوگی۔ فلم وکلچرل پالیسی کے اعلان کی وجہ سے شوبزنس انڈسٹری سے جڑے تخلیق کاروں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ کاش یہ فیصلہ کئی برس پہلے ہوجاتا تو آج ہم فنون کےشعبے میں غیر معمولی ترقی کرچکےہوتے۔ دیرآید درست آید۔ 

اسلام آباد میں ناقابل یقین پالیسی کا اعلان کیا گیا، اگر پاکستان میں ایسا ہوگیا تو ہم بھارتی ڈراموں اور فلموں کا ڈٹ کر مقابلہ کرسکیں اور ایک مرتبہ پھر 60ء کی دہائی کا زمانہ واپس آجائے گا۔

قیام پاکستان سے لےکر آج تک یعنی گزشتہ 70؍ برسوں میں ہدایت کار، فلم ساز اور فن کار ایک ہی مطالبہ کررہے تھے کہ فلم کوانڈسٹری کا درجہ دیا جائے۔ موجودہ حکومت نے اب فلم کو انڈسٹری کا درجہ دے دیا گیاہے۔ اس سلسلے میں فلم فنانس فنڈ بھی قائم کردیا گیا، اب سرکاری سطح پر فلم سازوں کو معیاری اور اصلاحی فلموں کے لیے سرمایہ بھی فراہم کیا جائے گا۔ پانچ ہزار نئے سنیما گھر تعمیر کیے جائیں گے۔ 

فلم کو صنعت کا درجہ دے دیا گیا!!!
 وزیر مملکت برائے اطلاعات ونشریات، مریم اورنگزیب

نیشنل فلم اکیڈمی کا قیام عمل میں آگیا ہے۔ یہ تو کچھ بھی نہیں ہے۔ آگے آگے پڑھتے جائیں۔ فن کاروں کی انشورنس کروائی جائے گی، پاکستان کےبڑے شہروں میں ہاسٹل بنائے جائیں گے، جہاں فن کار اپنی فیملیز کےساتھ رہ سکیں گے۔ فلم ڈائریکٹوریٹ اور پبلی کیشن کی بحالی، فلم بینی کے آلات کی درآمد، فلم سنسر فیس اور سیلز ٹیکس معاف کردیے گئے ہیں۔ سب سے اہم فیصلہ یہ بھی سامنے آیا کہ اب پاکستان سنیما گھروں میں بڑے تہواروں پر صرف پاکستانی فلموں کی نمائش کی اجازت ہوگی۔ غیر ملکی فلم بنانے والوں کے لیے سفری الائونس اور کھانے کے آئٹم پر 70؍ فی صد ٹیکس کی رعایت ہوگی۔

 فن کاروں کی ہیلتھ انشورنس بھی کروائی جائے گی۔ اس کے علاوہ بصری آرٹ، تھیٹر، موسیقی اور پرفارمنگ آرٹ کا فروغ اور روایتی ثقافت اور آثار قدیمہ کے مقامات کا فروغ، قیمتی ثقافت اور ورثہ کو محفوظ بنایا جائے گا۔ یہ غیر معمولی اعلانات وزیر مملکت برائے اطلاعات ونشریات مریم اورنگزیب نے گزشتہ ہفتے پی این سی اے کے خوب صورت آڈیٹوریم میں سیکڑوں فن کاروں اور اعلیٰ سرکاری افسران کی موجودگی میں کیا۔

 ان کا کہنا تھا کہ کلچرل پالیسی سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے وژن کے تحت پرویز رشید، عطاء الحق قاسمی اورنیشنل کونسل آف آرٹس کے ڈائریکٹر جنرل اور معروف فن کار جمال شاہ کی کاوشوں سے تیار کی گئی ہے۔ ثقافتی پالیسی کے بنیادی اصولوں کے مطابق کلچرل پالیسی وفاقی نوعیت اور جمہوری اصولوں پرمبنی ہوگی، جس سے امن کا تاثر ابھرتا ہو۔ تحمل اور بردباری کی فضا میں مدد ملے۔

فلم کو صنعت کا درجہ دے دیا گیا!!!
چینی وفد ثقافتی اسٹالز کا دورہ کرتے ہوئے

 اس اعلان سےقبل کلچرل پالیسی کے سلسلے میں پاکستان کے بڑے شہروں میں فن کاروں، ہنر مندوں اور سنیما انڈسٹری کے مالکان کےساتھ مختلف نشستوں کا اہتمام کیا گیا۔ گورنر ہائوس کراچی میں چند ماہ قبل شان دار تقریب کا اہتمام کیا گیا، بعد ازاں لاہور اور اسلام آباد میں فن کاروں کو اکٹھا کرکے ان کےخیالات اور مشوروں کی روشنی میں پالیسی تیار کی گئی اور آج ملک بھر کے چارسو سے زیادہ فن کاروں کو اسلام آباد میں مدعو کیا گیا اور تین روز تک تمام فن کار سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔ اسے نیشنل آرٹسٹ کنونشن کانام دیا گیا۔ سب نے مل کر اپنےجذبات و خیالات سے وزیر اعظم پاکستان کو آگاہ کیا پھر اس پالیسی کا اعلان کیا گیا۔

26؍فروری 2018ء کا دن فن کار ہمیشہ یاد کریں گے۔ مریم اورنگزیب کامزید کہنا تھا کہ ہم نے تمام فن کاروں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی، جب میں وزیر بنی تو مجھے یہ نامکمل ٹاسک سونپا گیا، اس سلسلے میں فلمی صنعت سے منسلک شخصیات نے مجھے بہت عزت وا حترام دیا، جس سے میرا حوصلہ بڑھا اور میں نے کام مزید تیز کردیا۔ پاکستان کئی برسوں سے دہشت گردی کا شکار ہے ، امن و امان کی صورت حال نے فلم انڈسٹری کو بھی نقصان پہنچایا۔ 

فلم کو صنعت کا درجہ دے دیا گیا!!!
پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کے سربراہ ممتاز اداکار جمال شاہ 

جمہوریت اور تخلیقی اظہار کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ 70ء کی دہائی میں فن کاروں کو آمریت کے ادوار میں خاموش کردیا گیا۔ ماضی میں فلم انڈسٹری سے تعاون کرنے کے لیے اقدامات نہیں اٹھائے گئے، سب کومعلوم ہے ماضی میں سالانہ ایک سو سے زیادہ فلمیں بنتی تھیں، جس سے ہمارے ملک کی شناخت بہت بہترتھی۔ آج عدم برداشت اور افراتفری اس لیے ہے کہ ہمارا فن کار خاموش ہے۔ 

اب ہم نے اجتماعی کاوشوں سے اپنی ثقافت اور آرٹ کو فروغ دینا ہے۔ پاکستانی فلمیں چین اور پاکستان میں چینی فلمیں سنیما گھروں کی زینت بنیں گی۔ اس سلسلے میں اصولی فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ گزشتہ دس برسوں میں جن ممالک نے فلم انڈسٹری کے شعبے میں ترقی کی ہے۔ ان کا موزانہ کرکے ایک پالیسی تیار کی ہے۔‘‘

پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس (PNCA) کے سربراہ ممتاز اداکار جمال شاہ نے اس اعلان کے بعد کراچی کادورہ کیا۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ اب آگے کیا ہوگا۔ اس سوال کے جواب میں انہوں نے ’’جنگ‘‘ کو بتایا کہ پہلی فلم و کلچرل پالیسی کو اب وفاقی کابینہ میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔

 یہ حکومت کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ سیکڑوں فن کاروں نے چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا، سب نے مل کر دستخط کیے، تو یہ پالیسی بنی۔ اس کام کو بہت پہلے ہوجانا چاہیے تھا۔ حکومتوں نے ماضی میں جتنا سرکاری ٹیلی ویژن کو سپورٹ کیا، اگر فلم انڈسٹری کو تھوڑی سی توجہ دی جاتی تو آج فلمی صنعت دنیا بھر میں نام پیدا کررہی ہوتی۔ 

22؍ کروڑ کی آبادی والے ملک میں سنیما گھروں کی تعداد بہت محدود ہو کر صرف 120؍ رہ گئی ہے۔ ہم اب کم از کم پانچ ہزار سنیما گھر بنائیں گے۔ اس پالیسی کے بعد اب پاکستان میں کوئی فن کار زندگی کے آخری دنوں میں پریشان نہیں ہوگا۔ فلم فنانس فنڈز بہت ضروری تھے۔ وہ مسئلہ بھی حل ہوگیا ہے ۔ اب اگر کسی تخلیق کار کے پاس کوئی اچھا اور منفرد آئیڈیا ہے، تو وہ حکومت سے سرمایہ لے کر عالمی معیار کی فلم پروڈیوس کرسکتا ہے۔

فلم کو صنعت کا درجہ دے دیا گیا!!!
فلم اور ٹی وی کے نام ور فن کار کلچرل پالیسی کے اجلاس میں شریک ہیں

 اس سے نیا ٹیلنٹ بھی تیزی سے ابھر کر سامنے آئے گا۔ ’’کو پروڈکشن‘‘ بھی بہت ضروری ہے، ہم چائنا کےساتھ مل کر فلمیں بنائیں گے تو مقابلے کی فضا قائم ہوگی۔ چائنا فلموں کی بہت بڑی مارکیٹ ہے، وہاں بالی وڈ کی فلمیں دنگل اور سیکرٹ سپر اسٹارز کو زبردست رسپانس ملا اور ان دونوں فلموں نے بھارت سے زیادہ بزنس چائنا میں کیا۔ ہم نے پہلی ’’کو پروڈکشن‘‘ فلم کا اعلان کردیا ہے، جس کانام ’’کٹ‘‘ ہے۔ جمال شاہ نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ ہم کلچر پالیسی پرعمل کرکے ہی فن کاروں کے مسائل حل کرسکتے ہیں۔ 

اس سلسلےمیں ایک طریقہ کار بنایا جائے گا تاکہ کسی کو شکایت نہ ہو۔ پاکستان کے تشخص کواجاگر کرنے والی فلموں کو زیادہ سپورٹ کیا جائے گا۔ مجھے امید ہے کہ اب فن کاروں کا اچھا وقت شروع ہونے والا ہے۔ کلچرل پالیسی اور’’سی پیک کلچرل کارواں‘‘میرا آئیڈیا تھا، میں نے سابق وزیراعظم سے ایک ملاقات میں ساری تفصیلات بتائی تھیں میاں نواز شریف نے ہر طرح سے سپورٹ کا یقین دلایا تھا۔ اس طرح ہم نے کلچرل پالیسی بنانے کے لیے اقدامات شروع کیے۔‘‘

دوسری جانب جہاں فن کار اس اعلان پر بے حد خوشی کا اظہار کررہے ہیں، تو چند اپنے تحفظات سے بھی میڈیا کو آگاہ کررہے ہیں ۔ ہمیں قوی امید ہے کہ اب آگے کچھ اچھا ہونے جارہا ہے۔ بات اعلانات سے عمل کی جانب جائے گی، کیوں کہ اب باتوں کا وقت گزر گیا، 70؍ سال بیت گئے، فن کار کب تک اچھے دنوں کی آس لگائے بیٹھے رہیں گے۔ 2018ء میں حکومت فن کاروں کے لیے انقلابی اقدامات کرے گی۔

تازہ ترین
تازہ ترین