• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

منگل کے روز پارلیمنٹ کے ایوان بالا (سینٹ) میں چیئرمین میاں رضا ربانی اور پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے جو باتیں کہیں وہ ریاستی اداروں کے مابین کشیدگی کے تاثر کے حوالے سے خاص طور پر غور طلب ہیں اور کئی فکر انگیز سوالات کو جنم دیتی ہیں۔ میاں رضا ربانی نے جو سینٹ میں اپنی رکنیت کی میعاد پوری کرکے سبکدوش ہونے والے ارکان میں شامل ہیں اور حالیہ سینٹ انتخابات میں آئندہ چھ سال کے لئے پھر سے سینیٹر منتخب ہوچکے ہیں، بطور چیئرمین سینٹ کئی قابل قدر روایات قائم کی ہیں۔ انہوں نے منگل کے روز ایوان میں عدلیہ سے متعلق ایک تحریری بیان میں اسے بدقسمتی قرار دیا کہ کسی اسمبلی کے اسپیکر کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا جائے۔ ان کا نکتہ نظر یہ تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف سے مانگی گئی معلومات پارلیمینٹ کی اندرونی کارروائی میں مداخلت نہ کرنے کے تصور کے منافی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ بین الادارہ جاتی دائرہ کار کے معاملے پر چیف جسٹس آف پاکستان سے ملاقات کرنا چاہتے تھے، بدقسمتی سے وقت کی کمی کے باعث ایسا نہ ہوسکا تاہم چیئرمین سینٹ کا دفتر ادارہ جاتی احترام اور 1973ء کے آئین میں ریاست کے اداروں کے طے شدہ اختیارات کے دائرہ کار کے تحت ان معاملات کے حل کے لئے کام جاری رکھے گا۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے اپنے الوداعی خطاب میں جو کچھ کہا، اس کا لب لباب یہ تھا کہ اداروں کے درمیان دائرہ کار کے حوالے سے پارلیمان ناکام رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پارلیمینٹ کی بالادستی ختم ہورہی ہے، ریاست کے اندر ریاست بن رہی ہے اور کشمکش ہے۔ پارلیمنٹ نے ڈی فیکٹو ریاست ختم نہ کی تو ٹکرائو ہوگا، کہیں 2018ء کا الیکشن عدلیہ پر ریفرنڈم نہ بن جائے۔ میاں رضا ربانی اور جناب فرحت اللہ بابر جمہوری اقدار کی سربلندی اور پارلیمان کے بالادستی کے حوالے سے قبل ازیں بھی اصولی موقف کا اظہار کرتے رہے ہیں مگر منگل کے روز جو باتیں انہوں نے کہیں، انہیں کچھ عرصے سے سامنے آنے والے واقعات کے تناظر میں دیکھا جائے تو صورتحال کی سنگینی کے احساس کے ساتھ بہت سے سوالات بھی جنم لیتے ہیں۔ ریاست کے اندر ریاست کی بات ہمارے ہاں متعدد مواقع پر کہی جاتی رہی ہے، ہر بار اس کا مفہوم اور ہدف مختلف رہا ہے۔ اس بار اگر کسی خاص سمت میں اشارہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تو اس میں رائے کی درستی کا فیصد تناسب کتنا زیادہ یا کم ہے ؟ یہ غور طلب امر ہے ۔بات اگر ڈی فیکٹو حکومت سے آگے بڑھ کر ڈی فیکٹو ریاست تک جارہی ہے تو اس کے دو اسباب ہوسکتے ہیں۔ اول یہ کہ کوئی ادارہ اپنے دائرہ کار سے تجاوز کررہا ہے۔ دوم یہ کہ کوئی ادارہ اپنی معین حدود میں ایسا خلاء پیدا کررہا ہے جسے لامحالہ کسی نہ کسی طریقے سے پر کیا جانا ہوتا ہے۔ وطن عزیز عشروں سے کرپشن، افراتفری، بدامنی اور لاقانونیت کے جن عفریتوں کا سامنا کررہا ہے، ان کی پیداوار اور بڑھوتری میں افراط و تفریط دونوں عناصر کا دخل رہا ہے۔ کئی شعبوں میں کہیں غفلت اور کہیں تجاوز کا احساس نمایاں ہونے سے شکایتوں کی گنجائش بھی پیدا ہوئی اور پرزور الفاظ کے ساتھ وضاحتوں کی نوبت بھی آئی۔ جناب فرحت اللہ بابر جب اس خوف کا اظہار کرتے ہیں کہ سال 2018ء کہیں عدلیہ پر ریفرنڈم ثابت نہ ہو تو ان کے پیش نظر 2018ء کی قبل از وقت شروع ہوجانے والی انتخابی مہم اور اس میں کی گئی تقاریر ہیں۔ ایسے وقت کہ چیئرمین سینٹ کی نشست کے لئے پی پی پی خاصی سرگرم نظر آرہی ہے، مذکورہ بیان میں بعض حلقے مسلم لیگ (ن) اور بالادست قوتوں کے لئے بعض پیغامات تلاش کرتے محسوس ہورہے ہیں۔ حقائق جو بھی ہوں، اس بات کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہئے کہ تمام ریاستی اداروں کو اپنی اپنی آئینی حدود میں رہ کرکام کرنا چاہئے۔ پارلیمینٹ ریاست کا اعلٰی ترین ادارہ ہے جبکہ دوسرے اداروں کی بھی اپنی اپنی اہمیت ہے۔ ان سب کو متعین دائروں میں رہ کر کام کرنا اور اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ عام آدمی کو بھی زندہ رہنے، پنپتے اور ترقی کرنے کے حقوق حاصل ہوں۔

تازہ ترین