• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وہ بار بار کہہ رہاتھاکہ امی جان میں نے ڈگری مکمل کرلی ہے اب مجھے اپنے وطن واپس آکر اپنے لوگوں کی خدمت کرنا ہے،نوجوان نسل کو گائیڈ کرناہے انہیں جدید علوم سے آگاہی دینی ہے،ماں تو ماں ہے،کیسے روکتی بولی،،بڑی محنت سے تمہیں پڑھایا ہے،سب کچھ تم پر نچھاور کردیاہے،میں اورتمہارے بڑے بھائی تمہیں بڑا آدمی دیکھناچاہتے ہیں،تمھیں کچھ کرکے دکھاناہے،خیر، بیٹا جیسے تم بہتر سمجھو۔۔!جوان خون تھا،رہا نہ گیا بولا،ماں وہ کرکے دکھاؤں گاجس کے بعد نہ صرف تیرا بلکہ اس ملک کافخر بنوں گا،بس پھر کیاتھا،کیمسٹری کی ڈاکٹریٹ کی ڈگری سنبھالنے پردیس کو خداحافظ کہا،مصمم اورمضبوط ارادوں اور جوش و ولولے کے ساتھ اپنے غریب لیکن غیرت مند علاقے میں آکر اپنے حاصل کردہ علم کو اپنے نوجوانوں پرنچھاور کرنے یونی ورسٹی میں پڑھانا شروع کیا۔شادی ہوگئی تو ذمہ داریاں اور بڑھ گئیں۔وقت گزرتاگیا،اللہ نے بیٹے اور بیٹی کی رحمت سے نواز دیا،اہل علاقہ،خاندان،بڑے بھائی سب ہی تواپنے چھوٹے بھائی پرفخر کرتے اور اس کی محبت کا دم بھرتے،پھر ماں سے کیاوعدہ پورا کرنے کا وقت آگیا، صبح نماز ادا کی،یونی ورسٹی جانے کی تیاری کی،سورج بھی گھبرایاسا تھا،تبھی تو اس نے اس پرعزم اور بہادر شخص کو اپنا چہرہ بھی دکھانے کی جرات نہ کی،والدہ سے اجازت لی،بچوں کوپیاردیا،سہاگ کوخداحافظ کہا اور بڑھےجانبِ مقتل ،درس گاہ پہنچے،درس شروع کیا،کلاس روم سے باہر اچانک گولیوں کی تڑتڑاہٹ،دھماکوں کی آوازیں سنائی دیں ،کئی درجن نوجوان بچے سامنے سہمے ہوئے دیکھے تو خون نے جوش مارا، مخاطب ہوئے،خوف مت کھانا،جان بچانا فرض ہے،خاموشی و مضبوطی سے بیٹھے رہیں،دروازے کو اندر سے لاک کیا،دہشت گرد پہنچ چکے تھے،دروازہ توڑنے کی کوششوں میں مصروف ہوئے تو روحانی باپ کا کردار ادا کرتے ہوئے اپنی جان کی پروا نہ کی،اپنے بچوں کو مختلف راستوں سے نکالنا شروع کیا،سیسہ پلائی دیوار بن کر درجنوں بچوں کی جان بچائی بلکہ دہشت گردوں پراپنی ذاتی گن سے فائر کھول کر بھرپورمقابلے کی جرات کرڈالی،دہشت گرد پہلے تو ردعمل سے گھبرائے،آگے پیچھے ہوئے،لیکن پھر موقع پاکر کئی گولیاں ذہنوں کی آبیاری کرنے والے ذہین ذہن میں اتار دیں،اس سینے میں اتار دیں جو اپنے ملک و قوم پر نچھاور ہونےکے جذبے سے سرشار تھا،،دہشت گرد بھی مارے گئے،ڈاکٹرحامدحسین امر ہوگیا،یونیورسٹی کے کلاس رومز میں اکیلے ہی مردانہ وار بہت دیر مقابلہ کرنے والے حامد حسین نے دہشت گردوں کو شکست دے دی،ان دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں اور ساتھیوں پرہرکوئی لعنت بھیج رہاہے،لیکن ڈاکٹر حامد حسین کی قربانی اور بہادری سے لڑتے ہوئے شہادت پر ،ان کاخاندان،علاقہ اور پورا پاکستان ان کو خراج پیش کررہاہے،ہمسایہ ملک کے تمام ٹی وی چینلز ان کی بہادری کے قصے اپنی قوم کو سنا اور دکھا رہے ہیں،ڈاکٹر حامد حسین کے شاگرد سینہ تان کے کھڑے ہوگئے ہیں کہ وہ علم کےحصول کیلئے نہ صرف اپنی مادر علمی کی حفاظت کریں گے بلکہ دہشت گردوں کو اپنے علم کے ہتھیار سے مقابلہ کرکے شکست فاش دیں گے،حامد حسین نے ماں سے کیاگیا وعدہ سچ کر دکھایا،بڑا کام کردیا،جاں قربان کرکے اپنی قوم کو جگا دیا، نوجوانوں کوشعور دے دیا،سوچنے اور سمجھنے کی طاقت و صلاحیت دیدی اور روشن راستہ دکھا دیا کہ دشمن جتنا بھی طاقت ور ہو،ڈرنا نہیں،سچ اور حق کی طاقت سے دہشت گردی کو شکست دینی ہے،ڈاکٹر حامد حسین بتاگئے ہیں، دہشت گردو تم پھرہار گئے،حق وسچ کاعلم جیت گیاہے اور بیشک یہ ہمیشہ رہنے کیلئے اور تم مٹ جانے کیلئے ہو اور اس بہادر ونڈر استاد کےشاگردوں نے بھی بلاخوف دوبارہ یونیورسٹی میں آکر اپنی تعلیم کو جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کرکے ثابت کردیاہے کہ اپنے استاد کے مشن پرکاربند ہیں جو ایک نرم خو استاد ہونے کے باوجود اپنے آہنی ارادوں سےدہشت گردوں کے عزائم کو ناکام بنانے میں کامیاب ہوا،لیکن کیا ہمارے نصیب میں روزانہ بہادر سپوتوں کے لاشے اٹھانا ہے،اس وطن اور قوم کی آبیاری کیلئے بلانے والی دکھیاری ماں ارباب اختیار سے پوچھتی ہے کہ عقل ودانش سے طلباء میں علم بانٹنے والا معلم خود کو اس دھرتی پرغیرمحفوظ سمجھ کرہتھیار اپنے پاس رکھنے پر کیوں مجبور ہوا،افغان طالبان کے لئے مذاکرات کے سہولت کار بننے والے اپنی رعایا کی حفاظت کیلئے ذمہ دار و سہولت کار کب بنیں گے،غم زدہ ماں پوچھتی ہے کہ ابھی تو سانحہ اے پی ایس کی ماؤں کے غم غلط اور زخم مندمل نہیں ہوئے تھے، ایک سال بعد بھی کیوں اپنے نونہالوں کی حفاظت کا انتظام نہیں کیاگیا۔! یہ بھی حقیقت ہےکہ دہشت گردی صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں یہ مسلم ممالک کا بھی نہیں پوری دنیا کی سلامتی کیلئے سنگین خطرہ ہےلیکن کوئی سوچے تو،، امریکہ میں 9/11کے بعد کیوں کوئی بڑا سانحہ نہیں ہوا،برطانیہ میں 7/7 کے بعد دہشت گردی کی روک تھام کیلئے کیا،کیاگیا کہ کوئی بڑاواقعہ پیش نہیں آیا،معمولی اور درمیانے درجے کےواقعات ہونابھی سیکورٹی کے غیرموثر اقدامات کی نشاندہی کرتے ہیں لیکن ،،16دسمبر 2014ءکوپیش والے تاریخ کے بدترین اے پی ایس سانحے کے بعد اس قوم کے لیڈرز کے دعوے کس قدر حقیقت بنے اس کی قلعی 20جنوری 2016ءکے چارسدہ یونی ورسٹی کےواقعہ نے کھول دی ہے،ہم عوام دیکھ رہے ہیں خدا را،اب بھی وقت ہےصوبائی حکومتیں محض فوج پرساری ذمہ داری تھوپنے کی بجائے، سارا زور کرپشن چھپانے اوراپنے خلاف کیسز سے بچنے سمیت صوبہ بمقابلہ وفاق بناکرتنقید برائے تنقیدکی بجائے اپنی ساری توجہ و توانایاں عوام کے تحفظ اور اپنی آنے والی نسل کی بقا وحفاظت پر مرکوز کریں، تاکہ نئی نسل کےمعمار شہیدڈاکٹر پروفیسرحامد حسین جیسے انمول ہیرے کو اپنی ذہانت اور علم کی دولت قوم میں بانٹنے کی بجائے اپنی جان نچھاور کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑے کیونکہ ہمیں دنیا میں سراٹھاکرعزت سے جینے کیلئے اسی طرح کے قابل،باکردار،باعمل اور مضبوط سہاروں کی ضرورت ہے ،وہ لحمہ آچکا ہے کہ نہتی قوم کودشمن کے سامنے کھڑاکرکے انہیں قربان کرکے ان کےلاشوں پرتمغے سجانے کی روایت کوبدل ڈالیں۔
تازہ ترین