• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک مرتبہ ا سٹالن پارلیمنٹ میں مرغا لے کر آگیا، سب کے سامنے اس کا ایک ایک پر نوچنے لگا،مرغا بہت تکلیف محسوس کرتا رہا، درد سے بلبلاتا رہا مگرا سٹالن اس کے پر نوچتا رہا، اس نے ایک ایک کر کے مرغے کے تمام پر نوچ دئیے، پر نوچ کرا سٹالن نے مرغےکو فرش پر پھینک دیا پھر جیب سے کچھ دانے نکالے، پھر یہ دانے مرغے کو ڈال دئیے، مرغا دانے کھانے لگا، دانے ختم ہوئے تو مرغے کا پیٹ نہیں بھرا تھا، اسٹالن جانے لگا تو مرغااس کے پیچھے چلنے لگا، اسٹالن چلتے چلتے دانہ پھینکتا رہا ، مرغا دانہ کھاتے کھاتے اسٹالن کے پیچھے پیچھے چلتا رہا اور پھر بالآخر مرغا اسٹالن کے پیروں میں آ کر کھڑا ہو گیا، اس مرحلے پرا سٹالن نے اپنے کامریڈ کی طرف دیکھا اور پھر یہ تاریخی الفاظ کہےجمہوری سرمایہ دارانہ ریاستوں کے عوام اس مرغے کی طرح ہوتے ہیں، ان کے حکمران پہلے عوام کو لوٹتے ہیں ، لوٹ کر انہیں اپاہج کر دیتے ہیں اور بعد میں انہیں معمولی سی خوراک دے کر خود ان کے مسیحا بن جاتے ہیں۔ جوزف ا سٹالن نے جو کہا، وہ سچ ثابت ہو رہا ہے۔ ایسا ہی پاکستان کے عوام کے ساتھ ہو رہا ہے ، پاکستان میں جمہوری سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ یہاں بھی حکمران طبقے نے عوام کے پرنوچے، انہیں بے بس بنا دیا اور پھر وہ قیمے والے نان کے بدلے ووٹ دینے لگے۔ آج وہ حکمران طبقے کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں ، پاکستان میں حکمران طبقہ خوش ہے، اس نے جی بھر کر لوٹ مار کی، اس نے قوم سے جھوٹ بولا، مسلسل جھوٹ بول رہا ہے، آج حکمران طبقے کے پاس تو دولت کے ڈھیر ہیں مگر اس ملک کا عام آدمی دو وقت کی روٹی کے لئے ترس رہا ہے۔ اپنے بچوں کی تعلیم کے لئے پریشان ہے۔ بچوں کی صحت کے لئے پریشان ہے، اسے فکر ہے کہ اس کے بچوں کو روزگار کیسے ملے گا، مجبوریوں کی دلدل میں عام آدمی کبھی کبھی سوچتا ہے کہ میرے بچے روٹی کو ترس رہے ہیں جبکہ حکمران طبقے کی اولاد میری دولت سےبیرون ملک عیاشی کر رہی ہے ۔ میرے بچوں کو تو پینے کا صاف پانی میسر نہیں جبکہ حکمران طبقے کے بچے خالص خوراکیں کھا رہے ہیں، مجھے تو ہر چیز ملاوٹ شدہ ملتی ہے مگر میرے حکمرانوں کی اولاد رہتی بھی باہر ہے، علاج بھی باہر کرواتی ہے، عام آدمی سوچ رہا ہے کہ میں کیوں مشکلات کا شکار ہوں اور مجھ پر حکومت کرنے والے کیوں خوش ہیں؟
خواتین و حضرات !میں بھی عام پاکستانیوں میں سے ایک ہوں، میرے ہاتھ میں قلم ہے، میرے سامنے میرے کروڑوں بھائیوں کی مشکلات بکھری پڑی ہیں، میں ان پیارے پاکستانیوں کی پریشانیوں پر نگاہ ڈالتا ہوں پھر حکمران طبقے کی لوٹ مار کو دیکھتا ہوں، ان کے جھوٹ بولتے ہوئے چہرے دیکھتا ہوں،ان کی دولت کے انبار دیکھتا ہوں، حکمران طبقے کے بیرونی دنیا میں ہونے والے علاج دیکھتا ہوں، ان کے غیر ملکوں میں محلات دیکھتا ہوں تو پھر مجھ سے خاموش نہیں رہا جاتا پھر مجھے کہنا پڑتا ہے کہ تم بہت ظالم ہو، تم نے ہمارا حسن چھینا۔ آج سے پینتیس سال پہلے ایک عام پاکستانی گھرانا بہت خوش تھا، اس کا ایک فرد کماتا تھا اور سارا خاندان کھاتا تھا، ہر طرف خوشیاں تھیں، لوگوں کے مامے چاچے، ماسیاں پھوپھیاں ایک دوسرے میں محبت بانٹتے تھے، لوگوں کے پاس وقت تھا، لوگ کسی رشتہ دار کے ہاں جاتے تھے تو کئی کئی مہینے رہ لیتے تھے، سرکاری اسکولوں میں خلوص کے ساتھ پڑھانے والے موجود تھے، سرکاری اسپتالوں میں مسیحا عبادت سمجھ کر علاج کرتے تھے، زندگی سادہ تھی مگر خوشیاں بہت تھیں مگر پھر تم ظالموں کے پاس حکومتیں آ گئیں پھر جمہوری سرمایہ دارانہ حکمرانی شروع ہوئی، تمہاری کارکردگی یہ ہے کہ اب عام پاکستانی گھرانے خوش نہیں ہیں، عام گھرانوں میں پریشانیاں گھسی ہوئی ہیں، آج گھر کے تمام افراد کماتے ہیں، کمائی کے اس چکر میں ان کی ایک دوسرے سے اکثر ملاقات بھی نہیں ہوتی مگر تمام افراد کی تمام تر کمائی کے باوجود ایک دو افراد کو کھلانا مشکل ہے، تمہارے ظلم نے ہم سے ہمارا مشترکہ خاندانی نظام بھی چھین لیا، آج کا بچہ اپنے تائے چاچے اور مامے ڈھونڈتا رہتا ہے، اسے اپنی پھوپھیوں ، ماسیوں اور چاچیوں کی تلاش رہتی ہے ، اس سے لاڈ پیار کرنے والے کم ہو گئے ہیں، آج کسی کے پاس اتنا وقت نہیں رہا کہ وہ اپنے رشتے داروں کے پاس جا سکے پھر کئی کئی دنوں تک رہ سکے ، تم ظالموں نے تو وقت بھی چھین لیا، تم نے سرکاری اسکول ختم ہی کر دئیے، جو ہیں ان کی حالت بری ہے، تم نےاسپتالوں کو کباڑ خانے بنا دیا، تم نے ہماری زندگیوں سے سکون چھینا ہے، تم نہ ہماری زندگیوں سے حسن چھینا، تمہاری لوٹ مار اور چوری چکاری نے ہمیں غیر محفوظ کیا، پہلے ہم دروازے کھول کر سوتے تھے، اب ہم راتوں کو اندر سے تالے لگاتے ہیں پھر بھی خوف قائم رہتا ہے، تم اتنے ظالم ہو کہ تمہارے کرتوتوں نے سونا اگلتی زمین کے مالکوں کو رلا کر رکھ دیا، تم وہ ظالم ہو جنہوں نے ہم سے ہمارے سفر کا لطف بھی چھین لیا، تمہارے پیٹ ہی نہیں بھرتے، ہم ریل گاڑیوں میں سفر کر لیا کرتے تھے، ریل کا سفر رومانس تھا، ریلوے سٹیشنوں پر رونق ہوا کرتی تھی جانے والے ٹرین کا انتظار کرتے تھے اور کچھ لوگ آنے والوں کا انتظار کرتے تھے، وہاں پکوڑے سموسے اور چائے والے بھی خوش رہتے تھے، یہ سارے منظر حسن کی داستان تھے، دوران سفر کئی خوش گوار لوگ مل جاتے تھے، آنکھیں خوشگوار مناظر دیکھتی تھیں۔ دوران سفر گپ شپ رہتی تھی، تم نے ہمارا یہ رومانوی سفر بھی ہم سے چھین لیا، تم نے اپنی دولت کے چکر میں ادارے تباہ کئے، سارے موسموں اور سارے ذائقوں کے ملک کو ذائقوں سے محروم کر دیا، تم نے ہماری فصلوں، پھلوں اور قدرتی عطیات کو برباد کیا، آج سب کچھ کے مالک ہونے کے باوجود ہمارے پاس مشکلات اور پریشانیاں ہیں ، تم کل بھی جھوٹ بول رہے تھے، تم آج بھی جھوٹ بول رہے ہو، میرے دیس کے شاعر سرور ارمان نے تیس پینتیس برس پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ
بانجھ ہو کر رہ گیا جس وقت دھرتی کا بدن
تب ہمارے نام یہ جاگیرکر دی جائے گی
کالم پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998

تازہ ترین