• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سوشل سائینسز ...آج کی اہم ضرورت

نجم الحسن عطا

عالمی اور ملکی سطح پر یہ بحث رہی ہے کہ سوشل سائنسز کے بغیر تعلیمی نظام اچھے انسان پیدا نہیں کرسکتا۔ عصر حاضر میں اس وقت تعلیمی نظام کا انحصار STEMپر ہے باالفاظ دیگر سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی ہی تعلیم حاصل کرنے کی کلید ہے۔ حکومت کی طرف سے بھی انہیں موضوعات پر زیادہ سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔

 اس میں کوئی شک کا شائبہ تک نہیں کہ خالص سائنس کے موضوعات بہت اہمیت کے حامل ہیں لیکن اس کا قطعاً مطلب نہیں کہ آپ سوشل سائنسز کو سرے سے بھول جائیں دنیا میں تمام دانشوروں اور فلاسفروں کا تعلق سوشل سائنسز ہی سے ہے دراصل سوشل سائنسز کا آغاز اگر اس کی بنیادی افادیت سے کریں تو یہ عیاں ہوتا ہے کہ سماجی اور بنیادی دیکھ بھال اور انصاف کے نظام کا سوشل سائنسز سے گہرا تعلق ہے آج کمرشل دور میں بھی دیکھیں تو تمام کاروبار کے رحجانات بھی سوشل سائنسز کے بغیر ترقی نہیں کرسکتے۔ 

 فلاسفی نے سائنس کو راستہ دکھایا ہے۔ مختصراً اگر ہم سوشل سائنس کی تعریف کریں تو اس کا مرکزی خیال معاشروں کا مطالعہ ہے اور افراد کے آپس میں تعلقات میں ہم آہنگی اور تضادات دونوں پر بحث کرتی ہے سوشل سائنس کا دائرہ علم بہت وسیع ہے معاشیات، پولیٹکل سائنس، سوشیالوجی، تاریک ارکیالوجی یعنی آثار قدیمہ کا مطالعہ اور علم انسان بھی اس میں شامل ہے۔

تمام بزنس اسکولوں میں زیادہ تر نصابی ذریعہ سوشل سائنس ہی ہے۔ خالص سائنس اگر مادیت ہے تو سوشل سائنس اس کی روح ہے۔ اگر تعلیمی نظام میں توازن لانا ہے تو سوشل سائنسز کی ترقی کے لیے زیادہ بجٹ درکار ہے سوشل سائنسز میں موسیقی ، مصوری، شاعری بھی شامل ہے۔

 حالانکہ تینوں فنون کی پشت پر ریاضی، فزکس اور جیومیٹری ہے سوشیالوجی کے بغیر سماجی ترقی اور ثقافت کا فروغ ممکن نہیں صرف اکنامک معاشرہ روبوٹ پیدا کرتا ہے چنانچہ دنیا بھر کے اسکالرز خالص سائنس کے ساتھ ساتھ سوشل سائنسز پر زور دے رہے ہیں۔

 حقیقت میں یہ دیکھا گیا ہے کہ جب بھی سوشل سائنسز کا نام لیا جاتا ہے تو اس کا یہ تصور ابھرتا ہے کہ سماجی ورکر یاکسی پروفیسر کی بات ہورہی ہے۔ تعلیم میں اس قسم کے رویے کو غلط فہمی سمجھا جاتا ہے اور یہ فکری مغالطہ ان لوگوں نے پیدا کیا ہے جو دنیا کو متحرک نہیں دیکھنا چاہتے۔

دنیا بھر امن کے لیے بھی سوشل سائنسز بنیادی کردار ادا کرتی ہے یہ زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھاتی ہیں تہذیبوں کا ارتقا سوشل سائنسز کے بغیر ممکن نہیں ہے دو صدیوں میں علم نفسیات نے ذہن کے کئی روزن روشن کردئیے ہیں۔

 فلاسفی نے سائنس کو راستہ دکھایا ہے۔ مختصراً اگر ہم سوشل سائنس کی تعریف کریں تو اس کا مرکزی خیال معاشروں کا مطالعہ ہے اور افراد کے آپس میں تعلقات میں ہم آہنگی اور تضادات دونوں پر بحث کرتی ہے سوشل سائنس کا دائرہ علم بہت وسیع ہے معاشیات، پولیٹکل سائنس، سوشیالوجی، تاریخ ارکیالوجی یعنی آثار قدیمہ کا مطالعہ اور علم انسان بھی اس میں شامل ہے۔ 

فلاسفی اس کا جزو حقیقی ہے اگر ہم سوشل سائنسز کو STEMسے موازانہ کریں تو سوشل سائنس اندر کی دنیا کو روشنی سے منورکرتی ہے اور دانائی یہ بتاتی ہے کہ کس طرح سائنس اور اختراعات کو معیار زندگی بلند کرنے کے لیے بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔ بعض ماہرین سوشل سائنس کو سائنس کی سائنس کہتے ہیں۔ خاص طورپر سوشل سائنس دان پوری طرح کائنات کے بارے میں تجزیہ پیش کرتے ہیں ان کی پیش گوئیاں ہی سائنس کا راستہ بنیں اس ضمن میں بہت سے تجزیے درست ثابت ہوئے۔

اگر ہم سوشل سائنس کی تعریف کریں تو اس کا مرکزی خیال معاشروں کا مطالعہ ہے اور افراد کے آپس میں تعلقات میں ہم آہنگی اور تضادات دونوں پر بحث کرتی ہے سوشل سائنس کا دائرہ علم بہت وسیع ہے معاشیات، پولیٹکل سائنس، سوشیالوجی، تاریخ ارکیالوجی یعنی آثار قدیمہ کا مطالعہ اور علم انسان بھی اس میں شامل ہے۔

یہ وہ لوگ ہیں جو معاشرے کی ذہنی سطح کو اوپر لے جاتے ہیں اکثر لوگ کہتے ہیں کہ علامہ اقبال سمجھ نہیں آتے اس میں علامہ اقبال کا قصور نہیں ہے یہ ہمارا تعلیمی نظام ایسا ہے کہ ہم علامہ اقبال سمجھ نہیں پاتے یہی بات فیض احمد فیض کے لیے کی جاتی ہے اس کے معنی یہ ہوئے کہ ہمارا تعلیمی نظام بالکل ناقص ہے سوشل سائنسٹسٹ دنیا کے بڑے بڑے مسائل کو حل کرتے ہیں۔ 

مثلاً آج کے دہشت گردی کا مسئلہ اس کا حل اسلحہ کو استعمال کرنے سے نہیں ہے یہاں دانش مندی کی ضرورت ہے متبادل انرجی کا مسلہ ہو یا سائبر سیکورٹی ہو ان کے معاشرے پر شدید اثرات مرتب ہوئے ہیں اور ان کا حل صرف سوشل سائنس دانوں کے پاس ہے۔ اگر اسلحہ ساز ان کی نہ سنیں تو الگ ایک ایسے نظام کی بات ہے جو ساری دنیا پر مسلط ہو۔ ایک بات قابل غور یہ بھی ہے کہ وبائی بیماریاں پھیل جائیں تو سوشل سائنس اس کے نجات کے راستے بتاتے ہیں۔ 

ڈرگز سے دنیا تباہ ہورہی ہے اس کے خلاف تحریری اورعملی مزاحمت بھی سوشل سائنٹسٹ کرتا ہے ڈرگز سے معاشروں اور نوجوانوں کو کیا نقصان ہورہا ہے اس کی مزاحمت بھی سوشل سائنس دان کررہےہیں۔ ڈاکٹروں کو یہ علم ہونا چاہے کہ سوشل سائنس دان ہی دانش سے لوگوں کو قائل کرسکتے ہیں کہ ہاتھ صاف رکھنا یا معاشرے کو آلائشوں اور سالڈویسٹ سے دور رکھنے کے کیا طریقہ ہائے کار ہیں۔ انسانوں کے طرز عمل پر اسکالرز اور دانشوروں کے اثرات مثبت انداز میں مرتب ہوتےہیں۔

 کسی بیماری کسی حادثے مثلاً سیلاب کے دنوں میں انسانی جانوں کو بچانے کے سول سوسائٹی اور سماجی کارکن حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان مسائل کو کس طرح اور کتنی جلدی حل کرنا ہے ایک زمانے میں سوشل سائنس دان سیاسی پارٹیوں میں ہوتے تھے وہ ایک نظریے کے تحت عام آدمی کے لیے تبدیلی کی بات کرتے تھے لیکن آج ایسا نہیں ہے اگر کوئی ریاست ناکام ہوجاتی ہے تو یہ سوشل سائنس دان ہی بتاتے ہیں کہ ریاست کو کیسے ’’ری بلڈ‘‘ کیا جاسکتا ہے۔

سوشل سائنس دان تمام ملکوں میں کینسر کی نجات کے لیے کیا کرنا چاہیے منافع کو کتنا رکھنا چاہیے تاکہ انسانی دکھ کم ہوں۔ اسی لیے برطانیہ میں سوشل سائنس دان نینشل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ مل کر کینسر کو دور کرنے کے طریقہ ہائے کار پر مباحثہ کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان افواج ہو یا برطانیہ کی وہ پولیٹکل سائنسٹسٹوں کے ساتھ گفتگو جاری رکھتے ہیں تاکہ ڈپلومیسی میں کس طرح کام کیا جائے۔ 

سوشیالوجسٹ، میڈیکل ریسرچ کونسل کے ساتھ مل کر سوچتے ہیں کہ کس طرح جن لوگوں کی نیند اڑ جاتی ہے ان کی نیند پوری کی جائے۔ اس کے لیے نفسیات دانوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ یونیورسٹیوں میں تھنک ٹینک بنائے جاتے ہیں اب تو سیاسی پارٹیاں بھی تھینک ٹینک بناتی ہیں۔ بڑی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ برطانیہ میں ہوم آفس انجنینروں ، آٹو مینوفیکچررز کو اکٹھا کرتا ہے اور سوشل سائنس دانوں سے مشورہ لیا جاتا ہے کہ گاڑیاں چوریاں نہ ہوں اس بارے میں وہ اپنی آرا دیتے ہیں۔ 

کرمنالوجسٹ جو جرائم کی تعلیم سے لیس ہوتے ہیں کہ کس طرح کی کاریں بنائیں جائیں تاکہ زیادہ کاریں چوری نہ ہوں۔ تھینک ٹینک بناتے ہیں پبلک پالیسیوں کو کیسے پیش کیا جائے، پروپیگنڈہ کیسے جائے۔ ہائر ایجوکیشن کے خدوخال کیا ہونے چاہیں، فلاحی ریاست کیسے بنتی ہے، دولت کی منصفانہ تقسیم کیسے کی جاتی ہے کرنسی کی قدر کو کیسے مستحکم کیا جائےاس کے برعکس STEMکا کام یہ ہے کہ معاشرے کی ضرورت کیا ہےاور کس طرح اسے پورا کیا جائے دانشور کہتے ہیں کہ STEMاور سوشل سائنس کے مکس ہی سے دنیا چل سکتی ہے۔

 باہر کے ملکوں میں سوشل سائنسز کو پڑھایا جاتا ہے اس وقت دنیا میں بڑے بڑے نام ہیں جو سوشل سائٹسٹ میں جن میں نوم چمکی ، جوزف اسٹک گلنٹز، نائومی کلائن، اردن دھتی رائے، قبل ازین کارل مارکس، روسو علامہ اقبال، ابن خلدون ، ابن رشد، ابن عربی، یاں پال ساترےہے ان سب کی رائے ہے کہ خالص سائنس پر زور دینے سے دھرتی پر رہنے والوں کو زیادہ فائدہ نہیں ہوگا۔

تازہ ترین