• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حالات نے پاکستان کو نازک دوراہے پر لا کھڑ ا کیا ہے۔قومی اداروں کا بھرم ٹوٹ چکا ہے۔منتخب وزیراعظم کے بعد اسپیکر اسمبلی نشانے پر ہیں۔آئین سپریم ہے مگر آئین کو بنانے والی پارلیمنٹ سپریم نہیں ہے۔جمہوریت کے داعی فرحت اللہ بابر اور رضاربانی صاحب کی سینیٹ میں تقاریر جمہوریت کا معیار تھیں۔ چیئرمین سینیٹ درست فرماتے ہیں کہ اسپیکر اسمبلی کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرنا بدقسمتی ہے،محسوس ہوتا ہے کہ آئین کو پامال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔غیر جمہوری سوچ ختم نہیں ہوئی،منصب کی قید سے نکل کر کھل کر بولوں گا،جمہوریت چھین کر لی ہے بچانا بھی جانتے ہیں۔فرحت اللہ بابر کا خطاب بھی سینیٹ کی تاریخ کا تاریخی خطاب تھا۔فرحت اللہ بابر صاحب فرماتے ہیں کہ سب کے احتساب کی بات پر میری پارٹی بھی پیچھے ہٹ گئی،ججز کا اپنے وقار کےلئے توہین عدالت قانون کا سہارا لینا تشویشناک ہے،کہیں الیکشن عدلیہ پر ریفرنڈم نہ بن جائے۔بہرحال پیپلزپارٹی کے دو صف اول کے رہنماؤں کا پارٹی پالیسی سے ہٹ کر جمہوریت کے حق میں بولنا پی پی پی کی خوبصورتی ہے۔ایسے حالات میں جب آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور درپردہ قوتوں سے اپنے معاملات ٹھیک کرنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں،زرداری صاحب فریال تالپور صاحبہ کے اشاروں پر چلتے ہوئے کچھ قوتوں کے آلہ کار کا کرردار ادا کرنے کی کوشش میں ہیں۔مگر ایسے میں پی پی پی کے دو سینیٹرز کا اپنی جماعت کے سربراہ کی پالیسی سے اختلاف کرتے ہوئے غیر جمہوری قوتوں پر کھل کر تنقید کرنا بڑی بات ہے۔پیپلزپارٹی کی اس اپروچ کو سراہنا چاہئے۔ویسے تو زرداری صاحب اس مرتبہ جمہوریت کے چیمپئن جناب رضا ربانی صاحب کو سینیٹ کا ٹکٹ بھی نہیں دینا چاہتے تھے تو بھلا ہو بلاول بھٹو زرداری کا ،جنہوں نے اس معاملے پر اسٹینڈ لیا اور ثابت کیا کہ وہ واقعی بے نظیر کا بیٹا اور ذوالفقار علی بھٹو کا نواسہ ہے۔فریال تالپور صاحبہ سمیت زردای صاحب کو جتنے بھی لوگ غلط مشورہ دے رہے ہیں کہ درپردہ قوتوں سے تعلقات بہتر ہو چکے ہیں اور آئندہ الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ کی پہلی ترجیح پی پی پی ہوگی تو وہ لوگ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔عزیر بلوچ و دیگر کیسز کی حد تک تو قوتیں پیچھے ہٹ سکتی ہیں مگر اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے پی پی پی کی واپسی ناممکن ہے۔جن لوگوں نے پی پی پی کو اس انجام تک پہنچایا ہے آج وہی لوگ غیر جمہوری قوتوں کے ایجنڈے کی حمایت کرواکر پی پی پی کو گڑھی خدابخش تک محدود کریں گے۔پیپلزپارٹی نے ہمیشہ مزاحمتی سیاست کی ہے ۔ بینظیر بھٹو نے وزارت عظمیٰ کے دور میں بھی اصولی موقف اپنائے رکھا اور یہ پرواہ تک نہیں کی کہ وزارت عظمیٰ ہاتھ سے چلی جائے گی۔آج زرداری پی پی پی کے ساتھ وہی کچھ کررہے ہیں جو عمران خان کے ساتھ اداروں نے کیاہے۔
عمران خان کی مقبولیت میں کمی اور بار بار ناکامی کی وجہ اداروں کے آلہ کار بننے کا تاثر ہے۔پاکستانی عوام کی اکثریت ایسی سیاسی جماعتوں کو پسند نہیںکرتی جو درپردہ قوتوں کے اشاروں پر چلتی ہیں۔سیاست میں کامیابی کے لئے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت ضروری ہوتی ہے مگر ایک حد سے زیادہ حمایت سیاسی جماعت کےلئے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔عمران خان کو بھی نقصان اسی لئے ہوا ہے کہ جو کام منتخب حکومت کو کرنا تھا وہ عمران خان کو کرنا پڑگیا۔حکومت میں نہ ہونے کے باوجود عوام کو ایسا ثاثر ملا کہ شاید عمران خان حکومت میں ہے اور آئے دن اداروں کا دفاع کررہا ہے۔اگر اداروں کی حمایت سے اقتدار میں آنا آسان ہوتا تو مسلم لیگ ق کبھی ختم نہ ہوتی،احتشام ضمیرمرحوم اور نیب کی پوری امداد کے باوجود ظفر اللہ جمالی ایک ووٹ سے وزیراعظم نہ بنتا،کبھی بھی مصطفی کمال کی پی ایس پی دھکے نہ کھاتی،جہانگیر ترین کو لودھراں میں شکست نہ ہوتی،مشرف کی جماعت ملک کی سب سے بڑی جماعت ہوتی،درپردہ قوتیں 80کو 100کرسکتی ہیں مگر 20کو 100کوئی نہیں کرسکتا۔
آج جو کچھ بھی ملک میں ہورہا ہے کئی افراد اور کئی قابل احترام ادارے اپنی تنزلی کی طرف جارہے ہیں۔فیئر ٹرائل ہر شہری کا بنیاد ی حق ہوتا ہے۔لیکن جب ملک کی سب سے بڑی عدالت کسی بھی کیس کے حوالے سے فیصلے سے پہلے ہی کوئی ریمارکس دے دے اور وہ کیس ماتحت سیشن جج رینک کے پاس زیر سماعت ہو تو پھر انصاف پر مبنی فیصلے کا اندازہ خود لگایا جاسکتا ہے ۔ کراچی کے ایس ایس پی راؤ انواز کیس میں ملک کی سب سے بڑی عدالت نے کیس کو ایسے ہینڈل کیا کہ نیچے تک تاثر گیا کہ کیس کو میرٹ پر حل کرنا ہے۔مگر جب احد چیمہ کا معاملہ سامنے آتا ہے تو ایسے سخت ریمارکس دئیے جاتے ہیں اور نیب کا دفاع کیا جاتا ہے۔جس کے بعد 11دن ریمانڈگزارنے والا احد چیمہ احتساب عدالت میں پیش ہوتا ہے اور پورے عزم کے ساتھ اپنے کیس میں خود دلائل دیتا ہے۔جج شش و پنج میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ اب کس دلیل پر اسے مزید ریمانڈ پر نیب کے حوالے کروں،فیصلہ محفوظ کرلیا جاتا ہے پھر اعلی ترین عدالت کے معزز جج صاحب کے ریمارکس یاد آتے ہیں اور مزید 15دن کا ریمانڈ دے دیا جاتا ہے۔اسپیکر اسمبلی کو توہین عدالت میں نوٹس دے دیا جاتا ہے۔ہارس ٹریڈنگ کا کیس آتا ہے تو عدالت پارلیمنٹ سے ریکارڈ منگوا لیتی ہے۔احتساب عدالت کے جج کی تعیناتی انتظامی معاملہ ہے مگر اس جج کی مدت ملازمت میں توسیع کےلئے سپریم کورٹ سماعت شروع کردیتی ہے۔ایک ایسا حساس ترین کیس،جس میں ملک کے مقبول ترین سیاسی لیڈر کی سیاسی زندگی کا فیصلہ ہونا ہے۔جس میں سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان پہلے ہی سزا سناچکے ہیں ،پارٹی صدار ت اور وزارت عظمیٰ سے نااہلی کو گلے لگاچکے ہیں۔کرپشن کیسز میں فیصلہ ہونا باقی ہے۔جب اس کا جج بھی سپریم کورٹ سے توسیع لے کر آئے گا تو فیصلہ کی توقع خود کی جاسکتی ہے۔یہ تو ایسے ہی ہے کہ ڈان لیکس میں ملک کے دو حساس ادارے نواز شریف کے خلاف فریق تھے۔نوازشریف کے خاندان تک کو گھسیٹنے کی کوشش کی گئی۔اور پھر جے آئی ٹی میں انہی دو اداروں کے افسران کو بطور ممبر شامل کردیا گیا ۔عین ممکن ہے نوازشریف پر لگائے گئے الزامات درست ہو مگر جب آپ ایک جج صرف اسی کیس کے لئے توسیع دینے کے بعد کوئی فیصلہ کرائیں گے تو پھر اس پر ایسے ہی انگلیاں اٹھیں گی ،جیسے آج اقامہ ہر گلی محلے میں زیر بحث ہے۔
یہ خاکسار خود قانون کا طالبعلم ہے،عدلیہ کی آزادی اور بالادستی کا قائل ہے۔آزاد اور مضبوط عدلیہ ترقی یافتہ معاشروں کی ضمانت ہوتی ہے۔لیکن آج احتساب عدالت کے جج کی توسیع کے معاملے کے ٹی وی چینلز پر ٹکرز دیکھ کر مجھے چند ماہ قبل بھارتی چیف جسٹس کا بیان یاد آگیا۔سپریم کورٹ آف انڈیا کے چیف جسٹس نے ماتحت عدالتوں میں ججز کی کمی پر سیکریٹری قانون یا سیکریٹری ٹو وزیراعظم کو نوٹس جاری نہیں کیا تھا۔بلکہ انہوں نے ایک تقریب میں کہا کہ ججز تعینات کرنا انتظامی معاملہ ہے اور میں وزیراعظم سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ججز کی کمی کو پورا کرنے میں کردار ادا کریں۔مجھے اس ملک کی عدلیہ بہت عزیز ہے بلکہ سب سے زیادہ مقدم ہے ۔مگر خدارا عدالتی فیصلے جذبات سے نہیں بلکہ قانون کے مطابق ہوتے ہیں۔کسی بھی افسر کو معطل کرنا یا عدالت میں بے عزت کرنا عدالت کا کام نہیں ہے بلکہ عدالت کا کام قانون کے مطابق تحریری فیصلے لکھنا ہے۔اگر ملک میں عدالت کا بھرم باقی نہ رہا تو باقی کچھ نہیں رہے گا۔ہم تباہی کی طرف جارہے ہیں۔
کالم پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998

تازہ ترین