• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے قومی سیاسی ماحول میں ہر ممکنہ ابھرنے یا ابھارے جانے والے سوالات ہی نہیں ابھرنے یاابھارے جانے والی ذہنی کیفیات کے جواب اور تجزیئے بھی ناگزیر ہیں۔ وطن عزیز اور پاکستانیوں کی بقا ان جوابات اور تجزیوں سے جڑی ہوئی ہے؟
جب ہم کسی صائب الرائے کی اصطلاح "Big Picture'' کے نتیجے میں تشکیل شدہ مہم جوئی کی نظریاتی، واقعاتی اور تصوراتی ذہنی مثلث متشکل کرتے ہیں۔ اس میں پارے کی طرح لرزتے نظریاتی، واقعاتی اور تصوراتی عناصر کی بھرمار ہوجاتی ہے۔ آیئے اس حوالے سے جنم لیتے ماحول کی ذہنی کٹھنائیوں میں اتر کر ساحل مراد پر پہنچ جانے یا کئی اور دریائوں کا سامنا کرنے کی تیاری کریں!
آج سے 8یوم پہلے عمرا ن خان نے کہا: ’’شہباز نے 9 سال میں 90کھرب کہاں خرچ کئے؟ حساب دیں‘‘ کیا عمران خان شہباز کے اس جواب سے پہلے قوم کے سامنے ان رقوم، تاریخ اور ترتیب وار تفصیل سامنے رکھیں گےجن کا حاصل جمع 90کھرب بنتا ہو؟
O۔ کیا پاکستان کی نوجوان نسل یا درمیانی عمر کے لوگوں کو سیاسی آئیڈیل کے لئے شیخ رشید کا نام تجویز کیا جائے یا جام ساقی کا؟ O۔ کیا ملکی آئین سے غداری کے کیس میں مشرف کو گرفتار اور جائیداد ضبط کرنے جیسے احکامات تاریخ کا جبر ہیں؟ وقت کا فیصلہ ہے یا انسانی سفر کا مستقبل ’’گولی‘‘میں نہیں ’’علم‘‘ میں ہے، کی امید مسلسل کی کوئی یقینی علامت؟
سینیٹ انتخابات میںمبینہ ہارس ٹریڈنگ پر کارروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے الزام لگانے والے قائدین اور پارلیمنٹرین کو 14مارچ کو حاضر ہونے کی ہدایت کی ہے۔ کیا طلب کئے گئے قائدین اور پارلیمنٹرین حضرات و خواتین مثلاً عمران خان، فاروق ستار، مریم اورنگزیب، امیر مقام، عظمیٰ بخاری، شہاب الدین، رضا ہارون، خواجہ اظہار سے لے کر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے مختلف حضرات و خواتین، ازراہِ محنت و مہربانی ’’دو کروڑ‘‘ ، ’’چارکروڑ‘‘، ’’50لاکھ‘‘ ، ’’12کروڑ‘‘ ، ’’ریڑھی پر نوٹوں کی بوریوں کا وقوعہ یا وقوعہ جات‘‘ اور ایسی دیگر ’’کروڑوں‘‘ کی ’’فگرز‘‘ میں سے کسی ایک یا ’’جسمانی ثبوت‘‘، مطلب جو الیکشن کمیشن کو بطور شہادت دکھایا جاسکے، لا کر، پاکستانی عوام کے سیاسی اعتماد کو ’’ریپ‘‘ کرنے کی ایسی ’’مقدس نیکیوں‘‘ کو انجام تک پہنچائیں گے جن کی بنیاد ’’بدی‘‘ پررکھی گئی ہے؟
کیا پاکستان میں متوقع منتخب اقتدار تک پہنچنے کے لئے جہاں اورجس قسم کی Big Picture کے خطوط ہر وقت تیار کئے جاتے رہتے ہیں، جس تصویر کو Aپلان، Bپلان،Cپلان اور Dپلان کے خانوں کی ضرورتوں کے مطابق تیار کرکے رکھا جاتا ہے، کیاکوئی فرد، جماعت، مذہبی گروہ یا نظام عدل کی عظمتوں کے امینوں میں سے اس امکانی Big Picture کے ان ’’فوٹوگرافروں‘‘ کے ان ’’دفتروں‘‘ کی نام لے کر نشاندہی کرسکتا ہے جہاں وہ’’کام‘‘ کر رہے ہیں۔
2018کے عام انتخابات میں عوام ’’آئین کی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل‘‘ کے حق میں فیصلہ دے کر اسے ’’انقلابی‘‘ قومی ریفرنڈم ثابت کردیںگے، کیا نواز شریف کا یہ دعویٰ درست ثابت ہوگا؟
سینیٹ میں جب چیئرمین رضاربانی اور پاکستان پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما فرحت اللہ بابر نے اپنے خطاب میں ’’آئین کی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل‘‘ پر اسرار سے قومی بقاکے محفوظ سفر پر زور دیا اور اس قسم کی باتیں کیں، جیسے ’’کاش میں اس طرح سینیٹ سے رخصت ہوتا کہ اسپیکرکو عدالت کی طرف سے توہین کا نوٹس وصول نہ ہوا ہوتا، وقت نہیں، وگرنہ میں چیف جسٹس سے ملاقات کرتا۔ (رضاربانی) یاجیسے ’’ایسا نہ ہو کہ آنے والے انتخابات عدلیہ کے بارے میں ریفرنڈم بن جائیں۔ ریاست کے اندر ریاست ہے ایک Dejure (قانونی) اور دوسری Defacto (حقیقی اور عملی) قانونی ریاست کی بات نہیں چلتی، بات اس کی چلتی ہے جو پس پردہ اصلی ریاست ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ احتساب کے سلسلہ کے ایک مرحلے پر میری اپنی جماعت بھی اس نصب العین سے پیچھے ہٹ گئی ۔‘‘ (فرحت اللہ بابر) پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف علی زرداری نے پارٹی کے دونوں مقتدر ترین، سینئر ترین اور عوامی شہرت کے تناظر میں بہترین رہنمائوں کے حوالے سے جو اسلوب ِ بیاں، اور جوعملی طرز ِ عمل اختیار کیا، کیا کوئی عام پاکستانی اور کوئی عام قلمکار انہیں نظریاتی کٹہرے میں یاا پابجولاں لا کے پوچھ سکتا ہے۔ ’’سیاست کی عملیت پسندی اپنی جگہ مگر ایک ذوالفقار علی بھٹو، ایک ترقی پسند تاریخ اور ایک محفوظ قومی مستقبل کی منزل بھی ہوتی ہے، ضمیر کی عدالت میں پوشیدہ صدائوں کو جرأت اظہار کی جان لیوا آزمائشوں کے میدان میں لے آنے والوں کے ساتھ، اس توہین آمیز لب و لہجے اوررویے کا آپ کو ’’آئین کی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل‘‘ کی کس شق کے تحت استحقاق حاصل تھا؟ "Who are you sir!"
کیا پاکستان پیپلزپارٹی کی وفاقی اور صوبائی قیادتوں میں کوئی ایک ایسا ’’مائی کا لال‘‘ موجود ہے جو رضا ربانی اور فرحت اللہ بابر قسم کے بے حرص و بے خوف کرداروں کی طرح شریک چیئرپرسن کے سامنے کھڑا ہو کے اس زمینی سچائی کی نقاب کشائی کرسکے۔ اس کا تابناک چہرہ، اس کے کسی ظاہری اورباطنی مساموں سمیت انہیں دکھائے یعنی جناب! آپ پاکستانی عوام کی قیادت اور ان کے صد واجب الاحترام ووٹ کے جس سنگھاسن پر تشریف رکھتے ہیں، وہ ذوالفقار علی بھٹو اور بی بی شہید کے نظریات کا صدقہ ہے۔ آ پ یقین کرلیں آپ کی قید و بند کا شجاعانہ ریکارڈ بھی اسی صدقے عوام کے دلوں کی دھڑکن ہے۔ آپ فی نفسہٖ اپنی ذات میں کسی پاکستانی کے لئے سیاسی عنوان یا سیاسی زاد ِ راہ نہیں، اس لئے برائے مہربانی یاد رکھیں صدقہ شکریہ کے ساتھ قبول کرکے ان لوگوں کو احترام دیا جاتا ہے جنہوں نے اس صدقے کی ہمیشہ لاج رکھی ہو۔ مطلب رضاربانی اور فرحت اللہ بابرجیسے انمٹ بااصول سیاسی شخصیات سے ہے! آپ جب بیان کردہ ان سب نظریاتی، واقعاتی اور تصوراتی عناصر کے جوابات اور تجزیوں کی کٹھنائیوں سے گزر جائیں، اگر گزر جائیں، تب راقم الحروف کو کامیابی کی رسید ضرور یجئے گا۔
اور اب گزرے ہفتے کے ’’چیلنج‘‘ ’’نوازشریف VS آصف زرداری‘‘ سے پیداشدہ اس سوال کا جواب ڈھونڈتے ہیں جس کے نتیجے میں آج آصف زرداری نوازشریف کی بار بار ’’آفرز‘‘ کے باوجود ان کےنزدیک پھٹکنے پر بھی آمادہ نہیں۔ اس نتیجے کا تعلق پیپلزپارٹی کی تسلیم شدہ تاریخی مظلومیت اور ترقی پسندوں کا مقابلہ کرنے کے لئے دائیں بازو کی جانب اولین تیارکردہ شخصیت نواز شریف کے سیاسی ریکارڈ سےہے جس میں نواز شریف نے پیپلزپارٹی بالخصوص بی بی شہید کے ساتھ مظالم میں کبھی کوئی ممکنہ کسر چھوڑی نہیں۔ چنانچہ آج آصف علی زرداری اس ’’تاریخی مظلومیت‘‘ کوقومی مقاصد کی خاطر توازن کےپلڑے میں لارہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے دامن کے ساتھ نہیں لٹکے ہوئے۔ انہیں سب ترقی پسندوں کی مانند پہلے روزسے سو فیصد معلوم تھا۔ یہ دائیں بازو والوں کی باہمی لڑائی ہے۔ اس کا آغاز اس وقت ہوا جب پرویز مشرف نے کام دکھایا اور دائیں بازو والوں کو ضیاء کےبعد ’’آئین کی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل‘‘ یاد آیا۔ عمران خان اس باہمی لڑائی کا دوسرا بڑا کردار ہے جودائیں بازو ہی کی صفوں میں لاکھڑا کیا گیا، آخر ترقی پسند اس تصادم میں اپنا سر کیوں پھڑوائیں؟
کالم پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998

تازہ ترین