• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بچپن میں وہ اپنی ماں کے ساتھ صحرائی ٹیلوں اور ان پر ہونیوالی تھوڑی بہت گھانس پھونس یا قدرتی سبزہ کاری میں بکریاں چرانے جاتا اور شام کو ماں اور بکریوں کو گھیرنے والے آوارہ کتوں کو وہ نکال کر بھگانے کا کام بھی کرتا۔ کئی سال بعد اس نے مجھ سے کہا تھا کہ وہ اب بھی تا عمر خدا کی خلق پر اور انکی محنت پر لپکنے والے آوارہ کتے ہی بھگاتا رہا ہے۔ یہ جام ساقی تھا۔
سندھ کے تھرپارکر ضلعے کے چھاچھرو کے قریب چھوٹے سے گائوں جھنجھی میں علاقے کےمقامی سر سید، پرائمری استاد محمد سچل کے گھر پیدا ہونیوالا بچہ جس کا نام محمد جام رکھا گیا تھا۔ پاکستان کا اپنے دور میں جگ مشہور اشتراکی اور مشہور طالب علم لیڈر۔ جس نے اپنی جوانی کا ایک بڑا حصہ یا تو جیلوں، ریاستی عقوبت گھروں میں گزارا یا پھر روپوشی میں جسے وہ اپنی اصطلاح میں’یو جی‘ (انڈر گرائونڈ) یا زیر زمین کہتے ہیں۔ ایسی زیر زمین سیاست جس کا سب کو پتہ ہوتا۔ سوائے انکے عام ساتھیوں کے۔ خفیہ والے خفیہ والوں کے پیچھے لگے رہتے۔ کمیونسٹ پارٹی ایسا کمبل تھا جسے یہ خرقہ پوش درویش صفت انسان کب کا چھوڑ چکا تھا لیکن یہ کمبل اسے مرنے کے بعد بھی نہیں چھوڑ رہا۔
جب مجھ سے اسکی آخری بار ملاقات ہوئی تو وہ کمیونسٹ سے صوفی ہو چکا تھا اور اسے کرشموں اور پیش گوئیوں پر یقین ہو چلا تھا۔ اس نے مجھے بتایا تھا کہ بچپن میں جب گائوں میں کسی کا ڈھور ڈنگر گم ہو جاتا تو وہ اس سے پوچھنے آیا کرتے، وہ بقول اسکے انہیں بتاتا کہ انکا ڈھور ڈنگر فلاں ٹیلے کے پیچھے کھڑا ہے یا کسی اور گائوں میں ہے، اور مالکان کو وہ کھویا ہوا جانور وہاں مل جاتا۔ پھر عمر کے ساتھ اس کی پیش گوئی کی صلاحیتیں بڑھتی گئیں اور وہ ملکی سیاست میں ہونیوالے واقعات اور لوگوں سے متعلق پیش گوئیاں کرنے کی بھی صلاحیت رکھنے لگا تھا۔ میں نے اس جیسا سیاسی تجزیہ نگار آج تک نہ دیکھا نہ سنا۔
جام کے پرائمری ٹیچر والد محمد سچل جو اپنے علاقے سمیت تھر اور سندھ کے دور دراز تک لوگوں میں’سائیں سچل‘ کے نام سے جانے جاتے، اور جام کی والدہ کی تربیت نے جام کو پیدا ہوتے ہی جام بنایا ہوا تھا یعنی کہ انتہائی ذہین اور ملنسار، محبت کرنے والا انسان۔ اتنا عوام دوست اور انسان دوست آدمی شاذ و نادر ہی کسی نے دیکھا ہو۔ وہ ہر ایک سے اسی پیار سے ملتا جس طرح اپنے ایک ساتھی پنہوں منگن ہار سے۔ اکثربس کنڈکٹر اور چائے والے اس سے پیسے نہیں لیتے، شریف پولیس والے اسے گرفتار نہیں کرتے، اور ڈاکو اسکے اغوا شدہ بیٹے کو بغیر کسی تاوان ادا کئے چھوڑ دیتے جو اپنے باپ کو بھی نہیں چھوڑتے۔یہ صرف سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ ارباب رحیم تھا کا دور تھا جس میں جام کی اہلیہ کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ارباب رحیم جس کے ساتھ وہ ایک بار تبلیغی دورے پر بھی گیا تھا)۔ فوجی سپاہی اور بعض افسر بھی اس کا احترام کرتے۔ وہ کہتا یہ سب کسانوں، مزدوروں، ان کی طرح ٹیچروں کی اولادیں ہیں۔
ضیا آمریت میں اس کے اور اس کے ساتھیوں کے خلاف ایک مقدمہ بغاوت کی سماعت کرنے والے خصوصی ٹربیونل کے ایک رکن میجر افتخار جلیس کو جو کہ معروف صحافی اور ادیب ابراہیم جلیس کے بیٹے تھے جام نے کہا تھا کہ اس حوالے سے ’’ہم سب کے کامریڈ تمہارے چچا ہوئے‘‘۔ میجر افتخار جلیس اب امریکہ میں ہوتے ہیں۔ اس مقدمے میں جام ساقی اور دیگر ملزمان کی صفائی میں گواہی دینے کیلے آنیوالوں میں بینظیر بھٹو، خان عبدالولی خان، میر غوث بخش بزنجو، جمعیت علمائے اسلام کے مولانا شاہ محمود امروٹی، معراج محمد خان، ٖفہمیدہ ریاض، معروف صحافی اور استاد صحافت شیخ عزیز، اس وقت کے سینیٹر شیخ علی محمد شامل تھے۔ جام کی طرف سے گواہوں کی فہرست میں شاید مہتاب راشدی کا نام بھی تھا۔ جام ساقی کے اپنی صفائی کے گواہان میں شریف الدین، پیرزادہ، اے کے بروہی تو تھے آمر ضیاء الحق کا خود کا نام بھی شامل تھا کہ ملزمان ان پر جرح کرنا چاہتے تھے کہ :’’آخر نظریہ پاکستان کی اصل تعریف ہے کیا؟‘‘’’بغاوت اصل میں کس نے کی ہے؟‘‘ یہ جو ان جس پر الزامات ہیں کہ مختلف طبقات کے درمیاں نفرت پھیلانا اور فوج کے خلاف نفرت پھیلانا۔ یہ جام ساقی اور اس کے ساتھی پھیلا رہے تھے کہ ضیاء الحق اور اس کے ساتھی؟‘‘
جب پی آئی اے کا طیارہ اغوا ہوا تو طیارے کے یرغمالی مسافر رہا کرنے کی عوض ہائ جیکروں نے جن سیاسی قیدیوں کی رہائی اور انہیں دمشق لانے کا مطالبہ کیا ان میں جام ساقی اور ان کے ساتھیوں کے نام بھی شامل تھے۔ جیل حکام نے ان کو زبردستی رہا کر کے شام بھیجنا چاہا لیکن جام اور ان کے ساتھیوں نے سختی سے اس پیشکش کو رد کردیا۔ باوجود تشدد کے انہوں نے رہائی سے انکار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’شام جانے کی ضرورت ہمیں نہیں آمر ضیاء الحق کو بھیجا جائے۔ تو ملک آمریت سے نجات پا جائے گا۔‘‘
انیس سو پچھتّرمیں جب بھٹو حکومت نے ولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی کا سپریم کورٹ میں ریفرینس بھیجا تھا تو جام ساقی اس پارٹی کا مرکزی جوائنٹ سیکرٹری اور مرکزی کمیٹی کا رکن تھا۔ ریفرنس کے جوابی تحریری بیان میں نیپ کے مرکزی عہدیدار کی حیثیت سے اپنے بیان میں جام نے ایک جگہ کہا تھا: ’’میں پانچ ہزار سال سے سندھی، چودہ سو سال سے مسلمان اور اٹھائیس سال سے پاکستانی ہوں۔‘‘
ان کے والد سائیں سچل اپنے علاقے کے ایک طرح کے سر سید تھے جن کی غربت کے باوجود کوششوں سے گائوں میں ہائی اسکول اور لڑکیوں کی تعلیم کیلئے اسکول بھی بنا۔ وہ اپنی تنخواہ سے غریب بچوں میں تا عمر کاپیاں کتابیں، پین، پینسلیں مفت تقسیم کرتے رہے تھے۔ جام جب ہائی اسکول چھاچھرو میں پہنچا تو وہاں مباحثوں کے مقابلوں میں حصہ لینے لگا۔ فن تقریر سے اس کے شوق کو دیکھتے ہوئے اس پر نظر کرم اسکول کے استاد عنایت اللہ غنچہ کی پڑی جو اشتراکی خیالات رکھنے والے تھے۔ یہیں سے جام ساقی کا رجحان بھی اشتراکی خیالات کی طرف ہوا۔ لیکن اصل میں اس کو چھوٹی عمر سے محبت غریب لوگوں اور مسکینوں سے رہی۔ میٹرک کرنے کے بعد وہ حیدرآباد کالج پڑھنے آئے جہاں سٹی کالج میں پروفیسر جمال نقوی پڑھایا کرتے تھے۔ جام ساقی تمام عمر پروفیسر جمال نقوی کے خیالات کے زیر اثر رہے۔ حیدربخش جتوئی، جی۔ ایم سید، شیخ ایاز، محمد ابراہیم جویو، کامریڈ میر محمد تالپور، عزیز سلام بخاری اور سوبھو گیانچندانی کی صحبت اور اثر میں بھی رہے۔
غریبوں، ہاریوں، مزدوروں کی بات تو ہر سیاستدان کرتا ہے لیکن جام ساقی حقیقت میں غریبوں، ہاریوں مزدوروں کا لیڈر تھا کہ وہ انہی میں سے تھا۔ ویسے تو برصغیر کی اشتراکی سیاست میں اپنے طبقے کو چھوڑ کر ’’ڈی کلاس‘‘ بن جانے کا کبھی کلچر رہا تھا۔ لیکن جام تو پیدائشی ’’ڈی کلاس‘‘ تھا۔ ہوائی چپل۔ کھدر کا لباس اور کے ٹو سگریٹ، اکثر جیبیں خالی۔ بلکل سندھ کے شاعر نیاز ہمایونی کے بقول:
عشق میں ہیں ہم لوگ تونگر
گرچہ جیب بھی خالی ہے
ہم نہ پوجیں چڑھتے سورج
اپنی بات نرالی ہے
جام ساقی اور ان جیسوں کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ اس دور کی سیاست کر رہے تھے جب سیاست بقول ان کے ’’سیاست کرو یا ہیروئن بیچو نفع ایک سا ہے‘‘ نہیں بنی تھی۔ جام سود و زیاں سے آگے کا آدمی تھا۔ اس نے اپنے کچھ دیگر ہمعصروں اور کل کے ساتھی انقلابیوں کی طرح نہیں کیا کہ جنہوں نے انقلاب اور ترقی کے نام پر صرف کوٹھیاں بنائیں۔
جام ساقی کی موت سے ایک کہانی اپنے انجام کو پہنچی۔ وہ ایک دیومالائی اور حقیقی انقلابی کردار کا امتزاج تھا۔ اس نے ہر دور کے حاکم کے سامنے کلمہ حق کہا پھر وہ فوجی آمر تھے بھٹو جیسے سول آمر۔ سندھ کے صحرا میں جنم لینے والا یہ پہاڑوں جیسا اٹل آدمی بھی مر گیا۔ میرا سدا کا دوست ’’کبھی نہیں‘‘ میں بدلےگا۔ بس وہ اس طرح آیا جس طرح پیاسی تھری زمین پر سارنگ آیا کرتا ہے۔ گرجا برسا، ذہنوں اور دلوں کے خشک تالاب سیراب کئے۔ ملک کو اپنی سوچ اور جدوجہد سے امیر کر گیا۔ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں وہ کمیونسٹ تھا، صوفی تھا، عاشق تھا، شاعر تھا کہ انقلابی۔ وہ جام ساقی تھا۔ وہ بہت بڑا انسان تھا۔ وہ تھر اور سندھ کی حب الوطنی کے اٹل کردار مارئی کی طرح نہ جھکنے والا اور نہ بکنے والا تھا جو آخر کار زندگی کے عمر بادشاہ کی قید سے آزاد ہو کر لوک داستانوں کا حصہ بن گیا۔ مارئی اور جام ساقی روز روز پیدا نہیں ہوتے۔

تازہ ترین