• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سینیٹ کے حالیہ انتخابات کے موقع پرجب کہا گیا کہ ’منڈی‘ لگی ہوئی ہے تو اصحابِ فکر و نظر کے دل دہل کر رہ گئے۔ انتخابی عمل تو جمہور کو حقِ حکمرانی تفویض کرنے کا ایسا استعارہ ہے کہ جس کے سنگ امید پیہم، ولولے، عزم اور خوشبوئے زلف یار سے تازہ ہوتے ارمان انگڑائی لینے لگتے ہیں۔ یہ عمل امیدِ نو بہار سے ہمکنار ہونے کا نام اور دارو رسن کو چھوتے عاشقانِ وطن کے ارمانوں کے لبِ بام پر آنے کا ایک بنیادی مرحلہ ہے۔ لیکن صفا و بے ریا یہ مرحلہ اگر ریب و تشکیک کی نذر، آلائشوں و تہمتوں سے تر اور اُمید و یاس کی آباد ہوتی دنیا کیلئے جیسے تارِ عنکبوت بن جائے.....تو کیا وہ سرفروشانِ چمن جنہوں نے لیلائے جمہوریت کی مست و مسحور آغوش میں دم لینے کی خاطر تختہ دار کو چوما تھا، جنہوں نے عوامی حکمرانی کی حسین دنیا سے راز ونیاز کیلئے آمروں کے استبداد و زرداروں کے حیلہ ساز رکاوٹوں کو عبور کیا تھا، جنہیں اس راہ میں جانانِ جاں کی فراخ گرم بانہیں چھوڑنا پڑی تھیں۔ جنہوں نے پیاروں  سے دور برسوں زندانوں کو آباد کئے رکھا تھا۔ کیا وہ خود یاان کی قربانیوں سے آگاہ لوگ.....’منڈی‘ منڈی تائو بھائو، آئو آئو....کے نعروں پر بے دم نہ ہوئے ہونگے؟ کیا وہ یہ نہ سوچتے ہونگے کہ تاریخ نے سول بالا دستی و عوامی حقوق کیلئے بے مثال جدوجہد اس خاطر باہم محفوظ کرلی تھی کہ کل اس میں ’منڈی‘ جیسی اصطلاح بھی مرقوم ہوسکے۔ شاید میں بے جا جذباتی ہورہا ہوں، لیکن سینیٹ کے انتخابات کے حوالے سے ’منڈی‘ کے سرِعام تذکرے پر ذرا غور فرمائیے گا....پاکستان میں ’منڈی‘ ذو معنی لفظ ہےجسکا متبادل ’بازار‘ ہے۔ اور یہ دونوں باعزت نام ہیں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ ان میں جائز مفید خرید و فروخت ہو! یہ نام مگر ناجائز یعنی’بے لباس‘ لین دین کے لیے بھی مستعمل ہے۔ جیسے ہیرا منڈی یابازارِ حُسن ....اب چونکہ کہا جاتا ہے کہ ان انتخابات میں سرعام (یعنی عریاں) ناجائز لین دین ہوا، تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان انتخابات کے حوالے سےکونسی ’منڈی‘ کا ذکر ہورہا ہوگا۔ پھر ہیرا منڈی میں بیٹھے و جاتے لوگوں کی تو ’کوئی‘ مجبوری ہوسکتی ہے! لیکن شرمناک امر یہ ہے کہ جمہوریت و عوامی حق کے ’قزاقوں‘ کی کوئی مجبوری بھی نہیں، پھر بھی منڈی جانے اور لگانے سے باز نہ آئے...یہ ہیں ہوسِ زر وہوس ِاقتدار کے وہ بھوکے...جن کا گناہ اُن سے بھی بڑا ہے، جو کسی بھی سبب ’’صرف ذات‘‘ کو بیچتے ہیں اور یہ نام نہاد رہبران، قوم کو بیچتے ہیں..... لہٰذا میں یہ سوچتا ہوں کہ اگر مجھ جیسا ایک ادنیٰ طالب علم اتنا جذباتی ہوسکتا ہے تو انکا کیا حال ہوگا، جنہوں نے اس دشت کی سیاحی میں ایک عمر بیتادی، جوانی گنوادی.... میرے اس خیال کے مہمیز کا سبب بالخصوص وہ لائقِ مطالعہ کتاب ہے، جو گزشتہ چار روز سے زیر مطالعہ ہے۔ یہ کتاب راقم کو پروفیسر ڈاکٹر الطاف ہاشمی صاحب نے ازراہ شفقت بھیجی ہے۔ ڈاکٹر صاحب سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (SIUT) میں اونکولوجی ڈپارٹمنٹ کے سربراہ ہیں۔ کراچی کے سابقہ ایڈمنسٹریٹر اور مرنجان مرنج شخصیت کے مالک کیپٹن فہیم الزمان صاحب کی مہربانی سے مجھے ڈاکٹر صاحب سے شرف ملاقات حاصل ہوئی تھی۔ یہ کتاب ’’سورج پہ کمند‘‘ ڈاکٹر حسن جاوید اور محسن ذوالفقار کی مشترکہ کاوشوں کا عرق ہے جو لندن میں مقیم ہیں۔ یوں تو 599صفحات پر مشتمل یہ کتاب این ایس ایف کی تاریخ ہے۔ جیسا کہ سرورق پر بھی تحریر ہے۔ ’’نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی کہانی، کارکنوں اور واقعات کی زبانی‘‘ لیکن درحقیقت این ایس ایف کے بانیان تا سرگرم کارکنوں کی روداد، سے نہ صرف یہ کہ آپکو قیام پاکستان تا امروز اس تنظیم کی جدوجہد کا عکس نظر آئے گا بلکہ بیان کردہ ’کہانی‘ پڑھتے پڑھتے آپ اس دور کی دیگر طلبہ تنظیموں، سیاسی جماعتوں اور حکمرانوں کے کردار سے یوں آگاہ ہوتے چلے جائیں گے جیسے کہ آپ خود اس دور میں موجود ہیں۔ راقم کی اس کتاب میں دلچسپی کی ایک وجہ پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے وابستگی بھی ہے، اور پختون ایس ایف و این ایس ایف حلیف تنظیمیں رہی ہیں۔
آپ جانتے ہیں ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن (ڈی ایس ایف) نے 1951ء کے طلبہ یونین کے الیکشن میں تمام بڑے تعلیمی اداروں میں برتری حاصل کی۔ کمیونسٹ پارٹی پر پابندی کے بعدڈی ایس ایف پر بھی 1954ء میں پابندی لگادی گئی جس کے بعد یہ طلبہ دیگر طلبہ تنظیموں کے ساتھ آل پاکستان اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن میں یکجا ہوئے لیکن اس پر بھی پابندی لگ گئی۔ اس دور میں نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن موجود تھی لیکن وہ دائیں بازواور حکومت نواز تنظیم تھی، صورت حال کو دیکھتے ہوئے حکمت کے تحت ترقی پسند، نیشنل اسٹوڈینٹس فیڈریشن میں شامل ہوگئے اور جلد اُس پر قبضہ کرلیا۔ 60ء کی دہائی میں ہونے والے طلبہ یونین کے الیکشنوں میں این ایس ایف نے تاریخی کامیابی حاصل کی۔ اس تنظیم نے جنرل ایوب خان کی فوجی حکومت کے خلاف کئی تحریکیں برپا کیں، 1968میں ایوب خان کے 10سالہ جشن کے خلاف سڑکوں پر آئی، تو اُس وقت کی سب سے بڑی ترقی پسند جماعت نیشنل عوامی پارٹی اور عوامی لیگ بھی جدوجہد میں شامل ہوگئیں۔ اس تحریک کے نتیجے ہی میں ایوب خان سیاست دانوں کی گول میز کانفرنس بلانے اور اقتدار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ قبل ازیں جب پاکستان پیپلز پارٹی معرض وجود میں آئی، تو این ایس ایف کے بیشتر ساتھیوں نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔ اس موقع پر عبدالحمید چھاپرا نے معراج محمد خان کی پیپلز پارٹی میں شمولیت کے فیصلے سے اختلا ف کیا۔ اُس وقت این ایس ایف کی بڑی تعداد نیشنل عوامی پارٹی سے وابستہ تھی۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے، کہ این ایس ایف یا دیگر ترقی پسند تنظیموں کے کارکنوں نے ایسا نہیں کہ صرف سیاست میں نام کمایا بلکہ وہ تعلیم کے میدان میں بھی نمایاں رہے۔ دوسرے معنوں میں ہر دو حوالوں سے ’سورج پہ کمند‘ ڈالی۔ اس کتاب میں این ایس ایف سے وابستہ 110بڑے نام ہیں، فرصت ملے تو نابغہ روزگار ان شخصیات کی کہانی ضرور ملاحظہ فرمائیں۔ زمانہ طالب علمی کے بعد بالخصوص ان کی عملی زندگی کا مطالعہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ بڑے لوگ اپنے نظریات اور آدرشوں سے اس قدر مخلص تھے کہ جس شعبے میں بھی گئے، انسانیت کی خدمت ہی ان کی ترجیح ِاول رہی۔ جناب ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کا ادارہ ایس آئی یو ٹی اس کی ایک روشن و بے نظیر مثال ہے، عابد حسن منٹو، صلاح الدین گنڈاپور، عبدالحمید چھاپرا، مجاہد بریلوی، نظریاتی کمٹڈ اصحاب کی ایک طویل فہرست ہے... لیکن وائے ستم.... آج جب پردہ گرتا ہے تو ایک انقلاب نظروں کے سامنے ہے، اہلِ پنجاب اینٹی اسٹیبلشمنٹ، اور پیپلز پارٹی ’پرو‘ اسٹیبلشمنٹ!! ایک ایسی جمع غفیر ’منڈی‘ میں ہے، جو کل تک سوشلزم، سیکولرازم اور جمہوریت کی بالادستی کی دعویدار تھی ۔ ایسے عالم میں بے اختیار حکیمِ ہند مولانا ابوالکلام آزاد کی رباعی زبانِ بے اثر پر مچلنے لگتی ہے......
تھا جوش و خروش اتفاقی ساقی
اب زندہ دِلی کہاں ہے باقی ساقی
میخانے نے رنگ و روپ بدلا ایسا
مے کش مے کش رہا، نہ ساقی ساقی
کالم پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998

تازہ ترین