• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کس قماش اور ذہنی طور پر کس کلاس کے لوگ اس ملک کے کن ایوانوں تک پہنچنے بلکہ نقب لگانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ذرا منظر اور مکالمہ پر غور فرمائیں۔ منظر سپریم کورٹ کا اور مکالمہ..........’’آپ نے ہمیں گالیاں دیں‘‘چیف جسٹس’’اداکاری کر رہا تھا‘‘ نہال ہاشمی’’لائسنس نہ رہا تو بچے بھوکےمر جائیں گے۔ میرے پاس چونی بھی نہیں وکالت پیشہ، خاندان تباہ ہو جائے گا‘‘ نہال ہاشمی’’جن کے لئے گالیاں دیتے رہے وہ بندوبست کر دیں گے‘‘ چیف جسٹس’’ہاتھ جوڑتا ہوں، معاف کر دیں۔ آئندہ ایسا نہیں کرونگا‘‘ نہال ہاشمی’’سب نے بیان دے کر معافی مانگنے کو عادت بنا لیا۔ ججز کو گالیاں دینے والوں کو معافی نہیں دی جا سکتی‘‘ عدالتپہلی بار ایسا ہوا کہ پڑھے لکھے مہذب ن لیگیوں نے بھی نہال پن پر شدید نفرت اور حقارت کا اظہار کیا۔ چوروں اور وارداتیوں کا مائینڈ سیٹ بھی ناقابل فہم اور عجیب و غریب ہوتا ہے۔ یہ ننگے ثبوتوں کے ساتھ رنگے ہاتھوں بھی پکڑے جائیں تو ایسے ’’بی ہیو‘‘ کرتے ہیں جیسے ہوا ہی کچھ نہیں، کیا ہی کچھ نہیں۔ ایسی ایسی دلیلیں تاویلیں، وضاحتیں اور ’’معروضاتیں‘‘ پیش کرتے ہیں کہ آدمی دنگ رہ جاتا ہے لیکن یہ ننگ دیانت باز نہیںآتے تو انسان اس نتیجہ تک پہنچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ یہ ان کا نہیں، ان کے ڈی این اے کا قصور ہے۔وہ بیانیہ بلکہ ہیجانیہ جو ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘ سے شروع ہوا تھااب ’’ میرا قصور کیا ہے؟‘‘ تک پہنچ گیا ہے ..........جی ہاںحضور!چشم بدور تازہ ترین خبریہ ہے کہ اسحاق ڈار جیسا کلاسیکل قسم کا فنکار اور اعداد و شمار کا شہکار بھی یہ پوچھ رہا ہے کہ ’’میرا قصور کیا ہے؟‘‘یعنی ان برگزیدہ ہستیوں کے نزدیک آمدنی سے لاکھوں گنا زیادہ اثاثے ایشو ہی کوئی نہیں اور نہ ہی اس سوال کا جواب لازمی ہے کہ چند سال کے اندر اندر ان کی دولت میں 91فیصد/گنا اضافہ کیسے ہو گیا؟کیا الہٰ دین کے سارے چراغ تمہارے خاندان میں ہی سمٹ آئے؟ کہ ان میں سے کسی ایک کی جادوئی رگڑ بھی باقی پورے پاکستان کو کبھی نصیب نہ ہوئی بلکہ اس کے برعکس عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) نے پاکستان کے بجٹ اور شدید قسم کے بیرونی خسارے کو ملکی معیشت کے لئے سنگین خطرہ اور زبردست چیلنج قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بڑھتے خسارے اور زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی سے ملکی معاشی استحکام کو خطرہ ہے۔ شرح تبادلہ میں ’’ایڈجسٹمنٹ ‘‘ خوش آئند ہے اور یہ ہمیں ’’ترقیاں‘‘ سنا رہے ہیں۔دوسری طرف یہ خبر بھی قابل غور ہے کہ نواز، مریم ، صفدر اور ڈار عرف ’’میرا قصور کیا ہے؟‘‘ کو سزا ملنے پر بچانے کے لئے دو فارمولوں پر برین سٹارمنگ شروع ہے۔ اخبار (جنگ نہیں) کے مطابق پہلا فارمولا آرٹیکل 5 کے تحت صدر پاکستان سے اپیل کی جائے گی کہ سزا ختم کر دی جائے، دوسرا فارمولا یہ کہ بھرپور عوامی احتجاج کے لئے ہر طرح کے وسائل بروئے کار لائے جائیں گے۔حضرت علیؓنےفرمایا’’بے شک میں نے رب کو اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا‘‘(مفہوم) ۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ دونوں حربے ناکام رہیں گے۔ پہلی وجہ یہ کہ روز اول سے میرا پختہ یقین ہے کہ یہ ’’شریفا شاہی‘‘ نظام، قانون کی نہیں قانون قدرت کی زد میں ہے۔ دوسری یہ کہ صدر مملکت تو ان دنوں ’’موجودہ حالات‘‘کی پیش گوئی فرما چکے جب دور دور تک ایسی کسی بات کا امکان تک بھی موجود نہ تھا۔ کون ہے جسے صدر مملکت کی وہ’’ منحوس‘‘تاریخی تقریر یاد نہ ہو جس میں آپ نے قوم کو کرپٹ عناصر کے انجام کی نوید مسرت سنائی تھی۔ رہ گیا عوامی احتجاج تو ن لیگ جتنی دیر اس فریب میں مبتلا رہے،ان کے لئے بہتر ہے ۔ جس دن قوم کو یقین ہو گیا کہ مکو اچھی طرح ٹھپ دیا گیا ہے، سب کچھ ٹھپ ہو جائے گا اور وہی مناظر دیکھنے کو ملیں گے جو شہرہ آفاق بارہ اکتوبر کے بعد اور پھر مزید بعد دیکھنے کو ملے تھے جب انہوں نے ملک میں داخلے کی کوشش کی تھی۔فی الوقت جو کچھ بھی ہے ’’فیک‘‘ اور جعلی ہے۔ خواب اور سراب سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔ پرندے پر نہ ماریں گے اور ایک پتا بھی نہ ٹوٹے گا،کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگے گی۔ کوئی صدا سنائی دے گی تو صرف ’’خس کم جہاں پاک‘‘ کی ۔ ان کو بھی سانپ سونگھ جائے گا جو عدالتوں اور ’’قسطوں‘‘ میں بے شرمی سے معافیاں مانگ رہے ہیں یا معروضات پیش کر رہے ہیں اور معروضات بھی بھونڈی ترین۔آخر پہ نہال ہاشمی کا شکریہ جس نے اپنی ’’اداکاری ‘‘ کا اعتراف کر کے مجھے اپنے بچپن کا وہ ناکام اداکار اسد جعفری یاد دلادیا جو اداکاری میں مکمل ناکامی کے بعد فلمی صحافی بنا اور اپنے نام کے ساتھ ’’اداکار صحافی‘‘ لکھا کرتا۔یہ ’’اداکار صحافی‘‘ مدتوں مقبول ترین ہفت روزہ ’’اخبار جہاں‘‘ کے لئے بھی لکھتے رہے۔ اسد جعفری کو میں نے کئی سال پہلے ایک انتہائی اہم سرکاری پبلی کیشن کے لئے جاب آفر کیا تھا جو انہوں نے قبول فرمایا۔ اداکار صحافی اسد جعفری تو اداکاری میں ناکامی کے بعد کامیاب صحافی بن گئے تھے، یہ بیچارہ نہال ناکام اداکاری کے بعد کیا کرے گا؟اس کا جواب مستقبل قریب پر چھوڑ دیتے ہیں اور یوں بھی سوال ایک نہال نہیں، کئی نو نہالوں کا ہے جو اس ملک کے لئے کب سے وبال بنے ہوئے ہیں۔

تازہ ترین