• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شہباز شریف مسلم لیگ کے صدر بنا دئیے گئے۔ پنجاب میں مسلم لیگ کی ’’عوامی رابطہ مہم ‘‘ حمزہ شہباز کے سپرد کردی گئی ۔میاں محمد نواز شریف اپنی بیگم کی اور مریم نواز اپنی ماں کی تیمارداری کے لئے کسی وقت بھی لندن سدھار سکتے ہیں ۔نون لیگ کےایم این اے رضا حیات ہراج تحریک انصاف میں شامل ہوگئے ہیں۔چند ہی دنوں میں نون لیگ کے وہ تمام ایم پیز جنہوں نے چوہدری سرور کو سینیٹ کے انتخابات میں ووٹ دئیے ہیں وہ بھی تحریک انصاف میں شامل ہو جائیں گےجن میں پنجاب حکومت کے ایک دو وزیر بھی شامل ہیں ۔کچھ اور نامور لوگوں کی فلائٹ تیار ہے ۔کسی وقت بھی اڑان بھر سکتی ہے ۔بس کچھ نئے مسافروں کے بورڈنگ کارڈز ایشو ہونے کا انتظار ہے ۔
سینیٹ کی جنگ نواز شریف ہار چکے ہیں آصف زرداری نے سلیم مانڈی والا کوچیئرمین بنانے کا اعلان کردیا ہے ۔(ابھی تک یہ اعلان اگرچہ زرداری صاحب کےاحباب تک محدود ہے ممکن ہے کالم شائع ہونے سے پہلے میڈیا کے سامنے بھی کردیا جائے )نوازشریف کے ساتھ سابق چیئر مین سینیٹ ’’بیچارے ‘‘رضا ربانی کی محبت بھی دستور کے گلی کوچوں میں رسوا ہو کر رہ گئی ہے ۔سنا ہےکہ آصف زرداری دستور کے کسی معاملے پر رضا ربانی سے ناراض ہیں۔یہ بھی کہا جاتا ہے جو اٹھارہویں ترمیم پیپلز پارٹی چاہتی تھی ۔رضا ربانی کی تیار کردہ اٹھارہویں ترمیم وہ نہیں ہے۔یہ خیال بھی عام ہے کہ اِس ترمیم سے زیادہ پاکستان کا کسی آئینی ترمیم نے نقصان نہیں کیا ۔وہ تمام محکمے جو وفاق سےختم کر کے صرف صوبوں تک محدود کر دئیے گئے ہیں۔ان کی حالت نا گفتہ بہ ہو چکی ہے۔جیسے ایجوکیشن کےلئے بین الاقوامی اداروں سے وفاق کو جو فنڈنگ آتی تھی وہ تقریباًختم ہو گئی ہے ۔صوبہ پختون خوا کے علاوہ کسی صوبے نے بھی ایجوکیشن کی مد میں ضرورت کے مطابق رقم نہیں رکھی ۔ہزاروں سرکاری اسکول پرائیویٹ ادارے کے حوالے کر دئیے گئے ہیں۔ اسی طرح ’’ صحت ‘‘ کے شعبے کے ساتھ ہوا ہے ۔توانائی کے بحران کی ذمہ دار بھی اٹھارہویں ترمیم کو قرار دیا جاتاہے ۔اس ترمیم کے تحت ہر صوبے سے حاصل ہونے والی توانائی پر پہلا حق اُس صوبے کا ہے اُس صوبے کی ضرورت سے جو توانائی بچ جائے گی وہ وفاق کے پاس جائے گی جسے وہ تقسیم کرے گا۔حالانکہ توانائی کی ضرورت ہر پاکستانی کےلئے برابر ہے ۔کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کو چاہئے کہ وہ اٹھارہویں ترمیم ختم کر دے کیونکہ وہ بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے ۔برابر کے حقوق پاکستان کے ہر شہری کا بنیادی حق ہیں ۔اور اس ترمیم میں برابری کا بنیادی حق انسان کو نہیں دیا گیا صوبوں کو دیا گیا ہے ۔ صحت اور تعلیم کے شعبے میں جتنا حق اہل ِ کراچی کا ہے اتنا ہی حق لیہ بھکر اور میانوالی میں رہنے والوں کا بھی ہے ۔ایسی کوئی ترمیم کیسے آئین کی روح کے مطابق ہو سکتی ہے جو مختلف صوبوں میں رہنے والوں کے حقوق میں تفریق پیدا کردے ۔یہ اٹھارہویں ترمیم پوری طرح’’پاکستان کھپے‘‘ کا نعرہ لگانے والوں کی منشا کے مطابق نہیں بلکہ گریٹر پنجاب کے خواب دیکھنے والوں کے مزاج کے مطابق ہے ۔یقیناً تحریک انصاف بھی اس ترمیم کے حق میں نہیں ہو سکتی ۔
ہاں یاد آیا کہ پہلی بارایک ایسا موقع آیا ہے کہ پی ٹی آئی کے پاس پی پی پی کی حمایت کرنے کے سوا اور کوئی راستہ موجودنہیں ۔وہ مجبور ہے ۔ اب یہ تو ممکن نہیں ناکہ تحریک انصاف نون لیگ کا چیئرمین سینیٹ بننے دے۔پیپلز پارٹی پنجاب میں بھی ایک آدھ سینیٹ کی سیٹ نکال سکتی تھی مگر آصف زرداری نے ڈاکٹر قیوم سومرو کو پنجاب کے ایم پیز سے ملاقاتیں کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔
ضمیر کی آواز پر ووٹ دینے والے انتظارکرتے رہے کہ کوئی ڈاکٹر قیوم سومرو آئے اور اُن کے ضمیر کو دوچار’’ کچوکے ‘‘ مارے مگر ضمیروں کو جگانے والے کے راستے میں پیپلز پارٹی پنجاب کے کچھ خاص لوگوں نے بڑی مضبوط دیوار بنا لی تھی ۔کہتے ہیں پیپلز پارٹی میں بھی ’’سلسلہ نون ‘‘ کے مریدوں کی تعداد کم نہیں ۔کچھ لوگ چوہدری سرور پر بھی الزام لگاتے ہیں کہ وہ پی ٹی آئی میں ’’شریفین‘‘ کےنمائندہ ہیں۔جس کی میں انتہائی سختی سے تردید کرتا ہوں مگر لوگوں کو کیاکہا جائے ۔لوگ تو لوگ ہوتے ہیں ۔منہ میں زبان رکھتے ہیں سولوگ بولتے ہیں۔
ہمارے بزرگ دوست اسد اللہ غالب (جو پرانے لیگی ہیں )نے سوال اٹھایا ہےکہ عمران خان نے جو چار چار کروڑ میں پی ٹی آئی کے سولہ لوگ خریدنے کا الزام لگایاہے وہ عمران خان کیسے ثابت کر سکتا ہے ۔ ووٹ توچوہدری سرور کو بھی پڑے ہیں ان کے متعلق عمران خان کا کیاخیال ہے ۔ان کی خدمت ِاقدس میں عرض ہے کہ عمران خان میدان ِ سیاست میں گھوڑوں کی خرید و فروخت کے ہرگز قائل نہیں ۔وہ توکہتے ہیں کہ چوہدری سرور نے بھی اگر ایسی کوئی حرکت کی ہےتو ان کے خلاف بھی کارروائی کی جائے ۔عمران خان کی تو جنگ ہے ہی یہی کہ قانون ہر شخص کےلئے برابر ہو ۔چھوٹے لوگوں کی طرح بڑا آدمی بھی اگر کوئی جرم کرے تو بچ نہ سکے ۔عمران خان نے اپنےان تمام گھوڑوں کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا ہے جنہوں نے اپنی پشت پر کسی غیر کو زین کسنے دی ہے ۔عمران خان ایسے ایم پیز کے خلاف الیکشن کمیشن میں جانے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ اگر انہوں نے یہ قدم اٹھایا تو پاکستان کی سیاست میں وہ ایک نئی تاریخ رقم کریں گے ۔یقیناََسچائی کے اس شاندار عمل سے ہمیشہ کےلئے سینیٹ انتخابات میں خرید و فروخت کی لعنت ختم ہو جائے گی ۔میں اس بات پر عمران خان کو مبارک دیتا ہوں اور ساتھ یہ درخواست کرتا ہوں کہ جہاں ووٹ بیچنے والے کو عبرت کا نشان بنادیا جائے وہاں ووٹ خریدنے والوں کے ساتھ اس سے زیادہ برا سلوک کیا جائے ۔ چاہے وہ چوہدری سرور ہی کیوں نہ ہو!
کالم پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998

تازہ ترین