• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج ایک تصویر میرے سینے پر تیر بن کر لگی ہے۔ پاکستان کے صوبہ سندھ کے دیہاتی علاقے کی ایک کچّی سڑک پر ایک نوعمر لڑکا صبح صبح اسکول کی طرف لپک رہا ہے۔ بدن پر میلے کچیلے کپڑے ہیں ۔ ایک ہاتھ میں پھٹا پرانا قاعدہ اور دوسرے ہاتھ میں اس نے اپنی خاک آلودہ جوتیاں اٹھا رکھی ہیں، اُسی ہاتھ سے اپنے آنسو پونچھتا جارہا ہے۔تصویر میں پاؤں نظر نہیں آرہے مگر دل جانتا ہے کہ وہ بھی گاؤں کی خاک میں لتھڑے ہوں گے۔ جوتیاں ہاتھ میں لے کر لپک رہا ہے، شاید دیر سے آنے پر اسکول میں ڈانٹ پڑتی ہوگی یا شاید ماں سے ناشتہ مانگا ہوگا اور ماں نے اس کے آگے اپنا خالی دامن جھاڑ دیا ہوگا۔کسی نے یہ پروا کئے بغیر کہ میرے دل کا کیا حال ہوگا، تصویر فیس بُک پر مجھے بھیج دی۔ مجھ پر جو گزری سو گزری،میرا دل چاہا کہ اپنے اس درد میں اپنے فیس بک کے عزیزوں کو بھی حصے دار بناؤں۔ چنانچہ میں نے بچّے کی وہی تصویر کمپیوٹر پر عام کردی اور لکھا کہ یہ ہے عظیم تاریخی صوبہ سندھ کا ایک نادار بچّہ جو اپنا پھٹا پرانا قاعدہ اٹھائے اپنے اسکول کی جانب لپک رہا ہے جسے پتہ نہیں صبح کا ناشتہ بھی نصیب ہوا ہے یانہیں۔تصویر کا عام ہونا تھا کہ ہر جانب سے لوگ اپنے تاثرات لکھنے لگے۔سب کی روح گھائل ہوئی ، سب کے دلوں پر خراش آئی۔ کتنی اداسی تھی ہر جانب اور کتنی لاچاری اور مایوسی تھی۔ اپنے پرائے سب ہی رائے دے رہے تھے۔ اسی دوران امریکہ سے ہمارے دور کے بڑ ے عالم ، مفکر اور اعلیٰ درجے کے استاد ستیہ پال آنند کا تبصرہ آیا۔ ان کی زبانی ان کی لکھی ہوئی نعتیں اور حمد میں نے بارہا سنی تھیں لیکن شخصیت کا یہ پہلو مجھ پر پہلے کبھی نہیں کھلا تھا۔ معصوم لڑکے کی تصویر دیکھ کر انہوں نے یہ عبارت لکھی:اے خدا، ہمیں معاف کردے، ہم نہیں جانتے کہ ہم نے اپنے ملک کا کیا حال کیا ہے۔
اس تبصرے پر کوئی تبصرہ کرنا دوبھر ہے۔ کہنے کو یہ ایک تصویر ہے وہ بھی نسبتاً چھوٹے صوبہ سندھ کے کسی شہر کی نہیں ، کسی دور افتادہ گاؤں دیہات کی کچی سڑکوں کی خاک چھاننے والے ایک مفلس و نادار گھرانے کے عام سے لڑکے کی۔ مگر کس غضب کے تاثرات ہیں ا س کے آنسوؤں سے تر چہرے پر اور کیا روداد سنا رہا ہے وہ پھٹا پرانا قاعدہ جسے اس نے یوں احتیاط سے تھام رکھا ہے جیسے کوئی متاعِ عزیز ہو۔ جوتیاں سنبھالنے اور رخسار پر بہتے اشکوں کو خشک کرنے کے لئے اس نے دوسرے ہاتھ سے کام لیا ہے۔ اس کا میلا کچیلا کرتا جو وہ رات دن پہنتا ہوگا، اس کی مفلسی کا سارا حال کہے دیتا ہے۔ کسی نے کہا یہ سندھ کا بچہ ہے۔ اب کہنے والے کو کون سمجھائے کہ یہ کس کا بچّہ ہے۔ کیا پاکستان کا؟ جی نہیں۔میرا۔ آپ کا۔ اپنا اور سب کا۔ یہ بچّہ نہیں ہے، یہ آنے والی نسل ہے۔ ایسی نسل کہ جب ہم نہیں ہوںگے، یہ ہوگی۔ جب ہماری آنکھ بند ہوگی، اس کی آنکھ اس فصل کو دیکھ رہی ہوگی جو ہم نے بوئی اور جسے اس کی نسل کاٹے گی۔ میں نہیں کہتا، میرا دل کہتا ہے، کانٹوں سے بھری وہ فصل کاٹتے کاٹتے اس کے ہاتھ لہو لہان ہوجائیں گے، وہی ہاتھ جسں میں تھامنے کے لئے ہم نے اسے ایک پھٹا پرانا قاعدہ دیا ہے ۔ جس کے بے جان حروف بچے کے ذہن پر نہیں معلوم کیسے کیسے نقش چھوڑیں گے۔ اگر یہ بچہ سندھ کا ہے تو آج باآواز بلند یہ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ ٹھیک ہے ، سندھ میری سرزمین ہے، اس کا سب کچھ میرا ہے۔ بس جو میرا نہیں اور جس کا حصہ دار بننے سے میں صاف انکار کرتا ہوں داغوں سے بھرا اس کا دامن ہے۔ وہ جو بااختیار ہیں، وہ جو صاحب اقتدار ہیں، جن کے ہاتھ میں کیا نہیں۔ میں انہیں مجرم گردانتا ہوں ۔ اگر وہ اس ننگے پاؤں دوڑنے والے بچے کو ، کھیتوں میں خون پسینہ ایک کرنے والے اس کے نڈھال باپ کو اور تنگ دستی کے عالم میں گھر کی مشقت اٹھانے والی ماںکو زندگی کی وہ آسودگی عطا نہیں کرسکتے جس کے مزے وہ خود خوب خوب لوٹ رہے ہیں تون صاف کہہ دوں کہ نہ میںاُن سے ہوں ، نہ وہ مجھ سے ۔ میں بھی شاید دیوانہ ہوں۔ سوچتا ہوں کہ کیا یوں نہیں ہوسکتا تھا کہ گاؤں گاؤں قصبے قصبے چمکتی دمکتی عمارتوں ، روشن اور ہوادار کمروںمیں سرکار کے کھولے ہوئے اسکول ہوتے، علاقے میں ہر جانب اسکولوں کی بسیں دوڑ رہی ہوتیںجو صبح سویرے بچّوں کو ان کے گھروں سے اسکول تک لاتیں اور شام کو واپس لے جاتیں۔ وہ بھی کیا منظر ہوتا جب آتے جاتے بچوں کے وہ چاندی کی طرح کھنکتے قہقہے فضا میں گونج رہے ہوتے اور ان کی دھلی دھلائی رنگا رنگ یونی فارم صبح کی دھوپ میں صاف کہہ رہی ہوتی کہ ماں نے ایک شام پہلے ہی دھوکر اور استری کرکے تیار کردی ہوگی۔ذہن کیسی کیسی تصویریں بناتا ہے کہ اسکولوں کی عمدہ چار دیواریاں ہوتیں، شفاف واش روم ہوتے، باہر چمن آراستہ ہوتے جن کی راہ داریوں سے گزر کر والدین چھٹی کے وقت اپنے بچوں کو لینے آتے اور پھر جہاں تک نگاہ جاتی یہی منظر دکھائی دیتا کہ بچّے ان کی انگلی تھامے، ایک ٹانگ پر اچھلتے چلے جارہے ہیں۔
اب تو یہ حال ہے کہ جی مچلتا ہے کہ کچھ ایسا ہو جائے، کچی سڑک پر لپکتے بچّے کے ہاتھ سے اس کی خاک آلود جوتیاں لے کراپنے دامن سے ان کی خاک جھاڑوں، بڑے چاؤ سے پیروں میں پہناؤں، اپنی انگلیوںسے اس کے بکھرے بال سنواروں، ایک چھوٹا سا بستہ اس کے کاندھے پر ڈالوں، اس کے اندر ایک کتاب رکھوں، کتاب کا پہلا سبق وہی ہو جو میں نے اپنے لڑکپن میں پڑھا تھا اور مجھے آج تک یاد ہے۔ سناؤں؟ ’’ خدا ایک ہے، وہی رام ہے، اسی نے ہم کو پیدا کیا، سورج بنایا، چاند بنایا، دنیا کی ہر چیز بنائی۔ ہم سب اس کی پوجا کرتے ہیں‘‘۔
اور جب تک بچہ اپنی جماعت میں نہ چلا جائے، میں وہیں ٹھہر کر اسے دیکھتا رہوں کیونکہ وہ نہ سندھ کا بچہ ہے، نہ پنجاب کا، نہ خیبر پختون خوا کا نہ بلوچستان اور کشمیر کا۔ کیونکہ وہ جس قدر میرے وطن کا بچہ ہے، اتنا ہی میرا بھی اور اسی قدر ستیہ پال آنند کابھی۔
کالم پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998

تازہ ترین