• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اور امریکہ کے تعلقات تلخی و حلاوت کی ستر سالہ داستان ہیں۔ امریکہ امداد دیتا تھا اور ہمارے حاکم ’’منہ کھائے، آنکھ شرمائے‘‘ کے مصداق اس کی ہر بات پر آمنا و صدقنا کی گردان کرتے رہے۔ امریکہ کے ایما پر ہی پاکستان افغان جنگ میں الجھا، جس نے پاکستان کو فرقہ واریت، کلاشنکوف، منشیات اور دہشت گردی کے تحفے دیئے اور تیس لاکھ سے زیادہ مہاجرین بھی ۔ ضیاء الحق کا یہ جنگ لڑنے کا فیصلہ وطن عزیز کو بہت مہنگا پڑا۔ اس سے بھی مہلک غلطی مشرف نے نائن الیون کے بعد کی جب بش جونیئر نے کروسیڈ کا اعلان کیا اور رچرڈ آرمٹیج کی ایک فون کال پر مشرف نے نہ صرف امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر لیا بلکہ یہ بھی فراموش کرتے ہوئے کہ طالبان کے حامی پورے ملک میں موجود ہیں، افغان پالیسی کو یکسر تبدیل کر دیا۔ بدلے میں پاکستان کو 33ارب ڈالر ملے، جن کا ڈونلڈ ٹرمپ نے بذریعہ ٹویٹ احسان بھی جتایا لیکن ٹرمپ کا ٹویٹ اس لئے جھوٹ کا پلندہ تھا کہ یہ رقم لاجسٹک اسپورٹ کی مد میں تھی کوئی امداد یا خیرات نہیں۔ پاکستان کو اس سے یہ نقصان ہوا کہ طالبان کے حامی عناصر پاکستان پر پل پڑے اور اسے لہو میں نہلا کر رکھ دیا۔ اس فیصلے کی قیمت پاکستان کو 120ملین ڈالر کے مالی نقصان، 60ہزار شہریوں اور 6ہزار کے لگ بھگ فوجیوں کی شہادت کی صورت چکانا پڑی۔ افغانستان پر چڑھائی کے وقت تک امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور تھا اور حد سے زیادہ بے لگام بھی۔ پاکستان پر ڈرون حملے، شام، عراق، صومالیہ، یمن، لیبیا اور افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجانا اس کی منہ زوری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس بد مستی میں البتہ وہ یہ بھول گیا کہ دنیا بھر میں اس کے خلاف نفرت میں اضافہ بھی ہو رہا ہے اور اس کے عزائم کی راہ روکنے کی کاوشیں بھی، شنگھائی تعاون تنظیم کے اغراض و مقاصد ہی یہی ہیں۔ دریں اثناء حالات تبدیل ہوئے، روس کے صدر پیوٹن کے فلسفہ تصادم نے روس کو دوبارہ عالمی سیاست میں اہم مقام دلا دیا اور اب وہ ایک بار پھر امریکہ کے مدمقابل ہے۔ دوسری طرف امریکہ معاشی و اقتصادی حاکمیت کے لئے چین خطرہ بن کر سامنے آیا ہے، اس کی برق رفتار ترقی بھی امریکہ کی آنکھ میں کانٹا بن کر چبھ رہی ہے۔ محض اسی وجہ سے اس نے انڈو پیسفک مرکز قائم کیا جس میں بھارت کو اہم کردار دیا بلکہ بعد ازاں اسرائیل اور بھارت کے تعلقات کی مضبوطی میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ امریکہ کے لئے افغانستان دوسرا ویت نام بنتا چلا جا رہا ہے۔ افغانستان کے زیادہ علاقے پر افغان طالبان قابض ہیں جو آئے دن امریکیوں پر حملہ آور ہوتے ہیں اور انہیں جانی و مالی نقصان پہنچاتے ہیں۔ جب بھی امریکہ کو ایسا کوئی زخم لگتا ہے وہ تلملا کر پاکستان پر الزامات اور دھمکیوں کی بارش کر دیتا ہے لیکن درحقیقت وہ ملتجی ہوتا ہے کہ پاک فوج اسے اس ’’جہنم‘‘ سے نکالے، تاہم پاک فوج کا موقف ہے کہ اب وہ کسی دوسرے کی جنگ نہیں لڑے گی اور وطن عزیز کے دفاع کا فریضہ ہی سرانجام دے گی۔ یہ ہے ٹرمپ کے ذہنی خلجان کی اصل اور بنیادی وجہ جس کے لئے اس کا طریقہ درست نہیں۔ یہ طریقہ پاکستان کی سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے بتایا ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان اسٹرٹیجک ڈائیلاگ ضروری ہیں۔ افغانستان کو 5ورکنگ گروپس کی تجویز دی ہے جو فعال ہو جائیں تو تمام ایشوز پر مستقل بات چیت ہوتی رہے گی۔ پاکستان اپنی سرزمین سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پُر عزم ہے، سی پیک خطے کی ترقی کے لئے ناگزیر ہے، ایک دوسرے کے تحفظات پر بات کرنی ہو گی۔ تعلقات امریکہ کے لئے بھی اتنے ہی ضروری ہیں جتنے ہمارے لئے۔ پاکستان کی سیکرٹری خارجہ نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ گویا ہمارا قومی بیانیہ ہے جس سے انحراف ممکن نہیں۔ امریکہ اگر اپنی فیس سیونگ چاہتا ہے تو اسے پاکستان کے قومی بیانیے پر عمل کرنا ہو گا ورنہ افغانستان میں وہ مزید رسوا ہو گا۔

تازہ ترین