• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مختلف وجوہات کی بنا پر لاہور میں ایک ہی دن میں تین افراد کی خود کشی کے واقعات معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے اطمینانی اور بے چینی کے عکاس ہیں۔ آئے دن مختلف شہروں سے ایسی خبریں آتی رہتی ہیں۔ ان میں زیادہ تعداد 30سال سے کم عمر کے نوجوانوں اور شادی شدہ خواتین کی ہوتی ہے۔ ایک عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال اقدام خود کشی کرنے والوں کی تعدادڈیڑھ لاکھ تک جبکہ خود کشی کے باعث ہلاک ہو جانے والوں کی تعدادہزاروں میں بتائی جاتی ہے۔ ہمیں من حیث القوم سوچنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے۔ اس رجحان کو روکنے کیلئے والدین واساتذہ ، بالخصوص علما کرام کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ ان وجوہات کا تعین کیا جانا چاہئے جن کی تحت یہ واقعات رونما ہوتے ہیں۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز اسلام آباد میں گزشتہ برس550ایسی خواتین کو لایا گیا جنہوں نے خود کشی کی کوشش کی۔ ان میں زیادہ تر شادی شدہ تھیں جنہوں نے گھریلو ناچاقی اور دیگر مسائل کی وجہ سے یہ قدم اٹھایا۔ اسی طرح ملک کے 35شہروں میں گزشتہ دو سال کے دوران 300 کی تعداد میں ایسی اموات ہوئیں جن کی رپورٹ کا تھانوں میں اندراج کرایا گیا جبکہ اس سے کہیں زیادہ تعداد ایسے واقعات کی ہوتی ہے جن میں سماجی بدنامی سے بچنے کے لئے ایسی موت پر پردہ ڈالنا ہی بہتر سمجھا جاتا ہے۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ والدین اپنی جوان اولاد کے رویوں میں اگر غیر معمولی تبدیلیاں محسوس کریں تو اسے نظر انداز نہ کریں۔ نوجوان کسی بھی ملک و قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں جو گزشتہ اور آنے والی نسلوں میں رابطے کا کردار ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح خواتین کے اقدام خود کشی کے واقعات میں ہونے والا اضافہ معاشرے میں بے چینی کا پتہ دیتا ہے۔ حکومت اور ماہرین نفسیات اور دینی رہنماؤں کو معاشرے سے بے انصافی کی ہر شکل کے خاتمے کے ذریعے اس صورت حال کے سدباب کیلئے نتیجہ خیز اقدامات کرنا ہوں گے۔

تازہ ترین