• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شہباز شریف کو شاباش حرم
امام کعبہ:وزیر اعلیٰ کی انتھک محنت سے پنجاب ترقی کر رہا ہے، وزیر اعلیٰ پنجاب:پاکستان و سعودی عوام کے دل ساتھ دھڑکتے ہیں، اس سے کسی کو انکار نہیں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی جانفشاں خدمت اس قدر عام ہے کہ امام کعبہ الشیخ صالح آل طالب نے پنجاب کی ترقی کو کھل کر سراہا، یہ ایک بڑی ہی متبرک سند ہے، جس کی بلاشبہ قدر کی جانی چاہئے، سعودی عرب ارض حرم ہے، اور پاکستان کے عوام کے دل سعودی عوام کے ساتھ اس لئے دھڑکتے ہیں کہ دونوں میں لازوال توحید کا رشتہ ہے، اور مقدس زمین پر چلنے والا ہر شخص ہر پاکستانی کے لئے واجب الاحترام ہے، المکۃ العربیۃ السعودیۃ ہی وہ مقام ہے جہاں ہر انسان کو داورِ محشر کے حضور اپنا حساب پیش کرنا ہے، یہیں جنت و دوزخ جانے کے فیصلے ہونے ہیں،حج ایسی اہم عبادت بھی اسی سرزمین پر ہوتی ہے، پاک سعودی تعلقات میں کبھی کوئی رخنہ پیدا نہیں ہوا، ہر کٹھن مقام پر سعودی عوام اور حکمراں پاکستان کا دامے، درمے، سخنے عملی ساتھ دیتے رہے ہیں، اور یہ محبت ہے ارض حرم سے کہ اس کی حفاظت کے لئے ہر دور میں پاکستانی فوج کے دستے وہاں موجود رہے ہیں، شریف خاندان کے تمام ادوارِ حکومت میں دونوں ملکوں میں محبتوں میں اضافہ ہوا ہے، کیا ہی اچھا ہو کہ حکومت پاکستان سعودی حکومت سے بیروزگار نوجوانوں کے لئے راستہ ہموار کرے، کیونکہ یہاں بیروزگاری اور مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے، اگرچہ میاں شہباز شریف نے پنجاب کے معاشی حالات کافی بہتر کرنے کی کوشش کی ہے، تاہم ہمارے باقی صوبوں میں حالات قدرے زبوں ہیں، پاکستان کے عوام کے لئے امام کعبہ کا آنا مبارک ہے۔
٭٭٭٭
جو بات کی کفن پھاڑ کی
زیرک و کہنہ مشق صحافی عمر چیمہ نے کہا ہے:عوامی شخصیات نجی زندگی میں کیسی؟ جاننا عوام کا حق ہے ہمارے آسمان سیاست پر جتنے بھی چھوٹے بڑے ستارے چمکے وہ توڑ کر لانے والا صحافی عمر چیمہ ہے، اگر وہ ایسا نہ کرتے تو آج جو ’’حسین مناظر‘‘ دیکھنے کو مل رہے ہیں شاید کبھی نصیب نہ ہوتے، وہ صحافت کی شاعری کرتے ہیں کیسے کیسے چاند ستارے توڑ لاتے ہیں کہ زمین وطن پر سائے اور گہرے ہو جاتے ہیں، عوامی شخصیات اپنی نجی زندگی کو چھپانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتیں، اور ہماری نجی زندگی کو طشت ازبام تو کیا تار تار کرنے میں بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتیں، چیمہ کے چہرے اور خبروں سے صاف ظاہر ہے کہ ایک سود مند تھکن ہے، محنت ہے میٹھے کڑوے پھل والی جو وہ لا لا کر ہماری جھولی میں ڈال دیتے ہیں، اور ہمارے راستے روشن ہو جاتے ہیں اب ہم دیو اور دیوتا دونوں کو الگ الگ واضح دیکھ سکتے ہیں، یہی صحافت ہے، پاناما پیپرز کو پاکستان کے ساحلوں تک وہ لائے، ہر ہیرو کے چھپائے ہوئے زیرو انہوں نے دکھائے، شاید وہ یہ درس دے رہے ہیں کہ عوامی شخصیات کو تو ہر بات اور ہر کام عوام سے پوچھ کر کرنا چاہئے ورنہ عوامی کہلانے کا دعویٰ ترک کر دیں، اگر ایسا نہ ہو تو ہمیں کیونکر معلوم ہو کہ ہمیں کس راستے سے کدھر لے جایا جا رہا ہے، زندہ مردے آخر کیوں گڑے رہنے دیئے جائیں، خبر نگار اگر خبر نہ لائے فسانے لائے تو اسے افسانہ نگار کہیں، خبر نگار کیوں کہتے ہیں، ہمیں خوشی ہے کہ ایک صحافی ہیں جو اس گلوبل ویلیج کو واقعتاً ایک چھوٹا سا گائوں سمجھتے ہیں، جانتے ہیں، اور یہ کام جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، انہیں خبر اچھی لگے، بری لگے جوں کی توں لا کر ہمارے سامنے رکھ دیتے ہیں، عمران خان اگر تیسری بڑی پارٹی بنا کر عوام میں ابھرے ہیں تو پھر عوام کا حق بنتا ہے کہ ان کی زندگی کے فراز بھی دیکھیں نشیب میں بھی اتریں، سیاست ہی جمہوریت کو اس کی حقیقی روح میں پیش کرتی ہے نہیں کرتی تو سیاست نہیں۔
٭٭٭٭
انوکھے، لاڈلے
عوام کو ابتداہی سے انوکھے لاڈلے پالنے کا شوق تھا اور ’’شوق دا کوئی مل ناں‘‘ یہ ووٹ کی طاقت اور جمہوریت کا ’’حسن‘‘ ہی تو ہے کہ بھوکے ننگے رہے مگر اپنے اپنے مٹھو کو موتیوں کی چوری کھلاتے رہے، شاید یہ آئیڈیا انہوں نے موتی چور لڈو سے لیا، یہ الگ بات ہے کہ بعض ’’لڈو‘‘ موتی چور ہوتے ہیں، لڈو اور لاڈلے کے الفاظ بھی کسی ایک لفظ سے نکلے ہیں، اور یہی ایک لفظ فقط ہمارے ہاں جمہوریت ہے جسے ہم نے موتی چور لڈوئوں کی دکان اور ملک کو مٹھوئوں کا آشیانہ بنا دیا، لاڈلوں کا ذکر اور مریم نواز کے ان پر کمنٹس لازم و ملزوم ہو چکے ہیں، محترمہ نے کہا ہے لاڈلے چند دن اور انتظار کر لیں واجد ضیاخود کاغذات کی حقیقت بتا دیں گے، الغرض سیاسی بیانات کاغذ کی نائو ہوتے ہیں، جو کسی واجد ضیاکے کاغذوں سے بنائی جاتی اور سیاست کی ندی میں بہا دی جاتی ہے، جمہوریت کو کسی ایک بھی سچے عاشق نے محبوبہ بنایا ہوتا تو آج اس کی مانگ جوئوں سے نہ بھری ہوتی، جمہوریت جب جب بھی سرکھجاتی ہے بچہ جمہوروں کو بد دعائیں دیتی ہے۔؎
واجدؔ فریادی ہے کسی کی شوخی تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر لاڈلے بے پیر کا
’’پاکستان کا مطلب کیا لا الٰہ الا اللہ‘‘ اس نعرے نے جمہوریت کو وطن دیا، پھر ایک نعرہ روٹی کپڑے مکان کا لگا اس نے فاتحہ، کفن، مکان دیا، اور اب نعرہ تو نہ رہا لیکن یہ سلسلہ یہ سلوک عوامی عدالت کے ساتھ جاری ہے، ہمارے پاس دین سے دنیا تک جتنے بھی سنہری حوالے تھے نعرے تھے، جمہور تھے سب کی کاغذی نائو بنا کر بارش کے پانی میں بہا دی اور یہ کھیل ہم نابالغ 70سال سے کھیل کر تالیاں بجا رہے ہیں، مریم نواز نے سچی بات کہی اس کا تجزیہ اور اس کا نتیجہ دور نہیں، ہم پر کاغذوں کی حقیقت کھل جائے گی، آئین بھی رکھتے ہیں اسے اتنا مستقل کیا کہ آئینہ بن گیا مگر اب اس میں ایک کے بجائے دو چہرے نظر آتے ہیں، قانون کے مفسرین نے جو تفسیر کی جمہوریت جواب کسی کی محبوبہ نہیں روتی پھرتی ہے اپنے ’’جمن والیاں نوں‘‘
٭٭٭٭
بات کچھ عجیب سی ہے
....Oچیف جسٹس پاکستان10:سال پنجاب میں کیا کیا؟
بجا فرمایا، مگر انتھک محنت ضرور کی، رنگ لائے گی ان شاء اللہ،
....Oعمران خان:ہم نے دو پارٹی سسٹم توڑا
جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں دو ہی بڑی جماعتیں ہوتی ہیں۔
آپ شاید یک جماعتی سسٹم لانے کے درپے ہیں۔

تازہ ترین