• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی کو برا لگے یا اچھا۔ کوئی راضی رہے یا ناراض، میں تو سرعام یہ اعلان کررہا ہوں کہ میں ایک عالمی حسینہ کی زلف گرہ گیر کا اسیر ہو چکا ہوں یہ نازنین پیدا تو یونان میں ہوئی مگر اس کے حسن اور سراپا کی تعریف پانچوں براعظموں میں ہوتی ہے، پاکستان میںبھی اس کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے، میری محبوبہ کے رقیب اور حاسد بھی اس بات سے انکار نہیں کر پاتے کہ دنیا میں اس جیسا کوئی حسین نہیں ہے، وہ اعتراض کا بہانہ یہ ڈھونڈتے ہیں کہ اس حسینہ کے لباس میں سلوٹیں بہت ہیں یا پھر یہ کہ اس کے کئی عاشق بہت برے ہیں۔ یہ اعتراضات درست ہوں یا غلط۔ اس سے میری محبوبہ کے حسن اور عظمت کو کیا فرق پڑتا ہے۔
میری محبوبہ کے حسن کے چرچے دنیا بھر میں ہیں میری محبوبہ کشش میں مصری ملکہ قلوپطرہ سے بڑھکر ہے اسی لئے دنیا بھر میں اس کے عاشقوں میں آئے دن اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ دنیا کے 115سے زائد ممالک میں میری محبوبہ کےعاشق اکثریت میں آچکے ہیں، قلوپطرہ پرسٹیسی سکف کی شہرہ آفاق کتاب میں لکھا گیا ہے کہ قلوپطرہ کا ناک نوکیلا تھا مگر اس کی سب سے بڑی خوبی اس کی حاضر جوابی تھی میری محبوبہ بھی اسی طرح کی حاضر جواب ہے، اس کی محفل میں ہر طرح کی گفتگو اور بحث کی کھلے عام اجازت ہے ، محبوبہ کے پاس ایسے دلائل ہوتے ہیںکہ آمریت کے بڑے بڑے وکیل معافی مانگ جاتے ہیں۔
سخن کے وارث، سید وارث شاہ نے ہیر رانجھا میں ہیر کے حسن اور خوبصورتی کے حوالے سے جو کچھ لکھا ہے وہ پوری طرح میری محبوبہ پر صادق آتا ہے۔ ہیر کی طرح میری محبوبہ پر بھی پورے چاند کا حسن چمکتا ہے۔ اس کی گندھی ہوئی کالی زلفیں جیسے چاند کے گرد سیاہ رات ہوتی ہے اور اس کا سرخ رنگ جیسے بھڑکتی ہوئی آگ کا شعلہ ہو اور اس کی آنکھیں نرگس کے پھول سے مشابہ مست اور متوالی ہیں، ہیر کی طرح اس کے رخسار گلاب کے کھلے ہوئے پھول جیسے ہیں۔ حسن کا یہی کمال ہے کہ دنیا بھر کے بڑے بڑے شاعر، مفکر اور سیاستدان میری محبوبہ پر جان دیتے ہیں۔
مونا لیزا کی مسکراہٹ نے دنیا بھر کو مسحور کر رکھا ہے، مونا لیزا کے مصور لیونارڈو ڈی ونسی نے اس مسکراہٹ میں پراسراریت ڈال کر اسے امر بنا دیا، میری محبوبہ کے چہرے پر بھی مونا لیزا جیسی مسکراہٹ رقصاں رہتی ہے اسے کسی پر غصہ نہیں آتا اسی لئے تو میری محبوبہ خود ہی مخالفین کے لئے بہترین انتقام ہے۔
میری محبوبہ پر ہر رنگ سجتا ہے، وہ ہر انداز میں خوبصورت لگتی ہے، امریکہ میں اسے دیکھیں تو اس کا حسن اور بھی نکھرا نظر آتا ہے، برطانیہ میں صدیوں پرانی روایت کو اس نے اپنے رنگ و روپ میں سمو لیا ہے اور بادشاہوں کو بھی اپنا مطیع و مرید بنا لیا ہے۔ امریکہ کا صدر بھی اسی کا دم بھرتا اور اسی کی مالا جپتا ہے، اسکینڈے نیویا میں تو میری محبوبہ کا بالکل اور ہی رنگ ہے وہاں کے عشاق کو تو محبوبہ نے محد سے لحد تک معاشی فکر سے ہی آزاد کر رکھا ہے، میری محبوبہ کی ریاست ہرفرد کی پیدائش سے لیکر موت تک مکمل ذمہ داری اٹھاتی ہے یہ ہیں میری محبوبہ کے کمالات....
مجھے علم ہے کہ یہاں اعلان محبت آسان نہیں اور مجھے یہ بھی اندازہ ہے کہ اس شہر بے مراد میں ہر شخص نے سنگ اٹھا رکھا ہے اور جہاں مہر و محبت کا شائبہ بھی نظر آئے وہاں سنگ باری شروع ہو جاتی ہے مگر مجنوں کب خاموش رہ سکتا تھا جو میں چپ ہو جائونگا، میری محبوبہ اس وقت دشمنوں میں گھری ہے اس لئے ضروری ہے کہ نعرہ محبت زور سے بلند کیا جائے اور بتایا جائے کہ میری محبوبہ جمہوریت کو پتھر مارنے والو، اس کا متبادل کیا ہے؟ کیا اپنے حکمرانوں کے انتخاب کا موقع چھین کر پھر انسانوں کو انسان کا غلام بنانا چاہتے ہو، کیا پھر سے آقا اورخادم، آمر اور تابع حاکم و محکوم، مظلوم، بادشاہ اور رعایا کے دور میں لے جانا چاہتے ہو۔ ایک سو سال میں 115سے زائد ممالک میں جمہوری نظام آیا ہے ہم تو خوش قسمت ہیں کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے 70سال پہلے سے ملک کی بنیاد ہی اس نظام پر رکھی آپ 70سال پہلے حاصل کی گئی اس نعمت کو بھی کھونا چاہتے ہو۔
میری محبوبہ میں لچک بہت ہے اسی لچک سے فائدہ اٹھا کرمیری محبوبہ جمہوریت کا گلا گھونٹنے والے بھی یہی اعلان کرتے ہیں کہ وہ جمہوریت کے حامی ہیں۔ جمہوریت کو پھانسی چڑھانے والے بھی ہمیشہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مزید اچھی جمہوریت لائیں گے، یہ جمہوریت اچھی نہیں ہے، اس میں کرپشن ہے، ہم ایسی جمہوریت لائیں گے جس میں یہ سب نہیں ہوگا، مگر دراصل یہ جمہوریت کوختم کر کے آمریت لانا چاہتے ہیں مگر ان میں اتنی جرات نہیں ہے کہ سرعام یہ اعتراف کرسکیں کہ دراصل وہ آمریت کے چاہنے والے ہیں، وہ جمہوری محبوبہ کوموت کی نیند سلا کر آمرانہ بھوت کی بیعت کرنا چاہتے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ اس دھوکہ بازی میں عوام کی اکثریت بھی ساتھ دے دے، بعض اوقات ایسا ہو جاتا ہے مگر بہت تھوڑے وقت کے لئے مگر پھر سچ آشکار ہو کر ہی رہتا ہے، اسی لئے تو جمہوری دلہن کو کئی بار طلاقیں دینے کے باوجود پاکستان میں بار بار پھر سے اسے ہی بیاہ کر لانا پڑا کہ بانیان پاکستان نے جو قوم کو گھٹی میں ڈالا اس کا اثر کم تو ہوسکتا ہے کبھی بھی ختم نہیں ہوسکتا۔
دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کہ جمہوریت کے قاتل خود ہی ایک دن اسے محبوب بنا لیتے ہیں بس یہیں سے قوموں کی تقدیر بدلتی ہے۔ ایسا ظاہر ہورہا ہے کہ مایوسیوں کے اندھیروں کے باوجود جمہوریت کو ٹھکانے لگانے والے اب یہ گناہ کرنے سے باز آچکے۔یوں لگتا ہے کہ وہ قائل ہو چکے کہ اس بار جمہوریت کا جنازہ اٹھا تو پھر سے ریاست کو جمانا اور حکومت کرنا مشکل ہو جائے گا۔ اگر واقعی وہ خوش قسمت زمانہ آگیا ہے کہ جس میں میری محبوبہ جمہوریت اور اس کی پیاری اولاد آئین کو کوئی گزند نہ پہنچانے کا فیصلہ کیا گیا ہے تو پھر میری اس محبوبہ کے جمہوری آزادیوں کے تقاضے بھی پورے کئے جائیں۔
راج اگر میری محبوبہ جمہوریت کا ہو اور آزادی اظہار پر پابندیاں ہوں تو یہ انصاف نہ ہوگا۔ اگر دور میری محبوبہ جمہوریت کا ہو اور سیاست میں سب کو برابر کے مواقع نہ ملیں تو یہ جمہوریت نہ ہوگی۔ اگر نام میری محبوبہ جمہوریت کا ہو اور ملک کو منتخب افراد کے بجائے مخصوص افراد یا ادارے چلائیں تو یہ جمہوریت کے نام پر بٹہ لگانے کے مترادف ہوگا۔ اگر نظام میری محبوبہ جمہوریت کا ہو اور خارجہ پالیسی صرف چند افراد یا ادارے بیٹھ کر بنائیں، پارلیمان صرف اس پر ٹھپا لگائے تویہ جمہوریت کا حسن مجروح کرنے والی بات ہوگی۔ اگر نام میری محبوبہ جمہوریت کا چلنا ہے تو پھر پارلیمان سپریم ہوگی، خودمختار ہوگی، عدلیہ اور دوسرے اداروں کی فعالیت عوامی حقوق تک رہنی چاہئے، آئین کی خالق پارلیمان تک فعالیت کے بڑھتے ہاتھ کہیں اس کا گلا ہی نہ گھونٹ دیں۔ پارلیمان کی کمزوریاں اپنی جگہ مگر فیصلے عوام سے کروانے ہیں تو اسے مضبوط بنائیں۔ وگر نہ میری محبوبہ جمہوریت کی تذلیل ہوتی رہے گی۔ اگر تو باقی دنیا کی طرح میری محبوبہ جمہوریت پر مکمل عمل کرنا ہے تو سیاسی انجینئرنگ چھوڑ کر سیاست کو اہل سیاست کے سپرد کردینا چاہئے۔ اب جہاں ہمت کر کے جمہوریت کو نہ لپیٹنے کا احسن فیصلہ کر لیا گیا ہے وہاں اس کے تقاضوں کو بھی پورا کر کے ثواب دارین حاصل کریں۔
کالم پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998

تازہ ترین