• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سینیٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ کے الزامات نے سارے انتخابی عمل کو مشکوک کر دیا ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر یہی صورتحال رہی تورواں سال جولائی یا اگست کو ہونے والے عام انتخابات کوکیسے شفاف اور غیر منصفانہ بنایاجاسکے گا؟۔اگر چہ الیکشن کمیشن نے سینٹ الیکشن میں مبینہ ہارس ٹریڈنگ کی خبروں کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ پارلیمنٹیرینزاور پارٹی سربراہان کو14مارچ کو طلب کرلیا ہے مگر یہ محسوس ہوتاہے کہ ماضی کی طرح اب بھی ہارس ٹریڈنگ میں ملوث افراد اور جماعتیں بچ جائیں گی اور کوئی ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکے گا۔حیرت کی بات یہ ہے کہ مسلم لیگ(ن)اور پیپلزپارٹی بھی ایک دوسرے پر دھاندلی کے الزامات لگارہے ہیں۔حالانکہ اگر دیکھا جائے تو ان دونوں جماعتوں کوہی سینیٹ کے الیکشن میں سب سے زیادہ فائدہ پہنچا ہے۔پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلال بھٹو کا کہنا ہےکہ انہوں نے ہارس ٹریڈنگ نہیں کی بلکہ ارکان اسمبلی کو قائل کرکے ووٹ لئے ہیں۔یہ کیسی عجیب منطق ہے کہ کسی دوسری پارٹی کے ارکان اسمبلی کا ووٹ آخرکیسے اپنے امیدواروں کے حق میں ڈلوایا جاسکتاہے۔سندھ میں ایم کیو ایم کی اندرونی چپقلش اور محاذ آرائی کافائدہ بھی پیپلزپارٹی نے خوب اٹھایا ہے ۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے الزام لگایا ہے کہ سینیٹ انتخابات کے موقع پر پختوخوا میں پیسہ چلا جو جمہوریت کی نفی ہے۔جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے بھی مطالبہ کیاہے کہ فاٹا نشستوں میں ہونے والے انتخابات کوکالعدم قراردیاجائے۔سینیٹ انتخابات پر ماضی میں بھی ہارس ٹریڈنگ کے الزامات لگتے رہے ہیں۔پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالنے والے ارکان اسمبلی کاکڑااحتساب ہونا چاہئے۔ نیب ، ایف آئی اے اور الیکشن کمیشن کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس معاملے کا کھوج لگائے کہ کن جگہوں پر ارکان کی وفاداریاں خریدنے کے لئے پیسہ چلاہے اور آخر کس طرح سینیٹ الیکشن کے سارے عمل کو مذاق بنایا گیا ہے؟ہمارے خیال میں چیف جسٹس سپریم کورٹ ثاقب نثار کو بھی حالیہ سینیٹ الیکشن میں ہونے والی ہارس ٹریڈنگ کے معاملے پر ازخود نوٹس لیناچاہئے۔کیونکہ اگر اس سنگین مسئلہ کو یونہی چھوڑ دیا گیا توپھر چند ماہ بعد ہونے والے عام انتخابات پر بھی انگلیاں اٹھیں گی۔اس وقت چیئرمین سینیٹ لانے کے لئے سیاسی جوڑ توڑ اپنے عروج پرہے۔بلوچستان سےسات اورفاٹا سے منتخب ہونے والےآٹھ آزاد سینیٹرز چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں ’’بادشاہ گر‘‘کا کردار اداکریں گے ۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نے چیئرمین سینیٹ کے لئے آزاد سینیٹرزاور ہم خیال جماعتوں سے رابطے شروع کردیئے ہیں۔واقفال حال کاکہنا ہے کہ اگر چہ مسلم لیگ(ن) کی ایوان بالامیں مجموعی سیٹوں کی تعداد33ہے مگرچیئرمین سینٹ مسلم لیگ(ن)کانہیں بن سکے گا کیونکہ مقتدر حلقے پاکستانی سیاست میں توازن پیداکرنےکےلئےچیئرمین سینیٹ پیپلزپارٹی کا لانا چاہتے ہیں۔سابق صدر آصف زرداری نے تحریک انصاف کو ساتھ ملانے کےلئے اپنا کردار اداکرناشروع کردیاہے۔تحریک انصاف کے پاس سینیٹ میںبارہ ووٹ ہیں جبکہ پیپلزپارٹی کے20ووٹ ہیں۔اگر پیپلزپارٹی دیگر اپوزیشن جماعتوں اور آزاد سینیٹرزکوساتھ ملالیتی ہے تو اس کا ایوان بالامیں چیئرمین دوبارہ منتخب ہوجائے گا جو پیپلزپارٹی کی بہت بڑی کامیابی ہوگی ۔ سینیٹ میں ایم کیوایم اور نیشنل پارٹی کے پاس5 ،5،جمعیت علمائے اسلام (ف)کے پاس 4،پختونخوا ملی عوامی پارٹی3اور جماعت اسلامی کے پاس 2نشستیں ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہوگاکہ اپوزیشن جماعتوں کے سینیٹرز کس کاساتھ دیتے ہیں؟۔مسلم لیگ(ن)بھی اپنا چیئرمین سینٹ لانے کے لئے آزاد سینیٹرزاور اتحادی جماعتوں سے رابطہ کررہی ہے۔پیپلزپارٹی کے رضاربانی کوچیئرمین سینٹ بنانے کی تجویزآصف زرداری نے مستردکردی ہے۔پیپلزپارٹی نے رضاربانی کی بجائے اب سلیم مانڈی والا کا نام تجویز کیا ہے۔نوازشریف کی زیر صدارت مسلم لیگ(ن) کے حالیہ اجلاس میں فیصلہ کیاگیا ہے کہ اگر پیپلزپارٹی رضاربانی کو بطور چیئرمین نامزدکرتی ہے تو مسلم لیگ(ن) اس کا تھ دے گی ۔ لگتاہے کہ پیپلزپارٹی مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ’’میثاق جمہوریت‘‘ کاتسلسل نہیں چاہتی۔اس لئے وہ اب مسلم لیگ(ن) سے دور رہ کر اپنے سیاسی اہداف کو حاصل کرنا چاہتی ہے۔دوسری طرف مسلم لیگ کو اپنی گرتی ہوئی ساکھ کوبحال کرنے کے لیے ایک سیاسی سہارے کی ضرورت ہے لیکن پیپلزپارٹی بیساکھیاں بننے سے گریز کررہی ہے۔ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے لئے53ارکان چاہئیں۔ مسلم لیگ(ن)کو چیئرمین نیب کےلئے مزید 20ووٹ درکار ہیں جبکہ پیپلزپارٹی کو33ووٹوں کی ضرورت ہے۔
بلوچستان اور فاٹاسیاسی جوڑ توڑ کے مرکز بن گئے ہیں۔واقفان حال کامزیدکہناہے کہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے شاہ محمود قریشی سے رابطہ کیا ہے اور پی ٹی آئی کو ڈپٹی چیئرمین شپ دینے کی پیشکش کی گئی ہے۔بلکہ پیپلزپارٹی کی جانب سے تحریک انصاف کوتعاون عبوری سیٹ اپ تک بڑھانے کا بھی کہاگیا ہے۔بلوچستان کے ہم خیال گروپ نے بھی چیئرمین شپ مانگ لی ہے۔سینیٹ کا اگلاچیئرمین بلوچستان سے ہوسکتا ہے۔اس معاملے پر پیپلزپارٹی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے سوچ وبچار شروع کردیا ہے۔بلوچستان چونکہ چھوٹاصوبہ ہے۔ پنجاب اور سندھ کو فراخ دلی کامظاہرہ کرنا چاہئے۔ بلوچستان سے چیئرمین سینٹ بننے سے چھوٹے صوبوں میں احساس محرومی ختم ہوگا اوراس کے مستقبل کی سیاست پراچھے اثرات پڑیں گے۔انتخابی نظام میں دھاندلی اور ہارس ٹریڈنگ روکنے کے لئے تمام پارلیمانی جماعتوں کو اپنا کردار اداکرنا چاہئے۔
حالیہ ضمنی انتخابات اور سینٹ الیکشن سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ انتخابی نظام سے روپے پیسے کاعمل دخل ختم نہیں ہوابلکہ پہلے سے بھی کئی گنا زیادہ بڑھ گیا ہے۔تمام دینی وسیاسی جماعتوں کو اس صورتحال پر غور کرنا چاہئے۔کرپشن فری پاکستان کے لئے بھی جمہوری نظام کو مضبوط اور بہتر بناناہوگا۔پاکستان کا سب سے بڑامسئلہ کرپشن ہے۔کرپشن کے مکمل خاتمے کے بغیر ملک ترقی نہیں کرسکتا۔انتخابی نظام میں موجود کرپشن کو سب سے پہلے ختم کرناپڑے گا کیونکہ جب تک شفاف انتخابی نظام کے ذریعے حقیقی عوامی نمائندے اسمبلیوں میں نہیں پہنچیں گے اس وقت تک ملک میں بڑی تبدیلی نہیں آسکے گی۔نیب نے کرپشن کے خلاف اپنادائرہ کار وسیع کیا ہے ۔یہ ایک خوش آئند امر ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ احتساب کے عمل کا صحیح معنوں میں آغاز ہوا ہے۔ قومی احتساب بیورونے ملک کو کرپشن سے پاک کرنے کےلئے بڑی سیاسی شخصیات، بیوروکریٹس اور اداروں کے خلاف گھیرامزید تنگ کردیا ہے۔چیئرمین نیب جسٹس(ر)جاوید اقبال نے نیب حکام کو ہدایت کی ہے کہ وہ کسی دبائو اور سفارش کوخاطر میں نہ لائیں اور پوری دیانتداری و ایمانداری کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیں۔نیب نے جن شخصیات اور اداروں کے خلاف تحقیقت کی منظوری دی ہے ان میں شریف فیملی،وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا پرویزخٹک،آمدنی سے زیادہ اثاثے بنانے والے، تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کاسرکاری ہیلی کاپٹر کاغلط استعمال ،آف شور کمپنیاں اور کئی ہائوسنگ سوسائٹیاں شامل ہیں۔نیب پر پہلے یہ الزام لگایاجاتاتھاکہ وہ صرف شریف فیملی کے خلاف انتقامی کارروائیاں کررہی ہے لیکن اب یہ داغ دھل گیا ہے۔جب سے نیب کے چیئرمین جسٹس(ر)جاوید اقبال بنے ہیں تب سے قومی احتساب بیوروکی کارکردگی بہترہوئی ہے۔ وہ کرپشن کوجڑسے اکھاڑنے کے لئے پُرعزم ہیں اور انہوں نے ’’احتساب سب کا‘‘ سلوگن پیش کیا ہے۔ کرپشن فری پاکستان کو قومی تحریک بنانے کاکریڈٹ جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق کو جاتا ہے۔ انہوں نے سے سب پہلے کرپشن فری پاکستان کانعرہ لگایاتھا اور بعد ازاں پاناماکیس میں وزیر اعظم نوازشریف کی نااہلی کے بعد کرپشن فری پاکستان کی تحریک کو ملک گیر شہرت ملی۔ اب نیب نے بھی ’’کرپشن فری پاکستان‘‘ بنانے کاعزم کیا ہے۔
کالم پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998

تازہ ترین