• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئیے ہم اپنے مذہب اور ثقافت سے متعلق واقعات و معلومات کے بارے میں چند باتیں کرتے ہیں جو دلچسپ بھی ہیں اور سبق آموز بھی۔
واقعہ حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت کا ہے آپ پڑھئے آپ کی آنکھیں نم ہوجائینگی بلکہ آنسو ٹپکنے لگیں گے۔ یہ ہمارے مذہب کی شاندار حقیقت ہے۔
دو نوجوان سیدنا عمرؓ کی محفل میں داخل ہوتے ہی محفل میں بیٹھے ایک شخص کے سامنے جاکر کھڑے ہوجاتے ہیںاور اسکی طرف انگلی کرکے کہتے ہیں یا عمرؓ یہ ہے وہ شخص! سیدنا عمرؓ ان سے پوچھتے ہیں، کیا کیا ہے اس شخص نے؟ یاامیرالمومنین، اس نے ہمارے باپ کو قتل کیاہے۔سیدنا عمرؓ پوچھتے ہیں۔ کیا کہہ رہے ہو، اس نے تمہارے باپ کو قتل کیا ہے؟ سیدنا عمرؓ اس شخص سے مخاطب ہوکر پوچھتے ہیں، کیا تو نے اس کے باپ کو قتل کیا ہے؟ وہ شخص کہتا ہے: ہاں امیرالمومنین، مجھ سے قتل ہوگیا ہے اس کا باپ۔ کس طرح قتل کیا ہے؟ سیدنا عمرؓ پوچھتے ہیں۔ یا عمرؓ، اس کا باپ اپنے اونٹ سمیت میرے کھیت میں داخل ہوگیا تھا، میں نے منع کیا، باز نہیں آیا تو میں نے ایک پتھر دے مارا جو سیدھا اس کے سر میں لگا اور وہ موقع پر ہی مرگیا۔ پھر تو قصاص دینا پڑے گا، موت ہے اسکی سزا۔ سیدنا عمرؓ کہتے ہیں۔ نہ فیصلہ لکھنے کی ضرورت، اور فیصلہ بھی ایسا اٹل کہ جس پر کسی بحث و مباحثے کی بھی گنجائش نہیں، نہ ہی اس شخص سے اسکے کہنے کے بارے میں کوئی سوال کیا گیا ہے، نہ ہی یہ پوچھا گیا ہے کہ تعلق کس خاندان سے ہے، نہ ہی یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے کہ تعلق کسی معزز قبیلے سے تو نہیں، معاشرے میں کیا رتبہ یا مقام ہے؟ ان سب باتوں سے بھلا سیدنا عمرؓ کو مطلب ہی کیا ہے!! کیوں کہ معاملہ اللہ کے دین کا ہو تو عمرؓ پر کوئی اثر انداز نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی اللہ کی شریعت کے معاملے پر عمرؓ کو روک سکتا ہے۔ حتیٰ کہ سامنے عمرؓ کا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ قاتل کی حیثیت سے آ کھڑا ہو، قصاص تو اس سے بھی لیا جائے گا۔
وہ شخص کہتا ہے اے امیرالمومنین: اس کے نام پر جس کے حکم سے یہ زمین و آسمان قائم کھڑے ہیں مجھے صحرا میں واپس اپنی بیوی بچوں کے پاس جانے دیجئے تاکہ میں انکو بتا آئوں کہ میں قتل کردیا جائوں گا۔ ان کا اللہ اور میرے سوا کوئی آسرا نہیں ہے، میں اسکے بعد واپس آجائوں گا۔ سیدنا عمرؓ کہتے ہیں:کون تیری ضمانت دے گا کہ تو صحرا میں جاکر واپس بھی آجائے گا؟ مجمع پر ایک خاموشی چھا جاتی ہے۔ کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جو اس کا نام تک بھی جانتا ہو۔ اسکے قبیلے، خیمے یا گھر وغیرہ کے بارے میں جاننے کا معاملہ تو بعد کی بات ہے۔کون ضمانت دے اس کی؟ کیا یہ دس درہم کے ادھار یا زمین کے ٹکڑے یا کسی اونٹ کے سودے کی ضمانت کا معاملہ ہے؟ ادھر تو ایک گردن کی ضمانت دینے کی بات ہے جسے تلوار سے اڑا دیا جانا ہے۔ اور کوئی ایسا بھی تو نہیں ہے جو اس شخص کی سفارش کیلئے ہی کھڑا ہوجائے۔ اور کوئی ہو بھی نہیں سکتا جو سفارشی بننے کاسوچ سکے۔ محفل میں موجود صحابہ کرام پر ایک خاموشی چھا گئی ہے، اس صورتحال سے خود عمرؓ بھی متاثر ہیں کیونکہ اس شخص کی حالت نے سب کو ہی حیرت زدہ کر دیا ہے۔ کیا اس شخص کو واقعی قصاص کے طور پر قتل کردیا جائے اور اس کے بچے بھوکوں مرنے کیلئے چھوڑ دیئے جائیں؟ یا پھر اس کو بغیر ضمانتی کے واپس جانے دیا جائے؟ واپس نہ آیا تو مقتول کا خون رائیگاں جائے گا! خود سیدنا عمرؓ سر جھکائے افسردہ بیٹھے ہیں اس صورتحال پر، سر اُٹھا کر التجا بھری نظروں سے نوجوانوں کی طرف دیکھتے ہیں، معاف کر دو اس شخص کو۔ نہیں امیرالمومنین، جو ہمارے باپ کو قتل کرے اس کو چھوڑ دیں، یہ تو ہو ہی نہیں سکتا، نوجوان اپنا آخری فیصلہ بغیر کسی جھجھک کے سنا دیتے ہیں۔ عمرؓ ایک بار پھر مجمع کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پوچھتے ہیں، اے لوگو، ہے کوئی تم میں سے جو اس کی ضمانت دے؟ ابوذر غفاریؓ اپنے زہد و صدق سے بھرپور بڑھاپے کے ساتھ کھڑے ہو کر کہتے ہیں میں ضمانت دیتا ہوں اس شخص کی۔ سیدنا عمرؓ کہتے ہیں ابوذر، اس نے قتل کیا ہے۔ چاہے قتل ہی کیوں نہ کیا ہو، ابوذرؓ اپنا اٹل فیصلہ سناتے ہیں۔ عمرؓ: جانتے ہو اسے؟ ابوذرؓ: نہیں جانتا اسے۔ عمرؓ: تو پھر کس طرح ضمانت دے رہے ہو؟ ابوذرؓ : میں نے اس کے چہرے پر مومنوں کی صفات دیکھی ہیں، اور مجھے ایسا لگتا ہے یہ جھوٹ نہیں بول رہا، انشاء اللہ یہ لوٹ کر واپس آجائے گا۔ عمرؓ: ابوذر دیکھ لو اگر یہ تین دن میں لوٹ کر نہ آیا تو مجھے تیری جدائی کا صدمہ دیکھنا پڑے گا۔ امیرالمومنین، پھر اللہ مالک ہے۔ ابوذرؓ اپنے فیصلے پر ڈٹے ہوئے جواب دیتے ہیں۔
سیدنا عمرؓ سے تین دن کی مہلت پاکر وہ شخص رخصت ہو جاتا ہے، کچھ ضروری تیاریوں کیلئے، بیوی بچوں کو الوداع کہنے، اپنے بعد ان کے لئے کوئی راہ دیکھنے اور اس کے قصاص کی ادائیگی کیلئے قتل کئے جانے کی غرض سے لوٹ کر واپس آنے کیلئے۔ اور پھر تین راتوں کے بعد، عمرؓ بھلا کیسے اس امر کو بھُلاپاتے، انہوں نے تو ایک ایک لمحہ گن کر کاٹا تھا، عصر کے وقت شہر میں (الصلاۃ جامعہ) کی منادی پھر جاتی ہے، نوجوان اپنے باپ کا قصاص لینے کیلئے بے چین اور لوگوں کا مجمع اللہ کی شریعت کی تنفیذ دیکھنے کیلئے جمع ہوچکا ہے۔ ابوذرؓ بھی تشریف لاتے ہیں اور آکر عمرؓ کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔ کدھر ہے وہ آدمی؟ سیدنا عمرؓ سوال کرتے ہیں۔ مجھے کوئی پتہ نہیں ہے یاامیرالمومنین، ابوذرؓ مختصر جواب دیتے ہیں۔ ابوذرؓ آسمان کی طرف دیکھتے ہیں ، سورج ڈوبنے کی جلدی میں معمول سے زیادہ تیزی کے ساتھ جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ محفل میں ہو کا عالم ہے، اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ آج کیا ہونے جارہا ہے؟ یہ سچ ہے کہ ابوذرؓ سیدنا عمرؓ کے دل میں بستے ہیں، عمرؓ سے ان کے جسم کا ٹکڑا مانگیں تو عمرؓ دیر نہ کریں کاٹ کر ابوذرؓ کے حوالے کردیں، لیکن ادھر معاملہ شریعت کا ہے، اللہ کے احکامات کی بجاآوری کا ہے، کوئی کھیل تماشہ نہیں ہونے جارہا، نہ ہی کسی کی حیثیت یا صلاحیت کی پیمائش ہورہی ہے، حالات و واقعات کے مطابق نہیں اور نہ ہی زمان و مکان کو بیچ میں لایا جانا ہے۔ قاتل نہیں آتا تو ضامن کی گردن جاتی نظر آرہی ہے۔ مغرب سے کچھ پہلے وہ شخص آجاتا ہے، بے ساختہ حضرت عمرؓ کے منہ سے اللہ اکبر کی صدا نکلتی ہے، ساتھ ہی مجمع بھی اللہ اکبر کا ایک بھرپور نعرہ لگاتا ہے۔ عمرؓ اس شخص سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں اے شخص، اگر تو لوٹ کر نہ بھی آتا تو ہم نے تیرا کیا کرلینا تھا، نہ ہی کوئی تیرا گھر جانتا تھا اور نہ ہی کوئی تیرا پتہ جانتا تھا! امیرالمومنین، اللہ کی قسم، بات آپکی نہیں ہے بات اس ذات کی ہے جو سب ظاہر و پوشیدہ کے بارے میں جانتا ہے، دیکھ لیجئے میں آگیا ہوں، اپنے بچوں کو پرندوں کے چوزوں کی طرح صحرا میں تنہا چھوڑ کر، جدھر نہ درخت کا سایہ ہے اور نہ ہی پانی کا نام و نشان۔ میں قتل کردیئے جانے کیلئے حاضر ہوں۔ مجھے بس یہ ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں وعدوں کا ایفاء ہی اُٹھ گیا ہے۔ سیدنا عمرؓ نے ابوذرؓ کی طرف رخ کرکے پوچھا ابوذرؓ، تو نے کس بنا پر اس کی ضمانت دے دی تھی؟ ابوذرؓ نے کہا۔
اے عمرؓ، مجھے اس بات کا ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں سے خیر ہی اٹھالی گئی ہے۔سیدنا عمرؓ نے ایک لمحے کیلئے توقف کیا اور پھر ان دو نوجوانوں سے پوچھا کہ کیا کہتے ہو اب؟ نوجوانوں نے روتے ہوئے جواب دیا، اے امیرالمومنین، ہم اس کی صداقت کی وجہ سے اسے معاف کرتے ہیں، ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے عفو اور درگزر ہی اٹھا لیا گیا ہے۔ سیدنا عمرؓ اللہ اکبر پکار اٹھے اور آنسو انکی داڑھی کو تر کرتے نیچے گر رہے تھے، اے نوجوانو! تمہاری عفو و درگزر پر اللہ تمہیں جزائے خیر دے۔ اے ابوذرؓ ! اللہ تجھے اس شخص کی مصیبت میں مدد پر جزائے خیر دے۔ اور اے شخص، اللہ تجھے تیرے اس وفائے عہد و صداقت پر جزائے خیر دے۔ اور اے امیرالمومنین، اللہ تجھے تیرے عدل و رحمدلی پر جزائے خیر دے۔
محدثین میں سے ایک یوں کہتے ہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، اسلام اور ایمان کی سعادتیں تو عمرؓ کے کفن کے ساتھ ہی دفن ہوگئی تھیں۔
اور اے اللہ، جزائے خیر دے اس کو، جس نے ترجمہ کرکے اس کو اپنے احباب تک پہنچایا۔ اور اے اللہ، جزائے خیر دینا انکو بھی، جن کو یہ تحریر اچھی لگے اور وہ اسے آگے اپنے دوستوں کو بھیجیں۔ آمین یا رب العالمین۔

تازہ ترین