• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تیر کمان سے نکل چکا،الفاظ زبان سے ادا ہو چکے اب ان الفاظ کی تشریح جو بھی کرنیکی کوشش کی جائے،اگر مگر چوں کہ چناچہ سب رائیگاں ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ’’مک مکا‘‘ کی ہنڈیا بیچ چوراہے میں خود ہی پھوڑ ڈالی ہے۔ یہ وہی مک مکا ہے جس کے بارے میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان گزشتہ عام انتخابات کے بعد سے چلا رہے ہیں اور چوہدری صاحب نے جوش جذبات میں ضرورت سے زیادہ سچ بولتے ہوئے نہ صرف اس مک مکا کی تصدیق کر دی بلکہ اس کے عوض قائد حزب اختلاف کو مراعات دینے کی مخبری بھی کر ڈالی۔ وفاقی وزیر داخلہ کو اس ’’ مک مکا ‘‘ میں شریک جرم ہونے کا احساس ذرا تاخیر سے ہوا تو اٹھائیس گھنٹوں بعد ایک وضاحتی بیان کے ذریعے اس آگ پر پانی ڈالنے کی کوشش کی جسے خود ہی سلگایا ہے۔ وضاحتی بیان میں نہلے پہ دہلا مارتے ہوئے کہا گیا کہ وفاقی وزیر داخلہ نے جس مک مکا کا ذکر کیا وہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان دو طرفہ نہیں بلکہ اپوزیشن لیڈر کی طرف سے یک طرفہ تھا۔ گویا اپوزیشن لیڈر مراعات کسی غیبی حکومت سے لیتے رہے ہیں۔ وفاقی وزارت داخلہ کے ترجمان کی اس وضاحت پر تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ۔۔اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا۔ بھولے بادشاہو،مک مکا بھی کبھی یک طرفہ ہوا ہے،جناب مک مکا تو ہوتا ہی دو طرفہ ہے ،تالی بھی کبھی ایک ہاتھ سے بجی ہے اب کیوں ایسی بھونڈی وضاحتوں سے مزید بھد اڑانی ہے،پنجابی میں ایسی صورتحال کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ’’کھچ وج گئی اے‘‘۔ آپ اتنی جلدی بھول گئے کہ ایسی ہی ایک ’’کھچ ‘‘ کچھ عرصہ قبل پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن اورسابق صدرپاکستان نے ماری تھی جس کے بعد ان کی ’’بیماری‘‘ اتنی پیچیدہ ہوگئی کہ تاحال ان کا علاج بیرون ملک میں ہی جاری ہے اور مستقبل قریب میں ’’شفا‘‘ حاصل ہونے کا کوئی امکان نہیں ۔ وفاقی وزیر داخلہ کے بیان پر پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کی طرف سے باجماعت شدید رد عمل نے واضح کر دیا ہے کہ حکومت کو اس غلطی پر بہرحال اب کفارہ تو ادا کرنا ہی پڑے گا اور قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے تو اپنے اوپر عائد کئے گئے الزامات کا جواب براہ راست وزیر اعظم سے طلب کیا ہے۔حکومت کی یہ خوش قسمتی ہے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے میں ابھی دو ہفتے باقی ہیں جبکہ سینیٹ کا اجلاس مارچ میں ہو گا اوراگر وہ ہوش کے ناخن لیں تو تب تک معاملہ ٹھنڈا کیا جا سکتا ہے لیکن اگر رانا تنویر جیسے دیگر لیگی وزراء بھی اسی طرح آستینیں چڑھاتے رہے تو پھر دما دم مست قلندر ہی ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان پیپلزپارٹی کو چوہدری نثار علی خان سے خصوصی بیر ہے اور یہ بیر تب سے شروع ہوا ہے جب انہوں ںے بد عنوانی کے کچھ مقدمات کی ایف آئی اے کے ذریعے تفتیش کرنے سے ہاتھ اٹھانے سے انکار کر دیا تھا۔ پیپلز پارٹی کی ان کے ساتھ رنجش ڈاکٹر عاصم کے مقدمے اوررینجرز کی توسیع کے معاملے کے بعد مزید گہری ہو گئی لیکن سخت گیر راجپوت نے کوئی بھی کمپرومائز کرنے سے معذرت کر لی۔ بس پھر کیا تھا پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی ہدایات پر ساری توپوں کا رخ ان کی طرف ہو گیا اور جب اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے بھی آنے بہانے تنقید کا نشانہ چوہدری نثار کو ہی بنایا تو صبر کا پیمانہ لبریز ہونا بھی فطری امر تھا۔ سندھ اور وفاق کے معاملات اپنی جگہ لیکن پارلیمان کے دو منجھے ہوئے سینئر اور تجربہ کار رہنمائوں نے ایک دوسرے سے متعلق جو لب ولہجہ اختیار کیا اس پر صرف افسوس کا اظہار ہی کیا جا سکتا ہے۔ بقول چوہدری شجاعت حسین کے ،کسی کو اچھا لگے یا برا، چوہدری نثار جو دل میں ہوتا ہے کہہ دیتے ہیں،اسی کے مطابق اگر انہوں نے شاہ صاحب پر مک مکا کے تحت حکومت سے مراعات لینے کے الزامات عائد کئے تو رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے سائیں نے بھی چوہدری صاحب جیسے جمہوریت پسند کو ’’ان ‘‘کا بندہ قرار دینے میں ذرا تامل نہیں کیا۔ اس طرح اگر بطور اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کی وفاقی و زیر داخلہ پر تنقید غیر ضروری اور بلا جواز تھی تو چوہدری نثار کا رد عمل بھی کسی طور دانشمندانہ نہیں تاہم چوہدری نثار جیسے مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنمائوں کو یہ ذہن سے محو نہیں ہونے دینا چاہئے کہ وہ اب حکومت میں ہیں اور حکومت میں رہتے ہوئے بہت کچھ سننا اور سہنا پڑتا ہے۔ یہی پیپلز پارٹی بطور اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار کی طویل تقاریر نہ صرف بڑے صبر سے سنتی تھی بلکہ تنقید کو جمہوری حق گردانتے ہوئے سر آنکھوں پر لیتی تھی۔ پارلیمانی جمہوریت میں اپوزیشن کا کام ہی تنقید کرنا اور روٹھنا ہے جبکہ حکومت کی ذمہ داری اپوزیشن کو اعتماد میں لینے اور راضی رکھنے کی ہے لیکن آدھی مدت پوری کرنے کے بعد بھی لیگی وزراء کے رویوں سے ظاہر ہوتا ہے جیسے وہ خود کو ابھی تک اپوزیشن ہی سمجھ رہے ہیں۔ چوہدری نثار کی دیانتداری اور راست گوئی یقینا شک و شبہے سے بالاتر ہے لیکن بطور وفاقی وزیر انہوں نے اپوزیشن لیڈر جیسے اہم منصب کی ساکھ پر سوالات اٹھا کر اپنی جماعت اور قائد ایوان کو بھی مشکل میں ڈال دیا ہے۔ اس میں بھی شبہ نہیں کہ یہ وہی اپوزیشن لیڈر ہیں جنہوں نے دھرنے کے دوران تھرڈ امپائر کی انگلی اٹھنے سے روکنے کے لئے وزیر اعظم کو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کرنے کامشورہ دیا تھا اور لیگی وزراء بڑی معصومیت سے ان سے استفسار کرتے تھے کہ شاہ جی اس سے کیا ہوگا تو وہ مسکراتے ہوئے کہتے تھے کہ تم خود دیکھ لو گے۔ ’’مراعات‘‘ لینے والے خورشید شاہ ایسے ’’سائیں‘‘ ہیں کہ ان کا ذاتی اسلحہ لائسنس بغیر تجدید کے آج بھی ان کے اسٹاف افسرکے میز کی دراز میں اسلئے پڑا ہے کیوں کہ وزارت داخلہ نے ڈیڈ لائن گزر جانے کی وجہ سے ان کی تجدید کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ شنید یہ ہے کہ سید خورشید شاہ نے اپنے عملے کو ہدایت دی ہے کہ بطور اپوزیشن لیڈر انہوں نے اب تک وزیر اعظم پاکستان اور وفاقی کابینہ کے ارکان سے جتنے بھی ’’کام‘‘ لئے ہیں ان کی تفصیلات اکھٹی کی جائیں۔وہ یہ تمام حقائق قومی اسمبلی کے آئندہ اجلاس میں پیش کرینگے ،ان تفصیلات میں وہ تمام خطوط بھی شامل ہیں جو انہوں نے بطور اپوزیشن لیڈر وزیر اعظم پاکستان کو تحریر کئے جن میں کسی غریب مریض کے کینسر کے علاج،کسی بے بس شخص کے لیور ٹرانسپلانٹ یا کسی بیوہ کی بیٹی کی شادی کے اخراجات کیلئے ’’مراعات‘‘ طلب کی گئی تھیں۔ قومی اسمبلی کے آئندہ اجلاس کے دوران ممکنہ طور پر پیدا ہونیوالی صورتحال وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ ن کے ساتھ یقینا جمہوریت کے لئے بھی زیادہ خوش کن نہیں ہو گی کیوں کہ اپوزیشن لیڈر برملا اعلان کر چکے ہیں کہ اگر ان کے خلاف عائد الزامات ثابت ہو گئے تو وہ سیاست کو خیر باد کہہ دیں گے جبکہ دوسری طرف وفاقی وزیر داخلہ اپنے اس مؤقف پر قائم ہیں کہ اپوزیشن لیڈر حکومت سے فوائد حاصل کرتے رہے ہیں جس کے ثبوت بھی وہ پیش کر سکتے ہیں۔ سید خورشید شاہ صاحب کے ’’حقائق‘‘ کے جواب میں اگر وفاقی حکومت ان کی زمینوں کی ملکیت سے لے کر بجلی کے بھاری واجب الادا بلوں اور وزارت مذہبی امور میں ہونیو الی مبینہ بے قاعدگیوں سے لے کر کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل کرنے کے معاملات میں گڑ بڑ کی تفصیلات قوم کے سامنے رکھےگی تو پھر یہی ہو گا کہ۔۔بات نکلے گی تو بہت دور تلک جائے گی۔ ابھی کل کی بات ہے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران چوہدری نثار کی چوہدری اعتزاز احسن کے ساتھ جھڑپ پر وزیر اعظم کو نہ صرف سبکی کا سامناکرنا پڑا تھا بلکہ انہوں نے معذرت بھی کی تھی۔ چوہدری نثار کے اسی جارحانہ رویے کی وجہ سے متحدہ اپوزیشن نے بائیکاٹ کرتے ہوئے ملکی تاریخ میں پہلی بار پارلیمنٹ کے احاطے میں سینیٹ کا متوازی اجلاس بھی منعقدکیا تھا تاہم موجودہ ملکی حالات اس طرح کی کسی محاذ آرائی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ آخر میں دونوں فریقوں سے گزارش ہے کہ وہ تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ذات کو نشانہ بنانے کی بجائے ایک دوسرے کی پالیسیوں تک محدود رکھیں تاکہ اصلاح کے ذریعے مزید بہتری لائی جاسکے وگرنہ اس بار انہیں شاید ایک نئے ’’ مک مکا ‘‘ پر دستخط کرنے کی مہلت بھی نہ ملے۔ اگر ایسا ہوا تو پھر ’’ انجام گلستاں کیا ہوگا‘‘
تازہ ترین