• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حیرانی تو سب ہی اہالیانِ رائے ونڈ کو تھی کہ حضور کو بغاوت کے اعلان کی کیا سوجھی۔ ماشاء اللہ گھر میں اللہ کا دیا سب کچھ تھا۔ برسوں کی ضرورت کا اناج۔ کبھی نہ ختم ہونے والا آب حیات۔ رقبے دُور دُور تک پھیلے ہوئے۔ خزانے میں اشرفیوں کے انبار۔ پردیس میں بھی ملکوں ملکوں کارخانے۔ ولایت میں آراستہ پیراستہ دولت کدے۔ عالم عرب میں بھی درہم و دینار کی آبشار۔ دونوں ولی عہد پائونڈ اسٹرلنگ میں کھیلتے اور الحمدللہ کا ورد بجا لاتے ہیں۔ دختر نیک اختر کا ستارہ بھی عروج پر۔ نواسہ علم کے زیور سے مالا مال۔ نواسی شادی کے بعد آسودہ حال۔ یمین یسار بھی امراء کا ایک ہجوم۔ جن کی آسائش و عیش کی ایک دھوم۔ بھائی مملکت کے سب سے بڑے صوبے کا حاکم۔ ریاست کا سب سے بڑا وزیر بھی خادم۔
پھر آخر کونسی قیامت ٹوٹ پڑی تھی کہ حضور کو یہ کہنا پڑا کہ سکھا شاہی کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا ضروری ہے۔
ہوا یوں کہ سینیٹ یعنی ایوان بالا میں بھی ان کی اکثریت ہوگئی ہے۔ جس محلّے میں انتخاب ہوتا ہے وہاں ان کے طرفدار ان کے نامزد اُمیدواروں کو ووٹوں سے مالا مال کردیتے ہیں۔ جہاں جاتے ہیں مسند سجتی ہے۔ خلقت اُمڈی چلی آتی ہے۔ یہ کہتے ہیں ’’ووٹ کو‘‘۔ پورا مجمع پکار اُٹھتا ہے ’’عزت دو‘‘۔ یہ کہتے ہیں ’’فیصلہ‘‘ خلق خدا ببانگ دہل کہتی ہے ’’نامنظور‘‘۔
کچھ ہوتا ہے ۔ جب خلق خدا کچھ کہتی ہے
اور پھر بزرگ یہ بھی کہہ گئے ہیں
’’زبان خلق کو نقارۂ خدا سمجھو‘‘
رائے ونڈ کی اقلیم سے اور قرب و جوار سے آنے والے یہی کہتے ہیں کہ بچہ بچہ حضور کی مظلومیت اور بے گناہی کا قائل ہوگیا ہے۔ وہ بھول گیا ہے کہ وہ پہلے کیا تھے ۔ اب کیا ہیں۔ ان کی حویلی پہلے کتنی تھی۔ اب اس کے بطن سے کتنی حویلیوں نے جنم لے لیا ہے۔
بس بیانیے کے چرچے ہیں۔ بعض ناہنجار تو کہتے ہیں ترے مرے پیارے کے چرچے ہیں ہر زبان پر۔ جمہوریت سب کی محبوبہ ہے۔ پروانے دیوانہ وار نثار ہورہے ہیں۔
حضور فرماتے ہیں کہ 70 سال سے یہی ہورہا ہے۔ کسی وزیراعظم کو اپنی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی۔ نادار ہیں۔ بے بہرہ ہیں۔ بے روزگار ہیں۔ مگر اچھلے پڑتے ہیں کہ عالی جناب سب کچھ ہوتے ہوئے سچ بول رہے ہیں۔ کسی سے نہیں ڈر رہے ۔ تاریخ سے نہ ضمیر سے۔ امیر سے نہ فقیر سے۔ دل میں سب سوچتے ہیں کہ ان پر یہ حقیقت اتنی دیر سے کیوں آشکار ہوئی۔ 70 میں سے 35 برس سے تو یہ بھی اقتدار کے ایوانوں کے اندر یا باہر رہے ہیں۔ وزرائے اعظم تو 1985 سے بہت پہلے شہید کئے جاچکے تھے۔ برطرف بھی جلا وطن بھی۔ اس وقت حضور نے یہ اعلانِ حق کیوں مناسب نہ سمجھا۔ اب بھی حکومت تو ان ہی کی ہے۔
جو دل میں بس رہا ہے حکومت اسی کی ہے
یہ تو دِلوں میں بھی بس رہے ہیں۔ وزیراعظم ہائوس میں بھی ان کے ہی حلف یافتہ فرماں بردار سریر آرائے سلطنت ہیں اپنے سمیت متاثرہ وزرائے اعظم کی دادرسی کے لئے موجودہ وزیراعظم کو حکم دیں کہ ایک اعلیٰ سطحی اعلیٰ اختیاراتی کمیشن قائم کریں۔ وزیر باتدبیر کی کیا مجال کہ اس سے بال برابر بھی روگردانی کریں۔
موسم اچھا ۔ پانی وافر ۔ مٹی بھی زرخیز
جس نے اپنا کھیت نہ سینچا ۔ وہ کیسا دہقان
بیانیہ سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ مگر یہ صرف پانچ دریائوں کی سرزمین تک کیوں محدود ہے۔ اس کے آگے بند نہ باندھیں اسے بہنے دیں۔
بیانیہ ایک سحر ہے۔ جو خود بیان کرنے والے کو بھی مبہوت کردیتا ہے۔ سننے والے تو مسحور ہو ہی جاتے ہیں اسباب بغاوت رائے ونڈ جاننے کیلئے اسباب بغاوت ہند جاننا ضروری ہیں۔ وہ بھی سرسید احمد خان کی زبانی۔
’’میرٹھ میں جو بغاوت دسویں مئی 1857 کو ہوئی۔ اس کی خبر گیارہویں تاریخ تک بجنور میں نہیں آئی تھی۔
بارہویں تاریخ کو یہ خبر مشہور ہوئی اور پے درپے اس کے آثار نمودار ہوتے گئے یعنی کنارِ گنگا جمنا راہ لٹنے لگی اور آمد و رفت مسافروں کی بند ہوگئی۔
رفتہ رفتہ ضلع بجنور میں بھی غور شروع ہوا راہیں لٹنے لگیں۔
بجنور کی جیل ٹوٹتی ہے۔ چوہدریوں کا بجنور پر قبضہ۔ خلق خدا کی۔ ملک بادشاہ کا۔ حکم چوہدریوں کا۔ ڈھم ڈھم ڈھم ۔
یہ سب بھی ملاحظہ کریں۔ سرسید کہتے ہیں۔ ہماری گورنمنٹ کا انتظامِ فوج ہمیشہ قابل اعتراض تھا۔ فوج انگلشیہ کی کمی ہمیشہ اعتراض کی جگہ تھی۔ ہم نے مانا کہ ہندوستانی فوج سرکار کی بڑی تابعدار خیر خواہ اور جاں نثار تھی مگر یہ کہاں سے عہد ہوگیا تھا کہ کبھی اس فوج کے خلاف مرضی حکم نہ ہوگا اور کسی حکم سے یہ فوج آزردہ خاطر نہ ہوگی۔ علاوہ اس کے ہندوستانی فوج کو بھی بے انتہا غرور تھا۔ وہ اپنے سوا کسی کو نہیں دیکھتے تھے… ان کا یہ قول تھا کہ برما سے لے کر کابل تک ہم نے سرکار کو فتح کردیا ہے۔ علی الخصوص پنجاب کی فتح کے بعد فوج کا غرور بہت زیادہ ہوگیا تھا۔‘‘
سرسید یہ بھی کہتے ہیں۔ اس غدر نے ہندوستان کی ترقی کو ایک صدی پیچھے دھکیل دیا۔
آخر میں یہ ہوتا ہے کہ ملکہ معظمہ اشتہار معافی جاری کرتی ہیں۔ مسلمان پانچ سو روپے خیرات اور راشن کے بطور چندہ جمع کرتے ہیں۔ درگاہ شاہ بلاقی کے قریب ایک مسجد میں جمع ہوتے ہیں۔ نماز پڑھتے ہیں اور سجدۂ شکر بجالاتے ہیں۔ حکام انگریزی کے حق میں پُرخلوص دُعا کرتے ہیں۔‘‘
اب بھی باتیں این آر او کی چل رہی ہیں۔ کالے دھن کی ایک بار معافی کی اسکیم کی بھی۔ سینیٹ کے الیکشن ہوچکے۔ سب ایک دوسرے پر بِکنے ،خریدنے کے الزام عائد کررہے ہیں۔ پنجاب میں اعلانِ بغاوت تک لے جانے والا بیانیہ بلوچستان میں حکومت کی حفاظت نہ کرسکا۔ وہاں ’’ووٹ کو۔ عزت دو‘‘ کا والہانہ نعرہ کیوں نہیں گونجا۔ سندھ میں بھی یہ بیانیہ کوئی گُل نہیں کھلا سکا۔
بیانیے سے قومیں ترقی نہیں کرتیں۔ پالیسیوں اور پروگراموں سے آگے بڑھتی ہیں۔ میاں نواز شریف کو تو سپریم کورٹ نے دو بار نااہل کہا ہے۔ عمران خان خود اپنے اقدامات سے اپنے آپکو نااہل کررہے ہیں۔ الیکشن پہ الیکشن ہار رہے ہیں۔ بلاول نوجوان خون ہیں مگر وہ بھی صرف نعرے لگا رہے ہیں۔ ایسا کوئی پروگرام کسی بھی پارٹی کی طرف سے نہیں آرہا جو ملک کی 60فیصد آبادی یعنی 6¼ کروڑ نوجوانوں کی توانائیوں کو اس قوم کی پیشرفت کیلئے استعمال کرے۔ جو ریکوڈک کا سونا تانبا نکال کر پاکستانیوں کے سر سے قرضوں کا بوجھ اُتار سکے۔ جو بھارت۔ افغانستان۔ امریکہ کے منصوبوں کو ناکام بنا سکے۔ جو سی پیک کی بہار کے ثمرات عام پاکستانیوں تک پہنچا سکے۔ میاں نواز شریف اور ان کی پُرعزم دختر مریم نواز دونوں بیانیوں کے ساتھ ساتھ اس طرف بھی کچھ توجہ دیں۔

تازہ ترین