• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انتہائی مضبوط اعصاب کی مالک، الفاظ اور موضوع پر بھرپورگرفت ،سیاست کی اونچ نیچ سے واقف مریم نواز چند برسوں میں پاکستان کی نوجواں نسل کی نظروں کا مرکزی کردار بن چکی ہیں، مریم نواز نے چند برسوں میں جس طرح نوجوان نسل کو سیاسی میدان میں متحرک کیا ہے ایسا پہلے دیکھنے میں نہیں آیا تھا ،تحریک انصاف اور عمران خان بھی پاکستان کی نوجوان نسل میں شعور پیدا کرنے کا باعث بنے لیکن ان کی سیاسی جماعت میں پاکستان کے مراعات یافتہ طبقے سے تعلق رکھنے والی نوجوان نسل ہی متحرک ہوسکی تھی تاہم مریم نواز نے پاکستان کے پسے ہوئے طبقے سمیت مڈل کلاس سے لیکر اپر کلاس تک سے تعلق رکھنے والی نوجوان نسل کو بھی ن لیگ میں متحرک کرلیا ہے، چند برس قبل تک صرف تحریک انصاف میں ہی سوشل میڈیا گروپس سرگرم عمل تھے لیکن گزشتہ چند سالوں میں جس طرح ن لیگ میں سوشل میڈیا گروپس اور ٹیموں نے کردار ادا کیا ہے اس نے تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیموں کو کافی پیچھے چھوڑ دیا ہے، مریم نواز کا عملی سیاست سے تعلق تو جنرل مشرف کے مارشل لا کے بعد سے شروع ہوچکا تھا لیکن قومی سیاست میں منظر عام پر وہ دوہزار بارہ میں آئیں ،اور پھر چند برسوں میں ان کی سیاسی بصیرت کی بنا پر انھیں نواز شریف کا سیاسی جانشین قرار دیا جانے لگا ،ن لیگ کے قائد نواز شریف کی صاحبزادی ہونے کے باوجود مریم نواز کو سیاست میں آنے کے لئے اپنی ہی پارٹی میں بہت زیادہ مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اسی مخالفت کے سبب چوہدری نثار اعلان فرما چکے ہیں کہ وہ مریم نواز کی سربراہی میں کام نہیں کرسکیں گے جبکہ بہت سے ادارے بھی مریم نواز کے سیاست میں سرگرم کردار سے ناخوش نظر آتے ہیں اور کوشش میں ہیں کہ کسی طرح مریم نواز کویا تو سیاست سے علیحدہ کردیا جائے یا پھر ان کے پورے خاندان کو ہی سیاست سے بے دخل کردیاجائے ۔گزشتہ چند دنوں کے دوران ن لیگ کے کئی سینئر رہنمائوں سے گفتگو کرنے کا موقع ملا جس میں مریم نواز ہی مرکز بحث رہیں، اس حوالے سے ن لیگ کے ترجمان سینیٹر مشاہدا للہ خان کا کہنا ہے کہ مریم نواز کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے پاکستانی قوم کو لیڈر دے دیا ہے، ان کی اتنی شاندار تربیت ہوئی ہے کہ آج بھی کوئی سینئر ان سے ملاقات کے لئے پہنچے تو وہ عہدے اور مقام سے بالاتر ہوکر جھک کر سلام کرتی ہیں، ان کو اپنے الفاظ پر مکمل کنٹرول حاصل ہے، وہ کبھی موضوع سے ہٹ کر بات نہیں کرتیں، اور پھر انھیں عوام کی نبض کا اندازہ ہوتا ہے کہ عوام کیا بات سننا چاہ رہے ہیں، انھیں مجمع کو کنٹرول کرنے کی اہلیت بھی حاصل ہے، سوشل میڈیا کا بہترین استعمال معلوم ہے، عوام سے رابطے میں رہنے میں وہ ماہر ہیں جس سے ہر کارکن اور پارٹی رہنما اپنے آپ کو پارٹی کا اہم رکن سمجھتا ہے ان خصوصیات کی بنا پر صرف ہم ہی نہیں مخالفین بھی مریم نواز کو پاکستان کی قومی سیاست کی اہم لیڈر تصور کرتے ہیں ،مشاہد اللہ خان بتاتے ہیں کہ ء1999میں مشرف کے مارشل لا کے دوران بھی مریم نواز کا کردار انتہائی اہم رہا ہے، اس زمانے میں جب بیگم کلثوم نواز مارشل لا کے خلاف جدو جہد میں مصروف تھیں تو اس وقت بھی مریم نواز ان کے ساتھ ساتھ ہوا کرتی تھیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ مریم نواز کو اسٹیبلشمنٹ سمیت اپنی جماعت کے چند لوگوں کی جانب سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہے تاہم انھوں نے اپنے والد کا سیاسی مشکلات میں بھرپور ساتھ دیا ہے ،مریم نواز کے اندر طوفان مخالف سمت سفر کرنے کی صلاحیت ہے جو کسی بھی بڑے لیڈر کا خاصا ہے۔ مشاہد اللہ خان کے مطابق پیپلز پارٹی کے ذوالفقار علی بھٹو اصل لیڈر تھے تاہم ان کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو کو سیاست میں آنے میں وہ مشکلات پیش نہیں آئیں جبکہ اب بلاول بھٹو بھی باآسانی پیپلز پارٹی کے چیئرمین بن گئے ہیں تاہم مریم نواز کو بطور سیاسی لیڈر یاسیاسی جانشین تسلیم کرنے میں بہت زیادہ مخالفتوں کا سامنا ہے لیکن یہی مشکلات انھیں بڑا لیڈر بنانے میں کارگر ثابت ہونگی ۔
مریم نواز نے دو ہزار بارہ میں عملی سیاست میں قدم رکھا تاہم اس سے قبل بھی وہ شریف فیملی کے عوامی فلاح و بہبود کے اداروں شریف ٹرسٹ، شریف میڈیکل سٹی اور شریف ایجوکیشنل انسٹیٹیوٹ کی سربراہ رہیں۔جس کے بعد دو ہزار بارہ میں وہ عملی سیاست میں آئیں اور دوہزار تیرہ کے عام انتخابات میں ن لیگ کی الیکشن کمپین ٹیم کی سربراہ کی حیثیت سے انہوںنے ن لیگ کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا ،اسی سال نیوز ویک نے مریم نواز کو نواز شریف کا سیاسی جانشیں اور مستقبل کی قومی لیڈر بھی قرار دیا تھا ۔دوہزار تیرہ میں ن لیگ کی عام انتخابات میں کامیابی کے بعد مریم نواز کو وزیر اعظم یوتھ پروگرام کی چیئرپرسن مقرر کیا گیا جہاں انھوں نے اگلے دوسال تک بہترین خدمات انجام دیں تاہم ان کی تقرری کو جب عدالت میں چیلنج کیا گیا تو انھوں نے رضاکارانہ طور پر عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ ن لیگ کی حکومت کے پانچ سالوں کے دوران کئی مرتبہ حکومت کو بحران کا سامنا کرنا پڑا جس میں مریم نواز کی پس پردہ کوششوں سے بہت سے مسائل حل ہوئے ۔دو ہزار سترہ میں بی بی سی نے مریم نواز کو سو با اثر خواتین کی فہرست میں شامل کیا جبکہ اسی سال نیو یارک ٹائمز نے دنیا کی گیارہ بااثر خواتین میں مریم نواز کو بھی شامل کیا۔ ن لیگ کی حکومت ہونے کے باوجود کئی برس تک مریم نواز پس پردہ سیاست میں متحرک رہیں تاہم دو ہزار سترہ میں پانامہ پیپرز کا ایشو سامنے آیا اور حیرت انگیز طورپر میاں نواز شریف کو بطور وزیر اعظم اقامہ رکھنے پر عہدے سے ہٹا دیا گیا تو ایک بار پھر مریم نواز نے عملی سیاست میں میاں نواز شریف کے ساتھ قدم رکھا جہاں انہوں نے اپنی جاندار تقاریر سے پاکستان بھر کے عوام کو متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور ن لیگ کے ساتھ ہونیوالی زیادتی کا بیانیہ عوام سے منوالیا جس کے بعد تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی میاں نواز شریف کی سزا کے فیصلے کو کمزور فیصلہ قرار دے چکے ہیں۔مریم نواز کی سیاسی کامیابی میں ان کا لوگوں سے رابطے میں رہنا، ان کے مسائل سننا، فوری طورپر عوامی مسائل کو حل کرناشامل ہیں جبکہ نہال ہاشمی سے سرزد ہونے والی غلطی کے بعد جو کچھ ہوا اسے درگزر کرکے انھیں بھی خوش آمدیدکہا۔ ن لیگ جاپان کے صدر اور دیگر کارکنوں کے ٹوئٹ کو ری ٹوئٹ کرکے مریم نواز نے ن لیگ کے اوورسیز کارکنوں کے دلوں میں بھی جگہ بنائی ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ مریم نواز میاں نواز شریف کے ساتھ مل کر اگلے عام انتخابات تک اپنی پارٹی کو متحد رکھنے میں کامیاب ہوسکتی ہیں یا نہیں کیونکہ ن لیگ کا اتحاد ہی کامیابی کی ضمانت ہے ورنہ مخالفین تحریک انصاف کی ہوا چلانے کی تیاری کئے بیٹھے ہیں ۔

تازہ ترین