• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب دو بجے ایک جاننے والے کا فون آیا کہ ان کے کسی عزیز کےدل میں کچھ مسئلہ ہورہا ہے اس وقت ہم لاہور کے ایک بہت بڑے پرائیویٹ اسپتال کی ایمرجنسی میں ہیں، جہاں ڈیوٹی پرموجود جونیئر ڈاکٹرز فوری طور پر کچھ ٹیسٹ کرانا ضروری سمجھ رہے ہیں جو اس وقت نہیں ہوسکتے جبکہ اتوار کو بھی تعطیل ہوتی ہے، مشینیں بند ہیں کوئی آپریٹر بھی نہیں۔ اب یہ پیرکو ہی ہوسکیں گے، لہٰذا وہ کہہ رہے ہیں آپ اسپتال میں کمرہ لے کر داخل ہوجائیں،اس وقت ہم ضروری علاج کردیتے ہیں،البتہ یہ طے نہ ہوسکا کہ مسئلہ دل میں یا پھر کوئی اور ہے۔ اسی طرح حافظ آباد کے ایک رہائشی نے فون کرکے یہ بتایا کہ وہ اپنے بھائی کو لے کر ایک بڑے سرکاری اسپتال آیا ہوا ہے، جہاں ایمرجنسی والے کہہ رہے ہیں کہ انہیں ابھی داخل نہیں کرسکتے کیونکہ اتوار کو آئوٹ ڈور بند ہوتا ہے۔ پہلے آپ اس کا آئوٹ ڈور میں چیک اپ کرائیں اس کے بعد اگر سینئرڈاکٹرز یا پروفیسر کہے گا تو ہم ایمرجنسی میں داخل کرلیں گے۔ ویسے بھی ہم جو ٹیسٹ اس کے کرنا چاہتے ہیںاس وقت سی ٹی سکین اور دیگر لیبارٹری ٹیسٹ ممکن نہیں کیونکہ اتوار ہے۔ حکومت دعوے تو بہت کرتی ہے کہ ہم نے سرکاری اسپتالوں کو اپ گریڈ کردیا ہے وہاں ہر سہولت ہے، مگر دوسری طرف حالات یہ ہیں کہ اتوار یا کسی بھی سرکاری تعطیل کے دن سرکاری کیا کسی پرائیویٹ اسپتال میں سی ٹی سکین /ایم آر آئی /الٹراسائونڈ اور دیگر ٹیسٹ نہیں ہوتے۔ حالات یہ ہیں کہ ادھر سرکاری تعطیلات کا اعلان ہوا ادھر آپریشن ملتوی ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ جناب یہ صرف سرکاری اسپتالوں کی حالات نہیںہےبلکہ پرائیویٹ اسپتالوں میں بھی یہی صورتحال ہے جو حکومت کے قابو میں نہیں ہیں۔
اس میں شک نہیں موجودہ حکومت صحت کی سہولتیںعوام تک پہنچانے میں سرگرم ہے، مگر اس کی ترجیحات اور منصوبہ بندی درست نہیں۔ ہم کسی ادارے کو اربوں روپےاور فری ہینڈ دے دیتے ہیں جتنا مرضی اسٹاف ، جتنی مرضی تنخواہ پر رکھ لیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ دوسری طرف سرکار کے کئی بڑے اسپتالوں کو ہم نظر انداز کردیتے ہیں۔ بڑی بڑی عمارتیں اور مہنگی مشینیں لگانے سے عوام کو صحت کی سہولت نہیں مل جاتی۔ اسپتال کی ایمرجنسی سروس ایسی جگہ ہے جہاں کوئی شخص خوشی سے نہیں آتا بلکہ صحتمند افراد تو اسپتال کے پاس سے گزرنا بھی پسند نہیں کرتے۔ لاہور میں کوئی اسپتال دوپہر دو بجے کے بعد کینسر کے مریضوں کی ایمرجنسی لینے کو تیار نہیں۔ابھی پچھلے دنوں چھوٹے میاں صاحب نے لاہور میں ایک بڑا کینسر کا فری اسپتال بنانے کا اعلان کیا ہے اس پر اربوں روپے خرچ کرنے کے بجائے لاہور میں قائم انمول اور میو اسپتال کے کینسر وارڈز کو اپ گریڈ کردیا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔ اسی طرح حکومت پی کے ایل آئی پر20ارب سے زیادہ کی خطیر رقم خرچ کررہی ہے اور بھاری بھرکم تنخواہوں پر ا سٹاف رکھا جارہا ہے۔ اس کے بجائے تمام ٹیچنگ اسپتالوں میں گردہ اور جگر کے وارڈز کو اپ گریڈ کردیتے تو زیادہ مناسب تھا۔ اب بھی پی کے ایل آئی کو ایک بڑے جنرل اسپتال میں منتقل کردینا چاہئے تا کہ شہر لاہور کے لوگوں کو ایک بڑے جنرل اسپتال کی سہولت میسر آسکے۔جیسا کہ ہم نے شروع میں کہا ہے کہ ہمیں حکومت کی نیت پر شک نہیں لیکن ترجیحات اور وسائل کے حوالے سے ٹھوس منصوبہ بندی نہیں، غالباً جو لوگ بھی پلاننگ کرتے ہیں ان کو زمینی حقائق کا علم نہیں۔ کسی بھی اسپتال کو اپ گریڈ کرنے میں نئے اسپتال بنانے کے مقابلے میں لاگت کم آئے گی۔ اس طرح وسائل بہتر انداز میں خرچ ہوںگے۔
دوسری اہم بات کہ کوئی اسپتال اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک وہاںعلاج کرنے والے بہترین تربیت یافتہ ڈاکٹرز موجود نہ ہوں۔ حکومت تاحال کسی بھی سرکاری اسپتال میں پروفیسرز، ایسوسی ایٹ پروفیسرز اور اسسٹنٹ پروفیسرز کے رائونڈ کو یقینی نہیں بناسکی، اگر شعبہ کا سربراہ شام کو رائونڈ کرے گا تو اسپتال کا عملہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرے گا۔
جناب وزیر اعلیٰ اس وقت تمام سرکاری اور پرائیویٹ اسپتالوں میں انفیکشن کاریٹ بہت ہائی ہے۔ آپ چاہےآپریشن کردیں، مشینری بھی جدید لگا دیں، مگر جب تک انفیکشن کنٹرول نہیں کریں گے کچھ نہیں ہوگا۔ آپ اس حوالے سے رپورٹ منگوا کر دیکھیں، کئی اسپتالوں میں صرف مریض انفیکشن کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے۔پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن نے جنوری 2018سے اب تک 427علاج گاہوں کو انفیکشن ، ایمرجنسی کی سہولتوں، صفائی، بلڈ بنک، آگ اور دیگر حادثات کی صورت میں ہنگامی انتظامات نہ ہونے، اسپتال کے فضلات کو صحیح طرح ٹھکانے نہ لگانے کی شکایات پر کارروائی کی اور 292 آپریشن تھیٹرز کو ہر طرح کی سرجری کے لئے بند کردیا، جبکہ 383اسپتالوں کو صحت کی سہو لتوں کےکم از کم معیارپر عملدرآمد نہ کرنے پر نوٹس جاری کئے گئے اور 27لاکھ روپے سے زائد جرمانے کئے گئے۔
ذرا دیر کو سوچیں پچھلے 70برس سے ہمارے ملک میں مریض انفیکشن کی وجہ سے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو کر اپنی جان سے ہاتھ دھورہے ہیں، پی ایچ سی نے واقعی عوام اور حکومت کی آنکھیں کھول دی ہیں، اس کا کریڈٹ اس ادارے کے سربراہ ڈاکٹر محمد اجمل خان، ڈاکٹر ریاض احمد تسنیم، بریگیڈئر شاہد، ڈاکٹر ریاض چوہدری اور ٹیم کو جاتا ہے جنہوں نے دن رات ایک کرکے عطائیت کے خلاف اور اسپتالوں میں انفیکشن کے خلاف جہاد شروع کیا ہوا ہے۔ پھروہی بات کہ کیا انسان کی بیماری اورزخمی ہونے کیلئے کوئی وقت مقرر ہوتا ہے۔ ہم بیماریوں کو کنٹرول کرسکتے ہیں اور اس میں کمی لاکر لوگوں کو بیماریوں سے بچایا جاسکتا ہے۔ صرف ہاتھ دھو کر ہی کھانا کھالیا کریں تو آپ بے شمار بیماریوں سے محفوظ ہوجاتے ہیں اور دوسرے پینے کا صاف پانی میسر آجائے۔ ہیپاٹائٹس بی، ٹائیفائڈ، فلو اور نمونیہ کی ویکسین لازمی کردی جائے تو یقین کریں 80فیصد بیماریاں ختم ہوجائیں گی اور سرکاری اسپتال خالی ہو جائیں گے۔ پرائیویٹ اسپتالوں کی بھی دکان بند ہو جائے گی۔ یقین کریں اگر دوا سازی میں اربوں منافع نہ ہوتا تو آج پاکستان میں جگہ جگہ فارما سوٹیکل کمپنیاں اور دوا سازی کے ادارے نہ قائم ہوتے اس کیلئے آپ پچھلے دس برسوں کا جائزہ لے لیں بے شمار نئے دوا ساز ادارے قائم ہوچکے ہیںجو کئی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں ملکی اور غیر ملکی دوا ساز ادارے 650کی تعداد میں کام کررہے ہیں۔ ملٹی نیشنل صرف 23کمپنیاں ہیں۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے بارے میں آج بے شمار تحفظات ہیں۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے بالکل درست کہا ہے کہ ادویہ ساز اداروں اور کمپنیوں کے پاس از خود قیمت بڑھانے کا اختیار نہیں۔ ڈرگ پالیسی سے پہلے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کمپنیوں سے ملی ہوئی تھی اور درخواستیں جان بوجھ کر زیر التوا رکھتی۔ اسی ملی بھگت کے تحت کمپنیوں کو عدالتوں سے ریلیف دلوایا جاتا رہا۔ انہوں نے ڈریپ کو ہدایت کی کہ تمام درخواستوں کا فوری فیصلہ کرے۔ عزیز قارئین! آپکو یاد ہوگا کہ 2013میں ادویہ ساز اداروں نے اپنی ادویات کی قیمتوں میں 15فیصد اضافہ کردیا تھا پھر سابق وزیراعظم نواز شریف کی ہدایت پر واپس لے لیا گیا تھا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ڈرگ ایکٹ میں جو ترامیم کی ہیں ان کو اسمبلی سے فوری پاس کراکے نافذ کیا جائے۔
دوسری طرف پاکستان فارما سیوٹیکل ایسوسی ایشن اور پاکستان کیمسٹ اینڈ ڈرگ ایسوسی ایشن سمیت فار سیکٹر کی تمام تنظیموں نے ڈرگ ایکٹ 2017میں کی جانے والی متفقہ ترامیم اسمبلی سے منظور نہ کروائے جانے کے خلاف، میڈیکل اسٹوروں اور ادویہ ساز فیکٹریوں نے حکومت کو ہڑتال کا نوٹس دے دیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے آج تک کیوں نہیں ڈرگ ایکٹ 2017کی ترامیم کو اسمبلی سے منظور کرایا گیا؟ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ میڈیکل اسٹورز ہڑتال کی وجہ سے بند ہوئے تو لوگوں اور مریضوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
کالم پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998

تازہ ترین