• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زمین کا مقناطیسی میدان کمزور ہو رہا ہے، سائنسدان پریشان

زمین کا مقناطیسی میدان کمزور ہو رہا ہے، سائنسدان پریشان

زمین کو سورج کی خطرناک شعاعوں سے بچانے والی میگنیٹک فیلڈ (مقناطیسی میدان) ڈرامائی انداز سے کمزور ہو رہی ہے اور اس بھونچکا کر دینے والی اس نئی تحقیق کے نتائج سے ماہرین شدید حیران و پریشان ہیں۔

قدرتی مظہر میں ہونے والی یہ تشویش ناک تبدیلی اور اس کا پیٹرن ایک ہزار سال تک برقرار رہتا ہے۔ میگنیٹک فیلڈ کی وجہ سے زمین کو اس کے قطب شمالی اور قطب جنوبی ہی نہیں ملے بلکہ یہ فیلڈ زمین کو سورج کی بالائے بنفشی (الٹرا وائلٹ) شعاعوں اور خلا کے تابکاری اثرات سے بھی بچاتی ہےلیکن اب یہ نظر نہ آنے والی قوت تیزی سے کمزور ہو رہی ہے اور اس حد تک اس کی طاقت کم ہو چکی ہے کہ یہ صورتحال ممکنہ طور پر ہمارے قطبین (شمالی اور جنوبی) کی جگہ تبدیل ہونے کا سبب بن سکتی ہے۔

سائنس میگزین کی رپورٹ کے مطابق یہ صورتحال ایک طویل عرصے کے بعد سامنے آتی ہے۔ آخری مرتبہ یہی صورتحال 7؍ لاکھ 80؍ ہزار سال قبل پیش آئی تھی اور تقریباً 40؍ ہزار سال قبل صورتحال دوبارہ ایسی ہی ہونے کے قریب پہنچ چکی تھی۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو قطبین اپنی جگہ ہزاروں سال میں تبدیل کریں گے۔

ماہرین میں سے کسی کو نہیں معلوم کہ آیا یہ تبدیلی نا گزیر ہو چکی ہے اور اس لاعلمی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس حوالے سے ٹھوس معلومات موجود نہیں ہے۔ سائنسدانوں کیلئے جو علاقہ سب سے زیادہ باعث تشویش بنا ہوا ہے وہ بحر اوقیانوس کا جنوبی علاقہ ہے جو جنوبی امریکی ملک چلی سے لے کر افریقی ملک زمبابوے تک پھیلا ہوا ہے۔

اس علاقے میں میگنیٹک فیلڈ اس قدر کمزور ہے کہ اس علاقے میں خلا سے داخل ہونے والی مصنوعی سیٹلائٹس اپنے ساتھ اضافی تابکاری ساتھ لا سکتی ہیں اور اس وجہ سے سیٹلائٹس کا برقی نظام ناکارہ ہو کر نقصانات کا سبب بن سکتا ہے۔

نیویارک کی روچیسٹر یونیوسٹی کے ماہر طبعیات ونسنٹ ہیئر کا کہنا ہے کہ ہمیں یہ تو معلوم ہے کہ زمین کی میگنیٹک فیلڈ طویل عرصے سے تبدیل ہو رہی ہے لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ ایسی صورتحال مذکورہ خطے کیلئے طویل مدت تک غیر معمولی ثابت ہو سکتی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک ہزار سال قبل جب ایسی ہی صورتحال چلی سے زمبابوے تک پیش آئی تھی اس وقت بانٹو قبیلے کے لوگوں نے صورتحال کا تفصیلی مشاہدہ کیا تھا تاہم اس کا کوئی تحریری یا دستاویزی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔

اس دوران پیش آنے والی قحط کی صورتحال کی وجہ سے لوگوں نے اپنی جھونپڑیاں اور اناج سے بھرے ڈبے جلا دیئے اور اس عمل کو یہ لوگ بلی یا قربانی (سیکریفائس) کہتے تھے تاکہ بارشوں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو سکے۔ شاید انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ جلانے کے عمل سے وہ آنے والے برسوں میں سائنسدانوں کیلئے تحقیق کا ماحول بنا رہے تھے۔

ارضیاتی طبعیات (جیو فزسسٹ) جان ٹارڈونو بتاتے ہیں کہ جب آپ زیادہ درجہ حرارت پر مٹی سے بنی جھونپڑیاں جلاتے ہیں تو اس سے مقناطیسی منرلز مستحکم ہوتے ہیں اور جب یہ ٹھنڈے ہوتے ہیں تو یہ زمین کی میگنیٹک فیلڈ میں قید ہو جاتے ہیں اس سے برقی قوت میں استحکام آتا ہے۔

ٹارڈونو کا کہنا ہے کہ فی الحال صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ بحر اوقیانوس کے علاقے میں پائی جانے والی غیر معمولی صورتحال (سائوتھ ایٹلانٹک ایناملی) کا بغور جائزہ لیا جا رہا ہے۔

تازہ ترین