• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی احتساب بیورو (نیب) کے ایگزیکٹو بورڈ نے پاکستان کو کرپشن فری بنانے کے لئے طبقہ اشرافیہ کی کئی بڑی شخصیات، بیورو کریٹس، کمپنیوں اور اداروں کے خلاف کرپشن، مالی بدعنوانی، بدانتظامی، بے قاعدگی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی شکایات کی جانچ پڑتال ، انکوائریوں، انویسٹی گیشنز اور عدالتوں میں ریفرنسز دائر کرنے کی منظوری دی ہے۔ اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیہ کے مطابق نیب کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال نے نیب حکام کو ہدایت کی ہے کہ وہ کسی دبائو اور سفارش کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے پوری ایمانداری اور دیانتداری کے ساتھ قانون کے دائرے میں میرٹ اور شفافیت کو ملحوظ رکھتے اور اپنی بہترین صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہوئے ٹھوس شواہد کی بنیاد پر دس ماہ کے اندر اس کام کو منطقی انجام تک پہنچائیں۔ انہوں نے کہا کہ نیب، ’’احتساب سب کے لئے‘‘ کی پالیسی پر سختی سے عمل پیرا ہے۔ بدعنوانی ایک کینسر ہے جسے جڑ سے اکھاڑنا ضروری ہے۔ بورڈ نے جن شخصیات اور اداروں کے خلاف نئی تحقیقات کی منظوری دی ہے ان میں شریف فیملی، سیف اللہ فیملی، خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک، عمران خان کو غیرقانونی استعمال کے لئے ہیلی کاپٹر دینے والے افسر، آمدن سے زیادہ اثاثے بنانے والے، آف شور کمپنیوں کے مالکان اور بعض ہائوسنگ سوسائٹیاں وغیرہ شامل ہیں۔ اعلامیہ میں وضاحت کی گئی ہے کہ تمام انکوائریاں اور انویسٹی گیشنز، مبینہ الزامات کی بنیاد پر شروع کی گئی ہیں جو حتمی نہیں۔ نیب تمام متعلقہ افراد سے قانون کے مطابق ان کا موقف معلوم کرے گا تاکہ قانونی تقاضوں کی روشنی میں کارروائی عمل میں لائی جا سکے۔ نیب کا ادارہ1999میں پرویز مشرف کے دور حکومت میں ایک آرڈی نینس کے تحت قائم کیا گیا تھا۔ یہ ایک خود مختار اور وفاقی آئینی ادارہ ہے جسے کرپشن کے خاتمے کے لئے ضروری اقدامات کی ذمہ داری سونپی گئی تھی تاہم اپنے قیام کے وقت اس کا اصل ہدف سیاستدان تھے۔ نیب معاشی اور مالی جرائم کے خلاف آپریشنز کے علاوہ کرپشن روکنے کے لئے کوئی بھی کارروائی کر سکتا ہے۔ اس کے دائرہ کار میں وقتاً فوقتاً اضافہ کیا جاتا رہا۔ اس وقت یہ ادارہ سرکاری، نجی، دفاعی اور کارپوریٹ سیکٹرز کے بارے میں شکایات کی تحقیقات، تفتیش، بدعنوانی میں ملوث مشتبہ افراد کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے اور احتساب عدالتوں میں ان کے مقدمات چلانے کا اختیار رکھتا ہے۔ اپنے فرائض کی بجا آوری کے دوران اس نے کرپشن کے کئی کیس پکڑے اور چار ارب ڈالر سے زائد رقم کی ریکوری کی لیکن مختلف اوقات میں اس پر اپنے اختیارات سے تجاوز کے الزامات بھی لگتے رہے۔ قومی اسمبلی کی کرپشن کیسز کو مانیٹر کرنے والی پارلیمانی کمیٹی نے اس پر کرپشن سکینڈلز میں ملوث سابق فوجی افسروں کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر تنقید کی اور یہ بھی کہا کہ بعض نیب حکام جانبداری سے کام لیتے ہوئے کرپشن میں ملوث بااثر لوگوں کو فرار ہونے کا موقع دیتے ہیں۔ نیب پر زیر حراست افراد سے غیرانسانی سلوک روا رکھنے کے الزامات بھی لگے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے بھی نیب پر بعض معاملات خصوصاً پلی بارگین کے مسئلے پر تنقید کی گئی اور اسے ادارہ جاتی کرپشن قرار دیا گیا۔ پلی بارگین کے تحت نیب مشتبہ افراد کو گرفتار کر کے ماورائے عدالت اعترافی بیان پر دستخط کرا کے ہڑپ کی گئی رقم کے مقابلے میں کم رقم کی ریکوری کرنے پر بھی تنقید کی زد میں ہے۔ نیب نے اگرچہ چند بڑی مچھلیوں پر بھی ہاتھ ڈالا لیکن کئی معاملات میں انصاف کے تقاضے بھی پورے نہیں کئے تاہم یہ ماضی کی باتیں ہیں۔ اب اس کے چیئرمین سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج جسٹس جاوید اقبال ہیں جن سے ماضی کے مقابلے میں بہتر روایات کی توقع کی جا رہی ہے۔ ماہرین قانون نیب کے قوانین میں خامیوں کی نشاندہی کرتے رہتے ہیں جنہیں درست کرنے کی ضرورت ہے کرپشن فری پاکستان کا خواب اسی وقت پورا ہو گا جب قوانین انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہوں گے اور نیب کسی دبائو کے بغیر اپنے آئینی فرائٗض ادا کرے گا۔

تازہ ترین