یہاں سب جعلی ہے بولو جی! کیا کیا خریدو گے
سپریم کورٹ کے حکم پر جعلی ادویات بنانے والی کمپنی کا مالک گرفتار، فیکٹری سیل کرنے کا حکم، یہ کمپنی طاقت کی گولیوں سمیت 22غیر رجسٹرڈ ادویات بنا رہی تھی، ڈی آئی جی، کمپنی مالک کا رشتہ دار ہے، افسروں کو کارروائی کرنے پر ڈرایا دھمکایا جاتا ہے، درخواست ڈریپ حکام نے دائر کی۔ اگر آج کی سپریم کورٹ نہ ہوتی تو کارروائی کجا ہمیں تو خبر نہیں ہونی تھی، کہ اس پاک وطن کو کس کس طرح سے ناپاک کیا جا رہا ہے، اس جعلی ادویہ ساز کمپنی سے ایک کارخیر بھی سرزد ہو گیا ہے کہ یہ ادویات بھی جعلی بناتی ہے، جو ایک نمبر ڈاکٹرز ہیں وہ انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں کہ ان کے مریض ٹھیک کیوں نہیں ہوتے، اور دو نمبر ڈاکٹرز خوش کہ ٹھیک ہو گئے تو ہمارے حالات کیسے ٹھیک ہوں گے، اب تو ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ دکاندار پوچھتے ہیں دو نمبر لینا ہے تو سستا ملے گا ایک نمبر مہنگا ہو گا، اسی لئے تو سستا مال خریدنے والا سدا روتا رہتا ہے، مہنگا خریدنے والا صرف ایک بار روتا ہے جب اسے تگڑی قیمت جیب سے نکالنا پڑتی ہے، انسانی تجارت کرنے والے بھی ایک دن آئے گا کہ جعلی بچے ایکسپورٹ کریں گے، ٹیسٹ ٹیوب بچے تیار کریں گے اور ڈیمانڈ پوری کر دیں گے، ایک ریڑھی والے نے مالٹا چیر کر دکھایا تو اندر سے خون و خون، کہنے لگا صاحب جی یہ ریڈ بلڈ مالٹا ہے، معلوم ہوا کہ مالٹے کو لال رنگ کے ٹیکے لگتے ہیں، اور ہاتھوں ہاتھ بک جاتے ہیں، ہماری تو پوری تہذیب سارا تمدن خچر ہو گیا ہے کہ نہ گدھا ہے نہ گھوڑا، ایک بات مسلمہ ہے کہ وطن عزیز میں ہر اس طرح کی ’’نیکی‘‘ کے پیچھے ضرور کسی اندھی طاقت کا ہاتھ ہوتا ہے، محلے میں اگر کوئی چڑھ چڑھ کے بولے تو سمجھو کہ اس کی پشت پر کوئی ایم پی اے، ایم این اے، کوئی پولیس افسر ضرور سوار ہے، ہم نے ایک بھلے مانس محلے دار سے پوچھا کہ ساتھ والے پلاٹ پر ایک گوالے نے قبضہ کر کے اسے بھینسوں کا باڑا بنا دیا ہے جس سے پورا محلہ بیمار رہنے لگا ہے، اس نے میرے کان میں کہا اس کے منہ مت لگنا یہ فلاں ایم پی اے کا بندہ ہے، دشمنی سے اچھا ہے کہ غلاظت گوبر بدبو، مکھی مچھر سے دوستی کر لی جائے۔
٭٭٭٭
عمران چلے کراچی
عمران خان کراچی گئے، اور کراچی کی اجڑی مانگ سنوارنے کے لئے اپنی میک اپ کٹ ساتھ لے کر گئے شاید انہیں معلوم ہو گیا ہے کہ اپنا پارلر تو کھلنے کا نہیں کیوں نہ موونگ بیوٹی پا رلر کا کردار ادا کیا جائے، کراچی والوں سے یا کراچی میں چند اپنوں سے منی پاکستان کو اس کا جوبن واپس دلانے کے مدلل ’’لارے‘‘ دے کر آ گئے اور مطمئن ہو گئے کہ آئندہ انتخابات میں وہ کراچی سے لڑیں گے اور ممکن ہوا تو تو بطور وزیراعظم کراچی کو دانہ دنکا ڈالیں گے، ہمارے ایک مہربان ہیں جن کے پاس آئیڈیاز کا خزانہ ہے، اور جب بھی ملتے ہیں آئیڈیا کی دھمکی نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کو دے کر چلے جاتے ہیں، تبدیلی، سونامی ایک آئیڈیا ہی تھا، آئیڈیا ہی رہے گا، وہ صرف شادی کی حد تک پریکٹیکل ہیں اس سے آگے خیال ہی خیال ہیں، بلکہ خیال پیش کرنے میں نہال ہی نہال ہیں، انہوں نے جو طرح ڈالی اس پر اتنی گرہیں لگیں کہ اتنی تو زلف گرہ گیر میں بھی نہیں ہوتیں، بہرحال گرہ لگانے میں بڑی بڑی ہستیوں نے بھی کوئی کسر نہ چھوڑی، بس یہی ’’صدقہ جاریہ‘‘، جاری کیا جو نہ جانے کب تک چلے، مگر اپنے انجام سے بے خبر وہ پھر بھی کہتے رہے؎
گلوں میں رنگ بھرے بادنو بہار چلے
چلے بھی آئو کہ گلشن کا کاروبار چلے
یہ باغباں ہے کہ صباء جس کا کسی بھی گلستاں سے جی نہیں بھرتا، اور تشفی کے لئے پھر کسی نوبہار کو دعوت آب و ہوا دے ڈالتے ہیں۔ خدا خیر کرے اب کراچی پر فوکس ہے، کہیں پہلے سے اجڑے دیار کو خیبر پختونخوا نہ بنا دیں، جہاں روزی روٹی کے بجائے انہوں نے ایک ملین درخت لگانے کا منصوبہ شروع کر دیا، ٹھیک ہے درخت بھی ضروری ہیں، مگر پہلے وہ لوگ درکار ہیں جو کھا پی کر درختوں کی چھائوں میں قیلولہ کریں، ہمارے ملک میں حکمرانوں کے آئٹم کافی ہوتے ہیں مگر اس فہرست کی ترجیحاتی ترتیب غلط ہوتی ہے، نظریہ ضرورت کا ایک مطلب یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ سب سے پہلے عوام کو وہ کچھ دیا جائے جس سے ان کی زندگی کی ڈور بندھی ہوئی ہے۔
٭٭٭٭
سب چلتا ہے، چلنے دیں
چلتی کا نام گاڑی ہے، اب پتا چلا کہ اب یہ گاڑی پاکستان ایکسپریس ہے، جو چلتی ہی جا رہی ہے کسی نامعلوم منزل کی جانب ہر اسٹیشن پر رکتی ہے، وہاں بھی رک جاتی ہے جہاں اسٹیشن نہیں ہوتا، عطاء الحق قاسمی قومی اثاثہ ہیں اس عنوان سے ایک ٹکڑا لکھا تھا مگر ان کی گاڑی چھوٹے اسٹیشنوں پر نہیں رکتی، اس لئے ہم ٹکٹ ہاتھ میں تھامے پلیٹ فارم پر کھڑے ہی رہ گئے، بہرحال ان کی عظمت و صلاحیت کی گاڑی چلتی رہے ہماری یہی دعا ہے، ان کی ژرف نگاہی سے کسی کا میسج، کسی کی تحریر کسی کا ٹویٹ کسی کا فون بھی اوجھل نہیں رہ سکتا، مگر وہ بھی شاید پاکستان ایکسپریس ہیں چاہے تو کسی اسٹیشن پر رکیں نہ رکیں، اور چاہیں تو جہاں کوئی اسٹیشن نہ ہو وہاں بھی خاصی دیر تک ٹھہر جائیں، ہم نے تو اپنا فرض نبھایا شاید انہوں نے فرض کو فرد جرم سمجھ کر پڑھنا گوارا نہ کیا، یہ نزاکت بھی ان کے حسن کو عطا ہوئی ہے، کوئی کیوں نہ اس بے اعتنائی پہ مر مٹے، سنا تھا کہ شاخ ثمر دار جھکی ہوئی ہوتی ہے، مگر ہماری نارسائی پھر نارسائی ہی رہی، گلہ تب اچھا لگتا ہے جب انسان گلہ کرنے کی پوزیشن میں ہو، البتہ غالب کا یہ شعر تو لکھا جا سکتا شاید خود خورہ زخم مندمل ہو سکے؎
جب توقع ہی اٹھ گئی غالبؔ
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی
ہم پہلے خود کو کوئی سمجھتے تھے اب ’’کوئی نہیں‘‘ سمجھتے ہیں، قابل تعریف کی تعریف ہونی چاہئے ہم نے بھی کر دی کیونکہ؎
چاہئے اچھوں کو جتنا چاہئے
یہ اگر چاہیں تو پھر کیا چاہئے
ہم نان اسٹاپ گاڑی کا ذکر کرتے اس لئے قاسمی کی طرف نکل گئے کہ وہ جب سے پیدا ہوئے ہیں کہیں ٹھہرے ہی نہیں، ادبستان کے چنار کا قد بڑھتا ہی جا رہا ہے، ان کی خدمات کا صلہ کوئی مینگنیاں ڈال کر دے یا سرے سے نہ دے اس سے فرق نہیں پڑتا کہ اس جنگ میں ہم جیسے ان کے دیوانے ہزاروں ہیں۔
٭٭٭٭
جے اَج رہویں تے مناں!
....Oفرودس عاشق اعوان 81ممالک میں انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کمیشن فیڈریشن کی خیر سگالی سفیر تعینات۔
فردوس اعوان ہیومن رائٹس کی خیر سگالی سفیر تعینات ہو گئی ہیں، اس لئے ان پر عائشہ گلالئی کو مانیٹرنگ جج لگا دیا جائے، تاکہ ہیومن رائٹس محفوظ رہیں۔
....Oڈاکٹر مصدق ملک:سینیٹ میں اپنی جماعت کا چیئرمین لانے کے لئے پُر اعتماد ہیں،
ڈاکٹر صاحب محتاط رہیں کہیں پھر مفاہمت رنگ نہ دکھا جائے، مگر تسلی ہے کہ آپ ہیں نا!
....Oبچیوں سے زیادتی کے واقعات میں زینب کیس کے بعد نمایاں اضافہ ہو گیا ہے۔
جب تک سزا کو عبرت نہیں بنایا جائے گا اور جتنی زیادتیاں اتنی عبرتیں چوراہوں پر نظر نہیں آئیں گی بیٹیاں محفوظ نہیں رہیں گی۔
....Oغیر ملکی شہریت رکھنے والے 214بیورو کریٹس، ججز کی فہرست عدالت میں پیش، میاں محمد بخش کا ایک شعر ہے؎
پھس گئی جان شکنجے اندر جیویں ویلن وچ گنا
رو آکھے اج رو محمد جے اج رہویں تے مناں