• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سفارت کاروں کو دنیا کے ہر ملک میں خصوصی تحفظ اور مراعات حاصل ہوتی ہیں حتیٰ کہ زمانہ جنگ تک میں ان کا پورا لحاظ رکھا جاتا ہے لیکن پاکستان کے ساتھ موجودہ بھارتی حکومت کے تعصب اور تنگ نظری کا عالم یہ ہے کہ تاریخ کے ہر دور میں رائج رہنے والی ان دائمی روایات اور مستقل اصولوں کو پامال کرنے میں بھی اسے کوئی جھجک لاحق نہیں ہوتی۔بھارت میں پاکستانی سفارت کار ان دنوں جس اذیت ناک صورت حال سے دوچار ہیں اس کا کچھ اندازہ سفارتی ذرائع سے منظر عام پر آنے والی ایک تازہ رپورٹ کے ان الفاظ سے لگایا جاسکتا ہے کہ ’’بھارت میں پاکستانی سفارت کار وں اور ان کے اہل خانہ کو ہراساں کرنے کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس کے باعث انہیں وہاں تعینات رکھنا مشکل ہو گیاہے‘‘ ۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ نئی دہلی میں پاکستانی سفارت کار اور ان کے اہل خانہ کو دھمکیاں دینے اور ہراساں کیے جانے پر اسلام آباد نے بھرپور احتجاج کرتے ہوئے واضح کردیا ہے کہ اگر یہ سلسلہ نہ رکا تو سفارت کاروں کو ان کے خاندانوں سمیت واپس بلالیا جائے گا۔ بتایا گیا ہے کہ پاکستانی سفارت کاروں کو ہراساں کرنے کی اس مہم میں پچھلے تین دنوں میں خاص طور پر تیزی دیکھی گئی ہے۔سفارت کاروں کے اسکول جانے والے بچے اور عوامی مقامات پر سفارتی عملے کے ارکان اس مہم کا نشانہ بنائے جارہے ہیں۔ اس تفصیل سے واضح ہے کہ مودی حکومت جس نے پاک بھارت تنازعات کو بامقصد اور پرامن مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی تمام پاکستانی کوششوں سے مسلسل فرار کی راہ اختیار کررکھی ہے، دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کو مزید کشیدگی کی راہ پر لے جانے پر تلی ہوئی ہے۔ پاکستانی سفارت کاروں کے اسکول جانے والے بچوں تک کو ہراساں کرنے کی مہم سے بھارتی حکومت کے جس قدر پست طرز فکر کا اظہار ہوتا ہے وہ محتاج وضاحت نہیں۔ جبکہ حالات کو کشیدہ رکھنے کیلئے لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج کی جانب سے 2003 ءکے جنگ بندی معاہدے کی بلا جواز خلاف ورزیاں پورے مودی دور میں روز کا معمول بنی چلی آرہی ہیں۔ ان سرحدی خلاف ورزیوں کی تعداد گزشتہ سال سب سے زیادہ رہی اور بھارتی فوجیوں کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے پاکستانی باشندوں کی مجموعی تعداد 87 تک جاپہنچی۔پاکستان کے خلاف کشیدگی اور نفرت کی فضا قائم رکھ کر ، جس میں اب پاکستانی سفارت کاروں اور ان کے بچوں تک کو ہراساں کرنے کی کارروائیاں بھی شامل ہوگئی ہیں، مودی سرکار بھارتی عوام کے سامنے اپنے جنگی جنون اور ہتھیاروں کے انبار لگانے کی پالیسی کا جواز پیش کرنا چاہتی ہے لیکن فی الحقیقت اس کا یہ پاکستان دشمن رویہ خود بھارتی عوام کے مفادات کے بھی صریحاً منافی ہے ۔ ورلڈ بینک کے مطابق خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے لوگوں کی سب سے بڑی تعداد بھارت میں ہے۔ 732ملین یعنی 73کروڑ 20لاکھ بھارتی باشندے گھروں میں ٹوائلٹ تک کی سہولت سے محروم ہیں جبکہ جنگی تیاریوں اور جدید ترین ہتھیاروں کی خریداری پر اخراجات میں بھارت دنیا کے سرفہرست ملکوں میں شامل ہے۔ بھارت پاکستان کے ساتھ تعلقات معمول پر لے آئے تو دونوں ملک اپنے دفاعی اخراجات کم کرکے پورے جنوبی ایشیا کے عوام کی ترقی اور خوشحالی کیلئے خطیر وسائل مختص کر سکتے ہیں اور یوں بہت تھوڑی مدت میں اربوں انسانوں کی زندگی کی مشکلات ختم کی جاسکتی ہیں۔لہٰذا بھارت کے باشعور اور امن پسند حلقوں کو اپنے حکمرانوں کی تنگ نظری پر مبنی پالیسیوں کے خلاف بھرپور آواز اٹھانی چاہیے اور کم از کم پاکستان کے سفارتی ارکان اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ سفارتی آداب کی پامالی روا رکھے جانے کی تازہ مہم بند کرانے اورتنازعات کے حل کیلئے پرامن بات چیت شروع کرانے کی کوششوں میں اپنا کردار فوری اور مؤثر طور پر ادا کرنا چاہیے کیونکہ سفارتی آداب پامال کرکے مودی حکومت بھارت کو دنیا میں ایک ایسے غیر مہذب اور اجڈ ملک کی حیثیت سے متعارف کرارہی ہے جس کی کوئی نظیر تاریخ میں تلاش کرنا مشکل ہے۔

تازہ ترین