• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’اہل‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے۔ بیوی کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے اہل و عیال۔’’نا اہل‘‘ اردو زبان کالفظ ہے۔ سیاست دانوں کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے جہانگیر ترین ایک بار اور نواز شریف دوبار نااہل قرار دیئے گئے۔ اِسی لفظ کی برکت سے ’’مجھے کیوں نکالا گیا‘‘ کا نعرہ مستانہ تخلیق ہوا۔ نہال نےبھی جب ’’اہل‘‘ پر تنگی زمین کا فرمان ِ ذی شان جاری کیا تو یہی لفظ سانپ کی طرح اُس کے ارد گرد پھنکارنے لگا، طلال و دانیال کے آس پاس بھی ان دنوں اِسی لفظِ بے نقط کے بگولے گھوم رہے ہیں مگر لوگ کہتے ہیں کہ اُن سے پہلے شاید وزیر خارجہ کا نمبر لگنے والا ہے۔ شور برپا ہے کہ خانہ عدل میں پی ٹی آئی کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری عثمان ڈار کی درج کردہ شکایت پر’’ انصاف گاہِ اسلام آباد‘‘ کوئی تاریخی فیصلہ لکھنے والی ہے۔ محترم وزیر صرف خارجہ کے ہی نہیں واپڈا کے وزیر باتدبیر بھی رہے ہیں۔ نون لیگ کے بزرجمہروں میں ان کا نام ِنامی اسم ِگرامی چوہدری نثار علی خان کے مقام و مرتبہ سے کسی طرح کم نہیں بلکہ کبھی کبھی اُن سے بھی بڑھ جاتا ہے۔ ان دونوں عظیم المرتبت شخصیات کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔ یہ ایک ہی ندی کے دو کنارے ہیں۔ دونوں یہ بات بھی جانتے ہیں کہ ندی کے کنارے آپس میں کبھی نہیں مل سکتے۔ مخالفین کہتے ہیں کہ جناب نے واپڈا کی بجلیوں اور پانیوں پر یادگار نقوشِ پا چھوڑ ےہیں ۔پہلا کارنامہ جسے بھلایا نہیں جا سکتا وہ اُن کی کفایت شعاری کی لازوال مثال ہے۔ کئی سال پہلے واپڈا کو ورلڈ بینک نے ٹرانسفارمر لگانے کے لئے اربوں روپے کا قرضہ دیا تھا، جو ابھی تک بالکل محفوظ پڑا ہے۔ ایک روپیہ بھی خرچ نہیں ہوا۔ یعنی کسی کی گرد بھی نہیں پڑی اُس پر۔ اتفاق سے اُس وقت کے اکنامکس افیئر ڈویژن کے سمجھ دار سیکرٹری نے وزیراعظم کو سمری لکھ دی تھی کہ ہمیں ٹرانسفارمر کے سلسلے میں ورلڈ بینک کو جرمانہ دینا پڑ رہا ہے مگر اہلِ نظر نے سمری راستے میں روک دی اور سیکرٹری صاحب سے ہمدردانہ انداز میں کہا کہ یہ سمری بڑے لوگوں کو ناراض کر سکتی ہے اور بڑے لوگوں کی ناراضی کا مفہوم تو آپ سمجھتے ہیں۔
ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے پندرہ اضلاع کے لئے پانچ سال پہلے دو سو بیس کے وی اے، پانچ سو پچاس کے وی اے اور سات سو پچاس کے وی اے کے گرڈ اسٹیشن بنانے کے لئے اربوں ڈالر کا قرض دیا تھا۔ مخالفین کے بقول یہ سرمایہ بھی ان کے مزاجِ کفایت شعاری کی بدولت اتنی حفاظت سے رکھا گیا کہ ابھی تک ایک گرڈ اسٹیشن کی زمین تک نہیں خریدی گئی۔ اللہ اللہ۔ اس سلسلے میں پاکستان کو ابھی تک تو صرف دو سو پچاس ملین ڈالر جرمانہ ادا کرنا پڑا ہے۔ ایک اور کمال دیکھئے کہ داسو ڈیم تعمیر کے آخری مراحل میں ہے۔ اُس کے لئے جو ٹرانسمیشن لائن بچھانی تھی اُس کا آغاز بھی نہیں ہوا۔ مخالفین کے مطابق شاید انہی کارہائے نمایاں کے سبب انہیں وزارتِ خارجہ کا قلم دان بھی سونپ دیا گیا۔ ان کی خارجہ پالیسی کے کیا کہنے۔ بالکل وہی پالیسی یہاں بھی نافذ کردی تھی جو کئی برسوں سے اُن کے خانہ دل میں نافذالعمل تھی۔ اِس پالیسی کی بدولت گزشتہ روز قومی اسمبلی کی عمارت میں مولانا فضل الرحمٰن نے اُن پر بہت تنقید کی۔ ہاں تو بات شروع ہوئی تھی خواجہ آصف کی ’’نااہلی‘‘ کے مقدمے سے جس کے لارجر بینچ میں شمولیت سےایک جج صاحب نے معذرت کر لی ہے۔
عدالت میں خواجہ آصف کے خلاف دستاویزات میں الزامات کے7 نکاتِ دل پذیر اٹھائے گئے ہیں۔ پہلا الزام :وزیرِ موصوف دبئی سے ماہانہ16 لاکھ تنخواہ لے رہے ہیں۔ ایک غیرملکی کمپنی سے روزانہ8 گھنٹے کام کرنے کا معاہدہ کر رکھا ہے۔ دوسرا الزام :غیرملکی تنخواہ2012 اور2013 کے انکم ٹیکس گوشواروں میں ظاہر نہیں کی گئی۔ تیسرا الزام :انہوں نے اپنے غیرملکی اثاثے دو ہزار بارہ کے اثاثہ جات میں ظاہر نہیں کئے۔ چوتھا الزام :اپنے غیرملکی اکائونٹ دو ہزار تیرہ کے انتخابات کے کاغذاتِ نامزدگی میں درج نہیں کئے۔ پانچواں الزام:اپنی غیرملکی آمدن دو ہزار بارہ اور تیرہ کے انکم ٹیکس ریٹرنز میں ظاہر نہیں کی۔ چھٹا الزام:اپنے گوشواروں میں جو ایک کروڑ انچاس لاکھ کے ڈیونڈنڈ تسلیم کئے اس کے متعلق مالی ڈکلیئریشن خاموش ہے۔ یہ کروڑوں کا سرمایہ کہاں سے آیا۔ ساتواں الزام:بحیثیت ایم این اے اور بحیثیت وزیر کروڑوں روپے کی بیرونی ٹرائزیکشن وصول کیں مگر اس رقم کا کوئی سیاق و سباق ظاہر نہیں کیا۔
شاید اِسی لئے نااہلی کے فیصلے سے پہلے ہی قومی احتساب بیورو ’’نیب‘‘ کی جانب سے موصوف کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزام میں تحقیقات کا آغاز کردیا گیا ہے۔ یعنی نیب واپڈا کی طرف متوجہ ہو چکی ہے۔ اب یقیناً نیلم جہلم پروجیکٹ کی تحقیقات بھی ہوں گی کہ چند ارب سے شروع ہونے والا منصوبہ کھربوں تک کیسے جاپہنچا۔ اُس پروجیکٹ کے بہتے ہوئے سونے کے پانی میں کس کس نے ہاتھ دھوئے۔ ہر مہینے بجلی کے بل میں نیلم جہلم سرچارج کے نام سے جو پیسے کئی برسوں سےقوم ادا کر رہی ہے وہ کہاں جارہے ہیں۔ واپڈا کے اربابِ اختیار اس سلسلے میں بالکل خاموش ہیں۔
کالم پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998

تازہ ترین