• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عصر حاضر میں وافر توانائی کے بغیر ترقی و خوشحالی کی منزل طے کرنا تو درکنار، اس کا خواب بھی نہیں دیکھا جا سکتا۔ اسے المیہ کہہ لیں یا بددیانتی کہ جب توانائی کی قلت کا آغاز ہوا تو اس کی کمی پوری کرنے کے لئے منصوبہ بندی کرنے کی بجائے نجی شعبے کو آگے لایا گیا اور تیل سے بجلی بنانے پر انحصار بڑھا دیا گیا۔ یہ دونوں فیصلے پاکستان کو مہنگے پڑے، نہ توانائی کی مطلوبہ مقدار حاصل ہو پائی، گردشی قرضے بڑھے اور بجلی کی قیمت میں بھی اضافہ ہوگیا۔ سردست یہ عالم ہے کہ موسم گرما کی آمد آمد ہے اور وزیر توانائی اویس لغاری کچھ روز قبل یہ ’’نوید‘‘ سنا چکے ہیں کہ مطلوبہ اہداف حاصل نہیں ہو پائے چنانچہ گرمیوں میں بھی لوڈشیڈنگ جاری رہے گی۔ حیران کن امر یہ ہے کہ اس دوران میں حکومت کو چین کی معاونت بھی حاصل رہی اور اس نے بجلی کی پیداوار کے متعدد منصوبوں پر کام بھی مکمل کیا لیکن عوام کی پریشانی ختم نہ ہو سکی۔ بجلی کا بحران شروع ہوا اور زور پکڑ گیا تو ملک کے دانشوروں اور سائنسدانوں نے حکومت کو متبادل ذرائع پر انحصار بڑھانے کی تجاویز دیں۔ جن میں ہوا، سورج کی روشنی اور کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کی تجاویز قابلِ عمل ہیں۔ اٹامک انرجی بھی ایک اہم متبادل ذریعہ ہے۔ حکومت کو چھوٹے ڈیم بنانے کا بھی مشورہ دیا گیاکہ پاکستان قلت آب کا بھی سامنا کر رہا ہے۔ حکومت نے اس ضمن میں کام بھی کیا لیکن بھرپور توجہ نہ دی گئی، ساہی وال میں کول پاور پروجیکٹ لگایا گیا۔ بہرکیف اب حکومت نے تھر میں موجود کوئلے سے استفادہ کرنے کا ارادہ کرتے ہوئے 990میگاواٹ بجلی حاصل کرنے کے نئے معاہدے طے کر لئے ہیں۔ تین سالہ مدت کے یہ معاہدے دو نجی کمپنیوں سے کئے گئے ہیں جن پر ایک ارب 41کروڑ ڈالر کی لاگت آئے گی۔ توانائی کے بحران پر قابو پانے کے سلسلے میں یہ ایک بہتر فیصلہ ہے لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ کوئلے سے بجلی بنانے پر دنیا کو تحفظات بھی ہیں لہٰذا ساتھ ساتھ دیگر پیداواری کے منصوبوں پر بھی توجہ دی جانی چاہئے تاکہ ملک کو توانائی کے بحران سے نجات مل سکے۔

تازہ ترین