• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یکم مارچ کو شائع ہونے والا میرا کالم’’کیا ہاشمی کا جرم مشرف سے بڑا تھا؟‘‘ میں میں نے نہال ہاشمی سے جس ہمدردی کا اظہار کیا تھااُسے ہاشمی صاحب نے شرمندگی میں بدل دیا ہے اور اُس کی وجہ ن لیگ کے سابق سینیٹر کی وہ تازہ وڈیو ہے جس میں وہ ججوں کو گالی دے رہے ہیں۔ ہاشمی کی فرسٹریشن اپنی جگہ لیکن جس انداز میں انہوں نے ججوں کو گالی دی وہ انتہائی قابل مذمت اور قابل افسوس ہے۔ اس رویہ کی کسی طور پر بھی نہ اجازت دی جا سکتی ہے اور نہ ہی ایسے اقدام کی حمایت ممکن ہے۔ ہم نے تو مشرف کی ڈکٹیٹر شب کے دوران ڈوگر کورٹ کے خلاف آواز تو ضرور اٹھائی اور آزاد عدلیہ کی جدوجہد میں بھی شامل رہے لیکن اُس دور میں بھی کسی پی سی او جج کے لیے گالی تو دور کی بات بدزبانی بھی نہیں کی۔ عدلیہ سے اختلاف اپنی جگہ، عدالتی فیصلوں پر کسی کو بھی اعتراض ہو سکتا ہے ، یہ بھی درست بات ہے کہ پاکستان کی عدلیہ جلداور سستا انصاف دینے میں ناکام رہی، یقیناً تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے عدلیہ نے آئین توڑنے والوں کا ہمیشہ ساتھ دیا لیکن اس سب کے باوجود اگر ججوں کو گالیاں دینے کا رواج زور پکڑے گا تو پھر عدلیہ کا ادارہ کیسے قائم رہ سکتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ توہین عدالت کی ایک ماہ کی سزا کاٹتے ہی نہال ہاشمی نے ایسی حرکت کیوں کی لیکن اگر کوئی ن لیگی سیاستدان یا میڈیا اینکر ہاشمی کی اس حرکت پر یہ مطالبہ کرے کہ علامہ خادم حسین رضوی کی طرف سے ماضی میںججوں کو دی جانے والی گالیوں پر عدلیہ کیوں نوٹس نہیں لیتی تو ایسی باتوں سے ججوں کو سرعام گالیاں دینے والے ہی مضبوط ہوں گے۔ یہ اعتراض کرنے والوں کو چاہیے کہ باقاعدہ ایک پٹیشن سپریم کورٹ میں دائر کریں جس میں علامہ رضوی کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی استدعا کی جائے تاکہ یہ تاثر نہ ابھرے کہ عدالت کو گالی دینے والے کسی خاص شخص کو بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بلاشبہ عدلیہ خصوصاً سپریم کورٹ نے کچھ حالیہ سیاسی فیصلوں میں اپنے آپ کو ایک بار پھر متنازعہ بنایا، اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ن لیگی قیادت کے خلاف دیے گئے فیصلے کمزور ہیں جس پر تنقید اوراعتراض بھی کیا جا سکتا ہے لیکن کیا جو ردعمل ن لیگی قیادت کی طرف سے سامنے آ رہا ہے کیا اُس سے کسی بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔ جہاں ن لیگی قیادت کو اپنے رویہ کو دیکھنے کی ضرورت ہے وہاں جج حضرات کو بھی چاہیے اپنی غلطیوں پر غور کریں تاکہ معاملات مزید خرابی کی طرف نہ بڑھیں۔ میاں نواز شریف اور مریم نواز کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے خلاف دیے گئے فیصلوں پر تنقید کریں لیکن جب ن لیگی اعلیٰ ترین قیادت ریڈ لائنز کراس کرتے نظر آئیں گے اور ججوں کو للکاریں گے، اُن پر براہ راست عوامی جلسوں میں سازش اور دوسرے الزامات لگائیں گے تو پھر کیا اس سے عدلیہ کو بحیثیت ایک ادارہ ہم تباہی کی طرف تو نہیں دھکیل رہے۔ اس ماحول میں جج حضرات کو بھی اپنے فیصلوں اور ریمارکس میں احتیاط کرنی چاہیے اور خصوصاً سیاسی معاملات میں ایسا نظر نہیں آنا چاہیے کہ کوئی خاص سیاسی رہنما یا سیاسی جماعت اُن کے نشانہ پر ہے۔ ایک بات حقیقت ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز نے جو بیانیہ دیا اور جو انداز اپنایا وہ عوام میں مقبول ہوا۔ لیکن سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا وہ بیانیہ جو عوام میں مقبول ہو اور الیکشن جیتنے کا ذریعہ بھی بن جائے کیا ایسے بیانیہ کے نتائج ملک و قوم کے لیے بہتر بھی ہوں گے کہ نہیں۔ ایسے حالات پر جہاں ن لیگ اور عدلیہ آمنے سامنے کھڑے ہیں، سینیٹر فرحت اللہ بابر نے گزشتہ روز سینیٹ میں خوب تبصرہ کیا۔ بغیر کسی توہین آمیز الفاظ کو استعمال کیے، فرحت اللہ بابر نے عدلیہ کو ہدف تنقید بنایا لیکن ساتھ ہی یہ وارنگ بھی دے دی کہ انتخابات کا سال عدلیہ پر ریفرنڈم کا سال بن گیا تو یہ تباہی ہو گی۔ فرحت اللہ بابر نے عدلیہ پر خوب تنقید کی اور بابے رحمتے کو بھی خطاب کیا لیکن اُن کی تقریر میں کوئی توہین آمیز بات تھی نہ ہی اُنہوں نے ریڈ لائنز کو کراس کیا۔ ن لیگ کے عدلیہ کے متعلق کئی اعتراضات اور خامیاں درست ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان خامیوں کو دور کرنے کے لیے ن لیگی حکومت یا کسی دوسری سول حکومت نے کیا کیا۔ جب میاں نواز شریف صاحب وزیر اعظم تھے تو اُنہیں چاہیے تھا کہ عدالتی نظام میں اصلاحات لاتے، ججوں کی تعیناتی اور اُن کے احتساب کے لیے سینٹ کی طرف سے مجوزہ بل کو قانون کی شکل دیتے، جلد اور سستےانصاف کی فراہمی کے لیے اپنا پرانا وعدہ پورا کرتے۔ لیکن اُس وقت تو انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا اور اب اپنے خلاف آنے والے فیصلہ کے نتیجے میں موجودہ عدلیہ کو discredit کر نے کے ساتھ ساتھ عدالتی نظام کی تبدیلی کا وہی وعدہ کر رہے ہیں جو 2013 کے انتخابات کے دوران ن لیگ کے منشور میں شامل تھا۔ ویسے یہ بات بھی یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے وہ دو جج حضرات جو آج کل ن لیگ کے سب سے زیادہ نشانہ پر ہیں اُن کی ہائی کورٹ میں تعیناتی نواز شریف صاحب نے ہی بحیثیت وزیر اعظم اپنے دوسرے دور حکومت میں کی تھی۔

تازہ ترین