• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چند دن پہلے محترم ثاقب نثار، چیف جسٹس آف پاکستان نے ایک کیس کی سماعت کے دوران امریکی صدر کے اختیار بارے اظہارِ خیال کیا۔ اُن کا فرمان تھا کہ امریکی صدر ایک کھوکھا بھی الاٹ نہیں کرسکتا۔ جناب ثاقب نثار گورنمنٹ کالج میں میرے ہم عصر تھے اور میں اُس وقت سے اُن کی ذہانت کا معترف ہوں۔ وہ ایک زیرک قانون دان ہیں اور یہ مثال سمجھانے کے لئے دی کہ طاقتور ترین صدر کے اختیارات میں کیا شامل ہے اور کیا نہیں۔ وضاحت کی کہ اختیارات پر قانون نے اپنی حدودوقیود مقرر کر رکھی ہیں۔ انتظامیہ کے پاس کسی فرد کو معاشی فائدہ پہنچانے کا صوابدیدی اختیار نہیں۔ سرکاری ملازمت کے دوران میں خود بھی اختیارات کے شوقین سیاست دانوں کو مثال دیا کرتا تھا کہ امریکی صدر کسی شخص کا ٹریفک چالان بھی معاف نہیں کر سکتا۔
آج کل سرکاری عہدوں پر تقرری کا معاملہ بھی عدالتوں میں زیرِ بحث ہے۔ یہاں صورتِ حال مختلف ہے۔ امریکی آئین، صدر کو اختیار دیتا ہے کہ وہ سرکاری عہدوں پر اپنے من پسند لوگوں کا چنائو کرے۔ پابندی اِس حد تک ہے کہ اِن میں سے اہم تقرریوں کی منظوری سینیٹ سے لینا ضروری ہو گا۔ امریکی آئین میںدیئے گئے اِس اختیار کا جائزہ قارئین کے لئے بہت دلچسپ ہو گا۔ یہ ایسی چونکا دینے والی داستان ہے جس میں تقرریوں کے اختیار پر ایک امریکی صدر کو قتل کر دیا گیا۔
بی اے کی تعلیم کے دوران پولیٹیکل سائنس کی کتاب میں پہلی دفعہ امریکی صدارتی نظام کے سپوائلز سسٹم(Spoils System) کے بارے میں جاننے کا موقع ملا۔ لفظ سپوائلز (spoils) مالِ غنیمت کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اُستاد سے وضاحت چاہی۔ اُنہوں نے تائید کی کہ امریکی نظام میں صدارتی انتخاب کی جنگ جیتنے کے بعد، امریکہ کا صدر سرکاری عہدوں پر اِسی طرح تقرریاں کرتا ہے جیسے پرانے زمانے کے فاتحین اپنی فوج میں مالِ غنیمت تقسیم کرتے تھے۔ آئین کے آرٹیکل2- کے تحت، امریکی صدردوسرے ملکوں میں امریکہ کی نمائندگی کرنے والے سفیروں کے علاوہ اور بہت سے عہدوں پر امیدواروں کا چنائو کرتا ہے۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ تمام سفارشات کی منظوری امریکی پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا سے لی جائے۔
2016ء کے اعدادوشمار کے مطابق امریکی صدر اوباما نے تقریباً چار ہزار عہدوں پر نئے لوگوں کی تقرری کی۔ اِن میں سے تقریباً بارہ سو تقرریوں کی سفارشات کے لئے سینیٹ کی منظوری درکار تھی۔ امریکی آئین میں دیئے گئے اِس اختیار میں وقت کے ساتھ تبدیلیاں آتی رہیں۔ جب آئین بنا یا گیا تھا تو امریکی صدر کو اِس ضمن میں لامحدود اختیارات حاصل تھے جو سو سال سے زیادہ عرصہ تک استعمال ہوتے رہے۔ 1880ء سے پہلے امریکی سول سروس کے لئے قواعد و ضوابط کا ڈھانچہ نہیں بنا تھا۔ امریکی صدر عہدہ سنبھالنے کے ساتھ، بیوروکریسی میں اپنی صوابدید کے مطابق نئے عہدے شامل کرتا رہتا اور اُن پر من پسند افراد کی تقرری ہوتی۔ صدارتی الیکشن کے بعد حمایتیوں کو نوازنے کا لامحدود سلسلہ شروع ہو جاتا۔ قدرت کی ستم ظریفی دیکھیں کہ امریکہ کے بیسویں صدر جیمز گارفیلڈ کو ازخود اپنے صوابدیدی اختیارات محدود کرنے کا خیال آیا۔ اُنہوں نے الیکشن جیتنے کے بعد سول سروس کے قواعدوضوابط وضع کرنے کی شروعات کیں۔ اُن کا خیال تھا کہ سرکاری عہدوں پر تقرری کا عمل غیر سیاسی اور صلاحیت کی بنیاد پر ہونا چاہئے۔ وہ ابھی اِس تبدیلی پر کام کر رہے تھے کہ ایک حمایتی نے اُنہیں گولی مار دی۔ قاتل کو شکایت تھی کہ الیکشن سے پہلے اُسے سرکاری نوکری دینے کا وعدہ کیا گیا تھا جو صدر نے ایفا نہیں کیا۔ مرحوم صدر کی ہلاکت کے بعد ریپبلیکن پارٹی نے 1883ء میں سول سروس ریفارمز ایکٹ (Civil Service Reforms Act)پاس کیا ۔ اِسی کا نتیجہ ہے کہ امریکی سول سروس میں اٹھائیس لاکھ مستقل عہدوں پر تقرری، صدارتی صوابدید کی بجائے صلاحیت کی بنیاد پر ہوتی ہے۔
قارئین کے لئے یہ بات دلچسپی کا باعث ہو گی کہ سیاسی صدر کے اختیارات کی نگرانی کسی غیر سیاسی ادارے کے بجائے سینیٹ کے سپرد ہے، جس کے اراکین براہِ راست منتخب کئے جاتے ہیں۔ یہ سیاسی ادارہ امریکی پارلیمنٹ کا حصہ ہے۔ امریکی سیاست میں آئین کی جمہوری روح کا تحفظ کیا جاتا ہے۔ اس لئے اپنے دائرہ کار سے تجاوز کرنے کا رواج نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی دوسرے ادارے کو اِس عمل کی نگرانی یا اِس میں دخل اندازی کا خیال بھی نہیں آیا۔ یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو گی کہ امریکی صدر ہی مختلف وفاقی عدالتوں اور سپریم کورٹ کے جج صاحبان کا چنائو بھی کرتا ہے۔ سینیٹ کے سیاسی ادارے کو اختیار ہے کہ وہ کسی تقرری کی سفارش کو رد کر دے۔ اِس صورتِ حال میں امریکی صدر متبادل سفارش کر سکتا ہے مگر حتمی اختیار اُسی کے پاس رہتا ہے۔ کئی دفعہ ایسے بھی ہوتا ہے کہ سینیٹ کا اجلاس بلانے سے پہلے ہی صدارتی فرمان کے ذریعے تقرری ہو جاتی ہے اور سینیٹ کی منظوری بعد میں حاصل کی جاتی ہے۔
تقرریوں میں ایک حصہ اُن سرکاری کارپوریشنز اور کمپنیوں کا ہے جو امریکی سرکار کی ملکیت ہیں۔ اِن اداروں میں ڈائریکٹر اور دوسرے عہدیدار مقرر کرنے کے لئے صدر کو سینیٹ کی منظوری بھی درکار نہیں۔ اپنے سیاسی ساتھیوں کو سرکاری عہدوں اور بڑی تنخواہوں سے نوازنے کا ایک اور طریقہ اُنہیں وائٹ ہائوس میں نوکری کا موقع دینا ہے۔ صدر ٹرمپ کے زمانے کا علم نہیں مگر صدر اوباما نے اپنے چار سو چون (454) حمایتیوں کو وائٹ ہائوس میں نوکریوں سے نوازا۔ اِن نوکریوں کے لئے امریکی صدر کو کسی سے منظوری لینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ صرف عہدے اور اُن پر مقرر کئے جانے والوں کے کوائف اور تنخواہوں کی لسٹ کانگریس کو بھیجنا ضروری ہوتا ہے۔
اپنے پیش رو کی سیاسی تقرریوں کے بارے میں ہر صدر کا رویہ اور سلوک بھی مختلف ہوتا ہے۔ عام طور پر متبادل کے چنائو تک، پیش رو کے مقرر کردہ عہدیدار کو کام کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ صدر ٹرمپ نے الیکشن جیتنے کے بعد اِس طریقۂ کار سے انحراف کیا۔ اُنہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ متبادل کا چنائو کرنے اور کانگریس سے منظوری میں وقت لگے گا۔ الیکشن جیتنے کے بعد فوری اعلان ہوا کہ صدر اوباما کے مقرر کئے گئے تقریباً اسی (80) سفیروں کی تعیناتی، ٹرمپ کی حلف برداری کے دن ختم ہو جائے گی۔
مجھے یقین ہے کہ بہت سے قارئین امریکی آئین میں صدر کے اختیارات کو جمہوری نظام کی خامی تصور کریں گے۔ اُن کی خواہش ہوگی کہ انتظامیہ کے منتخب سربراہ پر پابندیاں عائد ہونی چاہئیں، مگر امریکی آئین بنانے والوں نے انتظامیہ کو ملک کا نظم و نسق چلانے کے لئے جو اختیارات دیئے، تقریباً اڑھائی سو سال گزرنے کے باوجود، امریکی عوام نے کبھی اُن میں تبدیلی کرنے کے بارے میں نہیں سوچا۔ امریکی عوام آئین کی جمہوری روح کے بارے میں بہت حساس ہیں اور وہ بڑی احتیاط سے جمہوریت کی نگہداشت کرتے ہیں۔ آثار نظر آتے ہیں کہ پاکستان میں بھی جمہوری رجحان جڑ پکڑ رہا ہے۔
کالم پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998

تازہ ترین